فروغ نسیم ہمیں میاں بیوی کے بائیولوجیکل ریلیشن شِپ کا سمجھا رہے ہیں؟

Asad Ali Toor
اسد علی طور، صحافی

فروغ نسیم ہمیں میاں بیوی کے بائیولوجیکل ریلیشن شِپ کا سمجھا رہے ہیں، جسٹس قاضی امین

رپورٹنگ از، اسد علی طور، صحافی

دس بج کر پینتیس منٹ پر کورٹ روم نمبر ون میں داخل ہوا تو بیرسٹر فروغ نسیم دلائل شروع کر چُکے تھے۔ فروغ نسیم فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلہ سے اسلام کی روح سے میاں بیوی کے تعلق کی نوعیت بیان کر رہے تھے۔

وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ میاں بیوی کا تعلق اتنا غیر معمولی ہوتا ہے کہ یہ ایک دوسرے کا لباس بن جاتے ہیں۔ جسٹس قاضی امین نے مُداخلت کی کہ آپ ہمیں میاں بیوی کے بائیولوجیکل ریلیشن شِپ کا سمجھا رہے ہیں اور بہت خطر ناک سمت پر جا رہے ہیں۔

مُجھے ایک لمحے کو لگا شاید بیرسٹر فروغ نسیم کتاب بہشتی زیور سے اقتباسات پڑھ رہے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے سوال اُٹھایا کہ مسٹر فروغ نسیم آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں، پاکستان میں عورت کو کوئی حقوق حاصل نہیں؟ وہ خود مُختار نہیں ہو سکتی، یا خود سے اپنے لیے کچھ کما نہیں سکتی نہ ہی جائیداد لے سکتی ہے؟

بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ سر میں عوامی اعتماد کی بات کر رہا ہوں وہ جج میاں بیوی میں کوئی فرق نہیں کرتا۔ اِس موقع پر دس رُکنی فُل کورٹ کے جسٹس عُمر عطاء بندیال نے سوال پوچھا کہ آپ نے کل کہا کہ جج کو سہولیات ملتی ہیں جج کی بیوی اُن سے فائدہ اٹھاتی ہے تو آپ کا پوائنٹ ہے کیا؟

بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ ہم میاں بیوی میں فرق نہیں کر سکتے کیوں کہ افتخار چودھری کیس میں کہا گیا کہ چیف جسٹس بھی پبلک سرونٹ ہے۔

بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ پبلک سرونٹ ہونے کی بُنیاد پر جج بھی قابلِ احتساب ہو گا۔

اِس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے انتہائی اہم ریمارکس دیے کہ کِس نے کہا ہے کہ جج قابلِ احتساب نہیں ہے؟ ہم صرف کہہ رہے ہیں کہ جج کا احتساب کریں لیکن کِسی قاعدے قانون کے تحت۔ آپ ایف بی آر کا نوٹس جاری کرتے ہیں لیکن اُس کی کار روائی مُکمل ہونے سے پہلے سُپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کر لیتے ہیں۔

جسٹس مقبول باقر کا مزید کہنا تھا کہ جج قابلِ احتساب ہے لیکن قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے۔ جسٹس مقبول باقر نے بینچ کے دونوں اطراف سر گُھما کر اپنے ساتھی ججوں سے اجازت چاہتے ہوئے ریمارکس دیے کہ میں اپنے ساتھی ججوں کی نمائندگی کرتے ہوئے کہہ رہا ہوں کہ ہم بالکل قابلِ احتساب ہیں اور قانون کے طابع ہیں لیکن احتساب بھی قانون کے دائرے میں ہی ہو گا۔ آپ نے جج کی بیوی سے سوال کیا اُنہیں نوٹس بھیجا لیکن پھر سُپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کر لیا۔

جسٹس مقبول باقر نے اپنے ریمارکس کا اختتام اِس جُملہ پر کیا کہ آپ ایک ہی مسئلہ پر دو کار روائیاں ایک ساتھ نہیں چلا سکتے اِس لیے بَہ راہ ِمہربانی قانون کے ساتھ ذلت آمیز رویہ مت برتیں۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے معذرت خواہانہ انداز میں جواب دیا کہ ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہہ رہا کہ ججز خود کو قابلِ احتساب نہیں سمجھتے اور اگر کسی نے ایسا تأثر دینے کی کوشش کی ہے تو وہ اُس کی مُذمت کرتے ہیں۔

جسٹس عُمر عطاء بندیال نے بیرسٹر فروغ نسیم کی توجُّہ گھڑی کی طرف دلاتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ نے پندرہ منٹ گُزار دیے ہیں بَہ راہِ مہربانی ذرا توجہ مرکوز کرکے دلائل دیں کیوں کہ پھر ہم نے نمازِ جمعہ کے لیے اُٹھ جانا ہے۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ میں قُرآن کے احکامات کی طرف واپس آؤں گا اور اُس کا حوالہ فیڈرل شریعت کورٹ کے دو ہزار چودہ اور نو کے فیصلہ سے دوں گا اور پھر قانونِ شہادت کی شِق پانچ پڑھوں گا۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ اسلام کہتا ہے میاں بیوی ایک دوسرے کے بہت قریبی ہوتے ہیں اور اِسلام اُن پر لازم کرتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی عزت اور مال کا تحفظ کریں۔

جسٹس عُمر عطا بندیال نے دستاویز پڑھتے ہوئے سر اُٹھا کر کہا یہ آپ کی دلیل ہے؟ آپ کیا کہہ رہے ہیں اب اِس پر میں کیا کہوں؟

جسٹس منصور علی شاہ نے آبزرویشن دی کہ آپ کی اگر یہ دلیل ہے تو یہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حق میں جائے گی کیوں کہ قرآن بھی کہتا کہ تُم ایک دوسرے کا پردہ رکھو۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ سر ہم تو صرف اُن سے منی ٹریل مانگ رہے ہیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم ایک اور قرآنی حوالہ دینے لگے تو جسٹس عُمر بندیال نے سختی سے روک دیا کہ یہ اُس بارے میں نہیں ہے جو آپ کہنا چاہ رہے ہیں اِس لیے مت پڑھیے۔

فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ قُرآن امانتوں کی بات کرتا ہے بَہ راہِ مہربانی آپ پبلک سرونٹ اور جج کے عہدے پر بات کریں۔ اِس موقع پر جسٹس قاضی مُحمد امین احمد نے اہم سوال پوچھا کہ بیرسٹر فروغ نسیم کیا آپ اسلام کے یہ اصول غیر مُسلم ججوں پر بھی لاگو کریں گے؟

جسٹس قاضی امین کا کہنا تھا کہ ہماری عدلیہ میں غیر مُسلم ججز بھی ہیں جو بہت قابل ہیں اور وہ چاہیں گے مزید غیر مُسلم بھی عدلیہ کا حصہ بنیں، لیکن پھر کیا ہم اُن کی جواب دَہی بھی اسلامی اصولوں پر کریں گے؟

بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ سر ہم ہندووں کی مثال لے لیتے ہیں اُن میں تو بیوی سَتِّی ہوتی ہے جو شوہر کے انتقال کی صورت میں ساتھ جلا دی جاتی ہے۔ جسٹس قاضی مُحمد امین احمد اتنا چونکے کہ بے اختیار اُن کی آواز بُلند ہو گئی کہ بیرسٹر فروغ نسیم آپ اِس غیر انسانی فعل کی حمایت کر رہے ہیں؟

بنچ کے دوسرے ججز بھی بیرسٹر فروغ نسیم کی اِس دلیل پر حقا بکا بیرسٹر فروغ نسیم کا مُنھ دیکھنے لگے جب کہ کمرۂِ عدالت میں سب نے سر گُھما کر ایک دوسرے کی طرف حیرت سے دیکھا اور کُچھ نے سر پکڑ کر افسوس کے انداز میں سر نفی کے انداز میں اِدھر اُدھر ہلایا۔

اِس موقع پر جسٹس یحیٰ آفریدی نے موضوع بدلتے ہوئے سوال پوچھا کہ اگر آپ جج سے سوال کرتے اور وہ جواب دینے سے انکار کرتے تو آپ اِس کو ٹیکس قانون کی شِق ایک سو سولہ سے نکل کر مِس کنڈکٹ بنا لیتے، لیکن یہاں تو آپ نے جج سے سوال بھی نہیں کیا اور مِس کنڈکٹ کا الزام لگا کر ریفرنس بھیج دیا۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ جج منی ٹریل نہیں دیتا تو مِس کنڈکٹ ہو گیا۔ جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ پہلے جج کا اُن جائیدادوں سے تعلق تو ثابت کریں پھر منی ٹریل مانگیں۔ جسٹس عُمر عطاء بندیال نے سوال اُٹھایا کہ کیا آپ بیوی سے تعلق کی بُنیاد پر جج سے جواب مانگیں گے؟

جسٹس مقبول باقر نے ہنستے ہوئے لُقمہ دیا کہ پاکستان میں اچھی خاصی پڑھی لکھی خواتین کو بھی اپنے شوہر کی دوسری شادی تک کا علم نہیں ہوتا تو دونوں ایک دوسرے کے فعل کے کیسے جواب دہ ہو گئے۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے اب جبرالٹر کے چیف جسٹس کے کیس کا فیصلہ پڑھنا شروع کر دیا جِس میں جبرالٹر کے چیف جسٹس کی بیوی جو خود بھی وکیل تھی اور اُس نے بار کی توہین کی تو چیف جسٹس کو عہدہ سے فارغ کر دیا گیا کہ وہ اپنی بیوی کے فعل کا ذمے دار ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اُٹھایا کہ جبرالٹر کے چیف جسٹس کے کیس میں بیوی کا مِس کنڈکٹ ثابت شُدہ تھا لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کیس میں تو بیوی کا مِس کنڈکٹ بھی ابھی تک آپ ثابت نہیں کر سکے۔

جسٹس مقبول باقر نے بیرسٹر فروغ نسیم کو کہا کہ آپ بہت قابل وکیل ہیں اور ہم آپ سے اُمید رکھتے ہیں کہ دلائل بھی آپ اپنی قابلیت کے معیار کے دیں گے۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنی تعریف سُن کو خوشی سے جواب دیا کہ سر میں آپ تمام ججز کی بہت عزت اور تکریم کرتا ہوں۔ جسٹس مقبول باقر نے فوراً مُسکرا کر طنز کیا کہ پھر مہربانی کر کے ہماری عزت کو نا کام طریقے سے پامال مت کریں۔

جسٹس عُمر عطا بندیال نے سوال پوچھا کہ یہ بتائیں مِس کنڈکٹ کہاں ہوا؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ ایک جج کو بیوی کے بار کو نوٹس بھیجنے پر نکال دیا گیا یہاں تو بیوی کے نام پر ملین پاونڈ کی جائیدادیں ہیں۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے ایک بھارتی عدالت کے فیصلہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک بھارتی جج نے بھی اپنے خلاف کار روائی رُکوانے کی کوشش کی تھی کیوں کہ اُن کی جائیدادوں کی بیوی بے نامی دار نکلی تھی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بھارتی جج کے خلاف تحقیقات میں ثابت ہو چکا تھا کہ بیوی بے نامی دار ہے، کیا آپ نے اِس کیس میں تحقیقات میں ثابت کیا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ بے نامی دار ہیں؟

جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ پہلے ایف بی آر ثابت تو کر لیتی کہ جج بے نامی دار ہے۔ فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ پہلے آپ بیوی کو بے نامی دار ثابت کرتے پھر سُپریم جوڈیشل کونسل آتے۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ سر جج سے سوال کا فورم سُپریم جوڈیشل کونسل ہے اِس لیے اُن سے کہا کہ آپ ہی پوچھ لیں۔

جسٹس مقبول باقر نے سوال پوچھا کہ آپ ایک سو سولہ کے ایف بی آر کے نوٹس کی کار روائی مُکمل ہونے دیتے ریفرنس دائر کرنے کی اتنی جلدی کیا تھی؟

بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ مِس کنڈکٹ ایک مُختلف معاملہ ہے جِس کے خلاف کار روائی سُپریم جوڈیشل کونسل ہی کر سکتی ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے آبزرویشن دی کہ نہیں، نہیں ایسا نہیں ہے پہلے ایف بی آر کی کار روائی بنتی تھی۔ جسٹس عُمر عطاء بندیال نے سوال کیا کہ آپ غیر ظاہر شُدہ اثاثوں پر کیا کہیں گے؟

بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ ہمارا کہنا ہے یہ مُمکنہ طور پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آمدن سے خریدے جا سکتے ہیں۔

جسٹس عُمر عطا بندیال نے سماعت کا وقت ختم ہونے کا کہا تو جسٹس منصور علی شاہ نے فُل کورٹ کے سربراہ سے ایک سوال کی اجازت چاہی۔ جسٹس عُمر عطاء بندیال سے اجازت ملنے کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے بیرسٹر فروغ نسیم سے پوچھا کہ آپ نے کہا تھا برطانوی نظام میں آپ آن لائن جا کر کسی بھی شخص کا نام ڈالیں تو جائیداد کی تفصیلات آ جاتی ہیں۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ جی بالکل ایسا ہی ہے اور میں نے اِس کا تحریری خاکہ بھی جمع کروا رکھا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے جواب دیا کہ میں نے وہ دیکھا ہے اور تبھی کہہ رہا ہوں وہ غلط ہے جب تک آپ جائیداد کا پتا نہیں ڈالیں گے اُس کے مالک کا نام نہیں آئے گا۔

جسٹس منصور علی شاہ کے یہ ریمارکس بہت اہم تھے، وہ غالباً اشارہ دے رہے تھے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جاسوسی کی گئی ہے اور اُن کی نگرانی کر کے اُن کے گھر کے ایڈریس معلوم کیے گئے جو کم از کم شکایت کنندہ وحید ڈوگر کے لیے پاکستان میں بیٹھ کر مُمکن نہ تھا۔

اِس مُکالمہ کے بعد جسٹس عُمر عطاء بندیال نے سماعت کو سوموار تک مُلتوی کرتے ہوئے بیرسٹر فروغ نسیم کو ہدایت دی کہ ہماری عدالتی چُھٹیاں سوموار سے شروع ہو رہی ہیں، لیکن میرے ساتھی ججز نے بہت مہربانی کی ہے کہ وہ عدالتی چُھٹیوں کے دوران وڈیو لنک پر بھی سماعت کے لیے موجود ہوں گے۔

فُل کورٹ کے سربراہ عُمر عطاء بندیال کا کہنا تھا کہ آپ ایک دِن پہلے اپنے دلائل کی دستاویزات سُپریم کورٹ پہنچا دیں تا کہ وہ ججز کو گھر پہنچائی جا سکیں کیوں کہ یہ ہمارا یوں سماعت کا پہلا تجربہ ہو گا۔

About اسد علی طور 14 Articles
اسد علی طور، براڈکاسٹ جرنلسٹ ہیں، ان دنوں اے آر وائی چینل کے ایک پرائم ٹائم حالات حاضرہ کے پروگرام کے پروڈیوسر ہیں۔ لیکن آزاد منش فکر اور انسان دوستی ان کی شخصیت کا خاصہ ہیں۔ سوال کی اجازت نا دینے والی طاقتوں کو بھی سوال زد کرنا اپنا فرض جانتے ہیں۔