این جی اوز ایک مافیا یا تبدیلی کے محرک؟

این جی اوز

 

(ذوالفقار علی)

میں کافی عرصے سے مختلف این جی اوز میں کام کر رہا ہوں۔ لگ بھگ دس سال کے تجربے اور مختلف الفکر لوگوں سے تبادلہ خیالات کے بعد میں سمجھتا ہوں اس موضوع پر لکھنا ضروری ہے۔

ہمارے معاشرے میں این جی اوز کے بارے میں بہت سارے مفروضے پائے جاتے ہیں جیسا کہ ایک مشہور مفروضہ ہے کہ این جی اوز کا کام لوگوں کے ادیان کو تبدیل کرنا ہے۔ عام طور پر کم لکھے پڑھے طبقے میں اس قسم کا پروپیگنڈہ مقبولیت پانے میں دیر نہیں کرتا کہ این جی اوز کا کام پیسے دے کر لوگوں کے ذہن کو مذہب بیزار کرنا ہے۔ حالانکہ بیشتر این جی اوز کا یہ ایجنڈا نہیں ہوتا۔ ہاں البتہ اس سوچ کو پروان چڑھانے میں کچھ عوامل ضرور ہیں جن کا تعلق این جی اوز کے ایجنڈے سے نہیں ہے بلکہ اس پروپیگنڈہ کے عوامل مقامی جاب ہولڈرز کے اپنے رجحانات اور میلانات سے جُڑے ہوئے ہیں۔

شروع شروع میں این جی اوز میں مقامی جاب ہولڈرز کا زیادہ تر تعلق لیفٹ کے لوگوں سے رہا ہے کیونکہ سویت یونین کے انہدام کے بعد لیفٹ کا پڑھا لکھا طبقہ بے کار اور ایک حد تک مایوس ہو گیا تھا۔ اُن لوگوں کی تربیت سیاسی ایکٹوزم کے ذریعے پروان چڑھی تھی جو معاشرے کیلئے کچھ کرنا چاہتے تھے۔ مگر جو خواب سویت یونین سے وابستہ تھے وہ بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال کے باعث چکنا چور ہوئے تو اس طبقے کو مایوسی ہوئی۔ اندیشہ یہ تھا کہ اگر یہ طبقہ یوں ہی بے کار رہا تو مقامی سطح پر یہ پھر سے متحرک ہو کر لوگوں کو سیاسی طور پر منظم کر کے ایک ایسی تحریک کھڑی کر سکتا ہے جو سرمایہ داری کی لوٹ مار کے خلاف روڑے اٹکا سکتی ہے۔

اس خطرے کو بھانپتے ہوئے سرمایہ دار ممالک نے اپنے مُلکوں کے اندر سماجی فنڈ کے نام پر شعبہ قائم کیا جو غریب ممالک کے مختلف غیر سرکاری تنظیموں کو فنڈنگ کرتا ہے۔ خاص کر اس فنڈنگ سے اُن لوگوں کو نوکریاں ملیں جو سیاسی ورکر ہونے کے ساتھ ساتھ با شعور اور متحرک تھے۔ شروع شروع میں مقامی سیاسی ورکرز جن کی مقامی طور پر اچھی ساکھ تھی انہوں نے لوگوں کو حقوق کیلئے منظم کیا اور این جی او کے پلیٹ فارم سے مختلف تحریکوں کا محرک بھی بنے مگر آہستہ آہستہ یہ رجحان کم ہوتا گیا کیونکہ فنڈنگ کرنے والے ڈونرز نے اُن کو ایک لگے بندھے طریقے اور طے شُدہ شرائط کی زنجیروں میں جکڑ دیا۔ کیونکہ کوئی بھی پروگرام یا پروجیکٹ کو فنڈنگ کرنے سے پہلے ایک پروپوزل دینی پڑتی ہے جس میں ٹارگٹ سیٹ کئے جاتے ہیں اور پھر اُن ٹارگٹ کو حاصل کرنے کیلئے مختلف ایکٹیوٹیز کو ڈیزائن کیا جاتا ہے۔

ایکٹیوٹیز ڈیزائن کرتے وقت مقامی آبادی جن کیلئے کام کرنا ہوتا ہے ڈائریکٹ شامل نہیں کیا جاتا بلکہ پروپوزل بنانے والے اپنی اپنی دانش کے زیر اثر یہ ایکٹیوٹیز ترتیب دیتے ہیں جو اکثر میدان عمل میں زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوتیں۔ جس کی وجہ سے این جی اوز کے زیر اثر کام کرنے والے افراد کی ساکھ پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جو عزت اور اعتبار بطور سیاسی ورکر ان لوگوں نے کمایا ہوتا ہے وہ آہستہ آہستہ پروجیکٹ اورینٹڈ ایکٹیوٹیز کے ہاتھوں جاتا رہتا ہے۔ اس سارے عمل کےنتیجے میں سیاسی ایکٹیوسٹ ناتوانی کا شکار ہو جاتا ہے۔

اس صورتحال کو مزید گُنجلک بنانے کیلئے این جی اوز پر لا دینیت پھیلانے کا مفروضہ بطور پروپیگنڈہ ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جس کو پھیلانے میں رجعتی رجحان رکھنے والے عناصر پیش پیش ہوتے ہیں جس کے باعث این جی اوز میں کام کرنے والے سیاسی ورکر کو مزید دیوار سے لگا دیا جاتا ہے۔ یوں سرمایہ داری اور رجعت پسندی اپنے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے مل کے ایسا وار کرتی ہے جو لیفٹ کے لوگوں کو اپنے ہی لوگوں میں بے وقعت اور بے اثر کر دیتا ہے۔

میں نے بڑے بڑے سیاسی کارکنوں اور سیاسی شعور رکھنے والے لوگوں کو این جی اوز کا حصہ بنے کے بعد سماجی طور پر بے اثر ہوتے دیکھا۔ کیونکہ این جی اوز چلانے والے اکثر افراد پروجیکٹ سے منسلک رپورٹنگ کے ایسے گورکھ دھندے میں پھنستے ہیں جہاں اپنے وقت کو دوسرے سماجی کاموں کیلئے وقف کرنا ممکن ہی نہیں رہتا۔
یہ این جی اوز کا پہلا فیز تھا جس میں سیاسی ورکروں کی بڑی تعداد کو “بانجھ” کردیا گیا۔ اس کے بعد این جی اوز کا دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں این جی اوز کو ایک منافع بخش کاروبار کی شکل میں اپنانے والے افراد در آتے ہیں۔ اس مرحلے میں “ٹیکنیکل” یا ٹیکنوکریٹ قسم کے لوگوں نے بھر پور حصہ لیا اور ” کک بیک” یا “مٹھائی” کے ذریعے سے پروجیکٹ حاصل کئے۔

اس کیلئے اُن لوگوں نے اپنی اپنی لابنگ کی، مختلف نیٹ ورکس ترتیب دئے اور ذاتی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے این جی اوز کو کارپوریٹ سیکٹر کی طرز کے اداروں میں بدل دیا۔ این جی اوز کے اندر اب مختلف شعبوں کے الگ الگ پورٹ فولیو بنا دئے گئے۔ جیسے کارپوریٹ سیکٹر میں ہوتے ہیں۔ مثلا ایڈمن، فنانس، ہیومن ریسورس، مینیجمنٹ، میڈیا ایڈوائزر اور جینڈر وغیرہ۔ اس طرح کے بہت سے پورٹ فولیو جن کا کام ادارے کے اندر کام کرنے والے لوگوں کو لگے بندھے اصولوں کے تحت چلانا اور اختیار کے نام پر بے اختیار کرنا شامل ہوتا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ لوگوں کو فوک نالج اور وزڈم کو بالائے طاق رکھ کر ” کپیسٹی بلڈنگ ” یا صلاحیت بڑھانے کے نام پر ٹریننگز دی جاتی ہی جس کیلئے بڑے بڑے نام نہاد ٹرینر عام اور غریب لوگوں کے ذہنوں میں علم ٹھونستے پھرتے ہیں اور اس کام کی وہ بھاری معاوضہ بھی لیتے ہیں۔

اس کے بعد تیسرا اور خطرناک مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ اس فیز میں ریاستی ادارے اور این جی اوز ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں کیونکہ اس سیکٹر میں پیسہ بھی ہے اور ایک خاص قسم کی ” اٹریکشن ” بھی ہے۔ طاقتور چاہتے ہیں کہ ان کو کنٹرول کرکے اپنے ہاتھ میں رکھا جائے اور این جی اوز کے لوگ چاہتے ہیں کہ ہم ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ ایسا کرنے کا مطلب ہے حصہ داری کو مزید ” سٹیک ہولڈرز” میں بانٹنا۔

اس لڑائی میں ریاستی ادارے لوگوں کو مختلف سنگین الزامات کے تحت پکڑتے بھی ہیں اور اُن پر مقدمات بھی بناتے ہیں جن کا شکار کئی لوگ بن چُکے ہیں۔ اس کھیل میں کئی لوگ اپنی جان سے بھی گئے۔ جو جان سے گئے اُن کا اثر یا تو کمیونٹی کے اندر زیادہ تھا یا اُنہوں نے ریاستی پالیسیوں کو چیلنج کیا۔ چونکہ آج کل یہ جنگ زوروں پر ہے جس کے باعث بہت ساری این جی اوز کو کام کرنے سے روک دیا گیا ہے اور اُن کو این او سی جاری نہیں کیا گیا۔

اس ساری صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر فیلڈ میں کام کرنے والے لوگ ہوئے ہیں۔ جو پہلے ہی کم تنخواہوں اور دوسری بندشوں کا شکار تھے۔ اب اُن کو کمیونٹی میں بہت سارے خطرات اور سنجیدہ سوالات کا سامنا ہے۔ آنے والے وقتوں میں یہ شعبہ پاکستان میں دوسرے شعبوں کی طرح زوال پذیر ہوگا کیونکہ باہر کا ڈونر اپنے مفادات حاصل کرنے میں کامیاب رہا، یہاں کا ٹیکنوکریٹ طبقہ بھی فیض یاب ہو چُکا اور مُلائیت نے بھی اپنا غصہ نکال لیا۔ اب آخری مرحلے میں بچے کُھچے سیاسی ورکرز کو ” ایجنٹی” کا طوق پہنا دیا جائیگا۔
مُختلف این جی اوز میں نچلے اور فیلڈ کی سطح پر کام کرنے والے افراد موٹی موٹی ہیومن ریسورسز کی پالیسیوں کے ہونے کے باوجود مُختلف شکلوں میں استحصال کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ باہر کے لوگوں کو این جی اوز میں کام کرنے والے افراد کی زندگیاں چمکتی دمکتی نظر آتی ہیں اور اکثر سمجھا جاتا ہے کہ این جی او میں کام کرنے والے تمام افراد خوشحال زندگی گُزارتے ہیں مگر ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اس سیکٹر میں بھی طبقاتی سوال پوری شدت کے ساتھ موجود ہے اور اس ادارے کو ایک خاص مائنڈ سیٹ کنٹرول کرتا ہے جو اوپر سے بہت مُہذب ہونے کا دکھاوا کرتا ہے مگر روحانی اور دلی طور پر بے حد کمزور اور اپنی مٹی سے کٹا ہوا ہے۔

About ذوالفقار زلفی 63 Articles
ذوالفقار علی نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا ہے۔ آج کل کچھ این جی اوز کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ایکو کنزرویشن پر چھوٹے چھوٹے خاکے لکھتےہیں اور ان کو کبھی کبھار عام لوگوں کے سامنے پرفارم بھی کرتے ہیں۔ اپنی ماں بولی میں شاعری بھی کرتے ہیں، مگر مشاعروں میں پڑھنے سے کتراتے ہیں۔ اس کے علاوہ دریا سے باتیں کرنا، فوک کہانیوں کو اکٹھا کرنا اور فوک دانش پہ مبنی تجربات کو اجاگر کرنا ان کے پسندیدہ کاموں میں سے ہے۔ ذمہ داریوں کے نام پہ اپنی آزادی کو کسی قیمت پر نہیں کھونا چاہتے۔