سچ کہہ دوں اے برہمن اگر تو برا نہ مانے

Malik Tanvir Ahmed
ملک تنویر احمد

سچ کہہ دوں اے برہمن اگر تو برا نہ مانے

از، ملک تنویر احمد

تم چیختے چلاتے پھر رہے ہو۔تمہاری آواز شدت جذبات سے پھٹی جاتی ہے۔ تمہارے لہجے میں کڑواہٹ ہے۔ تمہارری آنکھوں سے شعلے ابل رہے ہیں۔تمھاری زبا ن گویا شعلے اگل رہی ہے۔ جب تم غصے بھرے جذبات کا اظہار کرتے ہو تو تمہارا بدن کانپنے لگتا ہے۔ تم رنجیدہ ہو، کبیدہ خاطر ہو، افسردہ ہو، ملال و یاسیت کے احساسات میں تمہارا ذہن و قلب ڈوبا ہوا ہے۔ جب جذبات سے مغلوب ہوتے ہو تو تمہارے منھ سے گویا جھاگ نکلتی محسوس ہوتی ہے۔

تم آمادہ خاطر ہو کہ ہر شے کو تہہ و بالا کر دو گے۔ تم جب بات کرتے ہوئے ہاتھ حرکت میں لاتے ہو، انہیں جھٹکتے ہو، انہیں بلند کرتے ہو، دائیں بائیں جانب گھماتے ہو تو یہ ہاتھ نہیں شمشیر برہنہ لگتے ہوں جن سے تم فریق مخالف کو گاجر مولی کی طرح کاٹنا چاہتے ہو۔تمہیں دکھ ہے، غم ہے، ملال ہو کہ ’’تمہیں کیوں نکالا‘‘۔تم جگہ جگہ لوگوں کے انبوہ میں اپنے ساتھ ہونے والی ’’زیادتی ‘‘ کی دہائیاں دیتے پھرتے ہو۔

تم بہت فرحاں و شاداں ہوتے ہو جب تم کہتے ہو کہ اے لوگو! کیا تم میرے ساتھ زیادتی پر چپ رہو گے تو مجمع یک زبا ن ہو کر کہتا ہے ،’’نہیں‘‘۔ تمہیں اس مجمع بازی میں اپنی فتح نظر آرہی ہے۔تم لوگوں کے ہجوم میں اپنی نجات دیکھتے ہو۔تم آج کل جمہورریت کے چمپئن بنتے پھرتے ہو۔ تمہیں ووٹ کے تقدس کا غم دامن گیر ہو چکا ہے، عدل کی بحالی کی فکر تم نے حرز جاں بنالی ہے، انصاف کی سربلندی کا آدرش تمہارا منتہائے مقصود ٹھہرا اور انقلا ب کے روشن نظریے کو تم نے اپنا مقصدزندگی بنا لیا ہے لیکن ع

سچ کہہ دوں اے برہمن گرتو برا نہ مانے

کہ تمہیں کیوں نکالا۔ تمہارے سارے الفاظ گورکھ دھندے سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے، تمہارے سارے نعرے پھٹے ہوئے ڈھول سے نکلنے والی صدا کی طرح بھونڈے ہیں۔ تمہاری ساری تقریریں ایک مجمع کو جمع کرنے والے مداری کی تقریر سے زیادہ حیثیت کی حامل نہیں۔ تم کہتے ہو کہ تم جمہوریت کے پاسبان ہو۔ تمہارے اس دعوے کی صداقت پر کیسے یقین کر لوں کہ ہم نے تمہاری جمہوریت کے سارے رنگ دیکھ رکھے ہیں۔

تمہاری جمہوریت جمہور کی حکمرانی نہیں بلکہ شخصی اور اس ایک خاندان کے سیاسی مفادات کی نگہبانی کا بندوبست ہے۔ ہم نے تین عشروں میں یہی ہوتے دیکھا ہے اور جب تم جمہور کی حکمرانی کی بات کرتے ہو تو تمہارے پہلو میں برادر خورد، دختر نیک اختر اور بھتیجے، بھانجوں اور رشتہ داروں کی ایک فوج ظفر فوج کھڑی ہوتی ہے جو جمہور کی حکمرانی کے نام پر اقتدار و اختیار کی گنگا سے بہرہ ور ہوتے رہے ہیں۔

تمہاری جمہوریت پسندی کی سب سے بڑی علامت تمہاری سیاسی جماعت ہے جس میں جمہوریت عنقا اور شخصی حکمرانی کے سارے بد نما رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔ تم ووٹ کے تقدس کی دہائیاں دیتے پھرتے ہو۔تم نے ووٹ کے تقدس کو جو اہمیت دی وہ ووٹوں کی خرید و فروخت اور روپے پیسے کے بل بوتے پر اقتدار میں آنے کے لیے راہ ہموار کرنے کی ان بد نام داستانوں سے عیاں ہے جو تمہارے سیاسی کیریئر پر سیاہی ملنے کے لیے کافی ہیں۔ تم عدل کی بحالی کے لیے اپنے آپ کو ہلکان کرتے پھرتے ہو۔اس عد ل کی بحالی کا خیال تمہیں تین عشروں بعد کیونکر آیا۔

تین عشروں میں آدھے سے زائد حصے میں تم اس ملک کے اقتدار و اختیار پر متمکن رہے ، عروج، جاہ و حشم، بلندی، شان و شوکت اور قوت و سطوت کے سارے تاج تمہارے سر پر سجے تھے لیکن تمہیں اس وقت یہ نیک خیال نہ آیا۔ انصاف کی سربلندی کا اعلیٰ تصور بھی خوب ٹھہرا۔ تم تو انصاف خریدنے والو میں شامل تھے۔تم تو انصاف کے ایوانوں میں اپنے مفاد کے خلاف فیصلہ آنے پر اسے منہدم کرنے والے ٹولے کے سرخیل تھے یہ یکا یک انصاف کا اعلیٰ آدرش کیسے تمہارے دل کے نہاں خانوں میں سما گیا۔ اب تم یہ کہتے ہو کہ ہم اس ملک و قوم کے لیے یہ خدمت انجام دی۔ ان کی بھلائی کے لیے اپنے کارنامے گنواتے پھر تے ہولیکن بقول مرزا غالب ع

چند تصویر بتاں کچھ حسینوں کے خطوط
بعد میرے مرنے کے گھر سے یہ ساماں نکلا

چند منصوبوں کے علاوہ تمہارا نامہ اعمال خالی ہے۔ تم یہ بتاؤ تم اس ملک کے مقدر کے مالک تھے، تم نے اس ملک میں فرد کی تعمیر کے لیے کتنا حصہ ڈالا، اس فرد کی تعمیر سے تم نے کیسے ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کی جہاں انسان بلا خوف و خطر جینے کے لیے آزاد ہوں،تم نے اس ملک میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے جن کو قابو میں لانے کے لیے کون سے انقلابی اقدامات اٹھائے۔

تم نے اسے انسانوں کا سماج بنانے کے لیے اگر کچھ کیا ہوتا ہے تو یہاں آج حیوانیت، جنونیت، درندگی اور لاقانونیت اس طرح نہ ناچتی پھرتی کہ اس کی دست برد سے نہ طفلان قوم محفوظ ہیں اور نہ ہی پیرانہ سال۔کوئی درندوں کے ہاتھوں زندہ درگو ر ہو جاتا ہے تو کوئی مہنگائی، بیروزگاری، صحت کی سہولتوں کی کمیابی، گندے پانی کے پینے، سیوریج کی عدم نکاسی سے۔تم نے اس ملک کے تعلیم کے شعبے میں کون سا ہمہ گیر انقلاب برپا کیا کہ اس ملک کے ڈھائی کروڑ بچے آج بھی اسکولوں سے باہر گلیوں کی خاک چھاننتے پھرتے ہیں۔

تم نے کب یہاں بسنے والوں کو ایک قوم کی لڑی میں پرویا کہ ایک مضبوط قومیت کا تصور پنپتا۔ تم نے ایک مخصوص علاقے کو نواز کر قومی وحدت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ تم جب جب آئے تم نے مختلف خطوں کے درمیان تقسیم کی لکیر کو بڑھایا۔ تم اپنی اقتصادی وژن کا چرچا کرتے پھرتے ہو۔ تم نے تاریخ کے سب سے زیادہ قرضے لے کر اس قوم کے مقدر کو تاریک اور مستقبل کو مفلوج کر ڈالا ہے۔ تمہارے اقتصادی اشارے پانی کے بلبلوں کی طرح پھٹتے چلے جا رہے ہیں لیکن پھر بھی تم دروغ گوئی سے باز نہیں آرہے۔ تمہارے پاس درباری ہیں، قصیدہ گو ہیں، چاپلوس اور خوشامدی ٹولہ ہے جن کی چکنی چپڑی باتوں کے ہنگام میں تمہیں شاید کچھ سنائی نہ دے لیکن بقول انگریز شاعر آڈن کے ع

میرے پاس صرف آواز ہے
جو اس پیچیدہ دروغ گوئی کی گرہیں کھولتی ہے