روحیل حیات کے بعد کوک اسٹوڈیو پہلے جیسا نہیں رہا

Khizer Hayat aik Rozan
خضر حیات، صاحبِ مضمون

روحیل حیات کے بعد کوک اسٹوڈیو پہلے جیسا نہیں رہا

خضرحیات

‘واہ واہ جھُلارا’ یہ غالباً کوک اسٹوڈیو کے پانچویں سیزن میں شامل کیا گیا لوک گیت ہے اور اس سے اونچے سُروں میں شاید ہی کوئی دوسرا گیت کوک اسٹوڈیو میں اب تک پیش کیا گیا ہے مگر روحیل حیات کی ذہانت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے نہایت اونچے سُروں والے اس گیت کو بھی کتنا پرسکون بنا دیا ہے۔ پورے گیت میں کہیں بھی آپ کو بلاوجہ کا شور پریشان نہیں کرے گا اور ایک میٹھی میٹھی دھن مسلسل کانوں میں شہد انڈیلتی محسوس ہوتی ہے۔

اس کے مقابلے میں کوک اسٹوڈیو کا موجودہ منظرنامہ شور شرابوں اور ہنگاموں سے بھرا پڑا ہے۔ عابدہ پروین نے جب ‘میں صوفی ہوں’ گایا تھا اور استاد رئیس خان صاحب نے ستار پر سنگت کی تھی تب بھی بیک گرائونڈ میں چلنے والے شور شرابے نے بہت مایوس کیا تھا۔ بار بار خواہش پیدا ہو رہی تھی کہ عابدہ گائیں اور خان صاحب ستار بجاتے رہیں، تیسری کسی آواز کی اس گانے میں جگہ ہی نہیں بنتی تھی۔ اس شورشرابے نے استاد رئیس کو بہت کم وقت دیا ورنہ اس گیت کی آج کچھ اور ہی پہچان ہوتی۔ یہی شورشرابہ کم و بیش اب ہر سیزن کا لازمی حصہ بن گیا ہے۔

موجودہ سیزن میں بھی اسی طرح کے مسائل ہیں اور کچھ مسائل کاسٹنگ کے حوالے سے بھی ہیں۔ مثال کے طور پر جنون گروپ کے گائے نغمے ‘سیّونی’ سے علی عظمت کو الگ نہیں کیا جا سکتا، راحت فتح علی کو علی عظمت کی جگہ پہ بٹھانے کا خیال ہی بے وقوفی پر مبنی تھا۔ یہ ایک غلط کاسٹنگ تھی۔ اسی طرح مومنہ اور دانیال ظفر کا گیت ‘منتظر’ بھی سننے والے کو پرے پرے ہٹاتا ہے۔ علی سیٹھی نے احمد فراز کی مہدی حسن کی آواز میں گائی گئی غزل کا بڑی بے دردی سے آپریشن کیا تو علی ظفر نے جانِ بہاراں کی ٹانگیں توڑیں۔

خدا کے لیے لیجنڈز کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے نام پر ان کی روحوں کو مت تڑپائیں۔ مجھے بتائیں علی سیٹھی ‘رنجش ہی سہی دل ہی دُکھانے کے لیے آ’ گانے کے بعد آگے جاکر مہدی حسن اور احمد فراز کو کیا منہ دکھائیں گے؟ اورعلی ظفر نے جو زیادتی سلیم رضا کے گائے ایک نہایت میٹھے، سریلے اور پرسکون گانے ‘جانِ بہاراں’ کے ساتھ کی اسے ہم جیتے جی نہیں بھلا سکیں گے۔ سلیم رضا نے اس نغمے میں کس قدر نغمگی ملائی ہے اور کس قدر سکون سے گایا ہے۔ مگر علی ظفر کو لگا کہ آواز اونچی کرنے سے معیار بھی اونچا ہو جائے گا اور انہوں نے کہاں کی تانیں کہاں جا کے ملا دیں۔ اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔

مگر یہ تصویر کا ایک ہی رُخ ہے۔ موجودہ سیزن میں شامل بعض نغمے سماعتوں پر قدرے اچھے اثرات بھی چھوڑنے میں کامیاب ہوئے ہیں جن میں کاوش اور قراۃ العین بلوچ کا ‘فاصلے’ اور شفقت امانت علی خان اور احمد جہانزیب کا ‘اللہ اکبر’ شامل ہیں۔

میں نے چکوال گروپ کا یہ لوک گیت نمونے کے طور پر ایک خاص وجہ سے یہاں دیا ہے، روحیل حیات والے کوک اسٹوڈیو اور آج والے کوک اسٹوڈیو میں بہت فرق ہے اور یہ لوک گیت یہ فرق بڑی خوبصورتی سے سمجھا جائے گا۔ روحیل حیات کے جانے کے بعد بہت کچھ بدل گیا ہے۔