تعلیمی نظریات کی تفہیمِ نو کی ضرورت

Dr Shahid Siddiqui
ڈاکٹر شاہد صدیقی

تعلیمی نظریات کی تفہیمِ نو کی ضرورت

از، ڈاکٹر شاہد صدیقی

ماضی قریب میں یہ احساس شدت سے اجاگرہوا ہے کہ تعلیم کے تصور کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے سماجی نقطۂ نظر سے اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ تعلیم جو اپنے تئیں سماجی مظاہر ہی میں سے ایک ہے، کا مکمل احاطہ اسی نقطۂ نظر سے ممکن ہے۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ تعلیمی کاوشیں اکیلے میں نہیں کی جاتیں بلکہ یہ نہ صرف نظریات سے متاثر ہیں بلکہ اکثراوقات نظریات ہی ان کی بنیاد ہوتے ہیں۔ تعلیمی عملیات (educational practices) کے تجزیے کے لیے تعلیم اور نظریات کے تعلق کو سمجھنا بھی ضروری ہے اور یہ بھی کہ نظریات تعلیم کے تصور اور عمل میں کیا حیثیت رکھتے ہیں؟

سماجی عملیات میں نظریے کی اہمیت کا مزید تجزیہ کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ لفظ نظریہ (ideology) کو کھول کر بیان کیا جائے۔ ماضی میں اس لفظ کو منفی معنی میں سمجھا اور بیان کیا جاتا رہا لیکن اب اسے فلاسفی کا نعم البدل ایک لفظ گردانا جاتا ہے۔ نظریے کو سادہ لفظوں میں عقائد کا مجموعہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ ایسے عقائد جو انفرادی نہیں بلکہ گروہی طور پر اپنائے گئے ہوں۔ ان کا موازنہ معاشرے میں پائی جانے والی انفرادی رائے سے کیا جا سکتا ہے۔

ایک تعلیمی نظریہ کسی معاشرے میں بعض اوقات دقیانوسی تصورات کے پروان چڑھنے کا موجب بھی بن سکتا ہے اور یہ تصورات مِن و عَن بھی تسلیم کیے جاسکتے ہیں۔ سماجی ادارے ان تصورات کی حمایت کرتے ہیں اور انھیں مزید مضبوط بناتے ہیں۔ جن نظریات کو سماجی اداروں کی حمایت حاصل ہو جائے وہ مروجہ تصورات بن جاتے ہیں اورمعاشرے کے کمزور اور محروم طبقات کے ذہنوں کو مسخرکر لیتے ہیں۔

معاشرتی اداروں میں تعلیم کا سماجی عمل (socialization) بہت اہم کردارادا کرتا ہے کیونکہ تعلیمی ادارے مخصوص نظریات کی تشکیل اور تسلسل میںبہت اہم کردارادا کرتے ہیں اور ان نظریات کی بنیاد پر یہ ادارے معاشرے کے بااثر اور ممتاز افراد کے مفادات کی نگہبانی کاکام بھی انجام دیتے ہیں۔ اگرہم پاکستان میں تعلیم کی تاریخ پرایک نظرڈالیں توہمیں یہ پتاچلے گا کہ کیسے طاقت ور حکمرانوں نے تعلیم کے ذریعے مخصوص نظریات کواپنی حمایت کے لیے استعمال کیاہے۔ ایوب خان کے دورحکومت (1958-69) کے دوران سارے کاسارا زورمعاشی ترقی پردیا جاتا رہا اور یوں معاشرتی ترقی نظرانداز ہوتی رہی۔

ضیاالحق (1977-88) کے عہد میں تعلیمی اداروں نے ”اسلامائزیشن‘‘ کی اصطلاح کا بھرپور استعمال کیا۔ اسی طرح مشرف کے دور(1999-2008) میں ایک درآمد شدہ اصطلاح”معتدل روشن خیالی‘‘ (Enlightened Moderation) پر زور دیا جاتا رہا۔ کسی بھی حکمران نے لوگوں سے ان کی ترجیحات کے متعلق پوچھنے یا جاننے کی زحمت تک گوارا نہیں کی، اس کے برعکس حکمران اپنی حکومت کی طاقت اوراختیار کے باعث دوسروں کے لیے نظریات قائم کرنے کابھی خودہی فیصلہ کرتے رہے یا با الفاظ دیگروہ ملک کے نظریات کی تشکیل کے خودمختار رہے اورحقیقت بھی یہی ہے کہ ہرطاقت ور حکمران نے تعلیم کو استعمال کیا اور اس کے ذریعے ایک مخصوص نظریے کی ترویج کی۔ اس سے ہمیں تعلیم کی اہمیت کا بھی بخوبی احساس ہوتاہے اور اس کے نظریے کے ساتھ دوطرفہ تعلق کابھی علم ہوتاہے۔

نظریے کی گُتھی سلجھانے کے بعدآئیں ذرا پاکستانی تناظر میں اس کے تعلیم کے ساتھ تعلق کو دیکھیں۔ ہم اس بات کا تجزیہ تعلیم سے جڑُے مختلف تصورات اور عملیات کی بنیاد پر ہی کرسکتے ہیں اور یہ جان سکتے ہیں کہ کیسے نظریہ تعلیم سے ایک ربط رکھتا ہے۔ علم کوبہت سے بڑے تعلیمی اداروں میں ایک جامد، ساکن، پہلے سے طے شدہ اور پہلے سے موجود قسم کی ایک شے یاقدرسمجھاجاتاہے اور تعلیم کایہ نظریہ ایک مخصوص طرزِتعلیم کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جس کا واحد مقصد پہلے سے موجود علم کی دوسری نسل تک ترسیل (transmission) ہے۔ بدقسمتی سے یہ طریقہ تعلیم کسی جدت، تخلیق یامہارت کی حوصلہ افزائی کرنے سے قاصرہے۔ اس طریقۂ تدریس کے مطابق طلبہ محض جامد قسم کے وصول کنندگان ہیں اور اساتذہ ان کے ذہنوں کو بھرے جا رہے ہیں۔ سیکھنے کایہ نظریہ محض رٹے اور یاد داشت پر زور دیتا ہے جسے پائی لونریرے نے (Banking Concept of Knowledge) کا نام دیا ہے۔ اس قسم کے تصور کے مطابق طالب علم کا کام پہلے سے موجود جامد قسم کے علم کو رٹا لگانا ہے اور بغیر سوچے سمجھے جوابی کاپی میں لکھ دینا ہوتا ہے۔ امتحان پاس کرنے کے لیے وہ رٹا لگائے گا اور امتحانات میں وہی رٹی رٹائی چیزیں لکھ آئے گا۔

تعلیم کے اس نظریے میں استاد ممتاز ہے اور علم کاسرچشمہ وہی ہے جبکہ شاگرد کا کام صرف وصول کرنا ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام میں بھی یہی مروج ہے۔ ہمارے موجودہ امتحانی نظام غیرمربوط قسم کی زبانی یاد کی گئی چیزوں پرمرکوز ہے اورایسے سوالات سرے سے امتحانی پرچے میں شامل ہی نہیں ہوتے جن کا تعلق حاصل شدہ علم کے اطلاق (application of knowledge) سے ہوتا ہے۔ یہ چیز ہمیں اس بات کی طرف راغب کرتی ہے کہ ہم اس تعلیمی نظام کی آئیڈیالوجی کا از سر نو جائزہ لیں جس کی بنیاد پر معاشرے کے طاقت ور گروہ مزید طاقت وربن رہے ہیں۔ ہمارے مروجہ تعلیمی نظام میں جس طرح کی تعلیم دی جارہی ہے اس کے مطابق تعلیمی ادارے موجودہ طاقت ور بیانیے کے معاون بنے ہوئے ہیں اور یوں امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھتا چلا  جا رہا ہے۔

حال ہی میں تعلیمی طریق ہائے کار میں تبدیلی کا عمل شروع ہوا ہے، لیکن یہ تبدیلی ایک گہرے تجزیے کی متقاضی ہے۔ ہمیں فرسودہ تعلیمی نظام کو چیلنج کرناہوگا، تا کہ ان سے جڑے ہوئے بیانیے اور عمل یعنی طریقہ تدریس اور امتحانات میں بھی تبدیلی لائی جا سکے۔ تعلیم کو نسل در نسل منتقلی (transmission) کے برعکس سوچ کو پروان چڑھانا ہو گا جس کے لیے ہمیں علم اور تعلیم کا بنیادی تصور بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح ہمارا کمرۂ جماعت ایک نئی طرز پر طلبہ اور اساتذہ کے درمیان مکالمے اور علم کی تعمیر کا تصور پیش کر پائے گا۔

اس کے لیے موجودہ امتحانی نظام کو بھی بدلنا ہو گا جو کہ صرف یاد داشت کا امتحان لیتا ہے اور طالب علم اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں ناکام رہتا ہے۔ ہمیں ایک ایسا نظام چاہیے جہاں طالب علم تخلیقی اور تنقیدی سوچ کا استعمال کرتے ہوئے مختلف صورتوں میں علم کو استعمال کر سکیں۔ کمرہ ٔجماعت، طریقۂ تعلیم اور امتحانی نظام میں تبدیلی کے لیے پہلے تعلیم کے تصور اور مقاصد پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

ہمیں ٹرانسمیشن(transmission) کے ماڈل سے ٹرانسفارمیشن(transformation) کے ماڈل کی طرف جانا ہو گا۔ کیونکہ موجودہ ٹرانسمیشن(transmission) ماڈل صرف نظریات اور تصورات کی نسل در نسل منتقلی کو ممکن بناتاہے۔ تعلیم کو با معنی بنانے کے لیے ہمیں اب مکمل تبدیلی کے انداز کی طرف رجوع کرنا ہوگا جہاں تعلیم کامقصد سماجی ومعاشی تفاوت کوکم کرنا اورغریبوں اورمحروموں کوطاقت ور بنانا ہوگا تاکہ وہ بھی امراء اوراشرفیہ کی طرح بھرپور زندگی جی سکیں۔

About ڈاکٹرشاہد صدیقی 57 Articles
ڈاکٹر شاہد صدیقی، اعلی پائے کے محقق، مصنف، ناول نگار اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ اس وقت علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی ہیں۔