انگریز نے بر صغیر کو غلامی سے آزاد کیا

Dr Irfan Shahzad

انگریز نے بر صغیر کو غلامی سے آزاد کیا

از، ڈاکٹر عرفان شہزاد

اگرانگریزوں کا دور برِ صغیر کے ہندو مسلم کے لیے غلامی کا دور تھا تو پھر وہ اس دور میں غلام رہے جب بیرون سے عربوں اور وسط ایشائی مسلم حملہ آوروں نے یہاں قبضے کیے۔ مغل بھی غیر ملکی تھے، ان کا دور بھی دورِ غلامی میں گننا چاہیے اگر ان بیرونی قابضین کی ہم مذھبی کی وجہ سے اس دور کو دور غلامی نہیں گنا جاتا تو آج اگر افغانستان یا ایران ہم پر قابض ہو جائے توغلط کیوں ہوگا؟ اگر غیر ملکی فاتحین کا قبضہ جائز تھا تو انگریزوں کا قبضہ غلط  کیسے ہوا؟

حقیقت یہ ہے کہ انگریز کی وجہ سے برّ صغیر کا دور غلامی ختم ہوا۔ وہ ایسے کہ دور جدید سے پہلے فتوحات کا دور تھا۔ طاقت کے بَل پر ایک قوم دوسری پر قبضہ جما لیتی تھی اور اسے جائز سمجھا جاتا تھا۔ انگریز بھی اسی دور میں یہاں قابض ہوئے۔ پھر یہ دورِ جدید جس میں بین الاقوامی طور پر یہ طے ہوا کہ کوئی ملک دوسرے ملک پر قبضہ نہیں کرے گا، یہ دورانگریز اور دیگر نو آبادیاتی طاقتوں نے ہی متعارف کرایا۔

بادشاہوں کے دور میں عوام در حقیقت غلام ہوا کرتے تھے۔ ان کا کام بادشاہوں کے لیے لگان اور خراج مہیا کرنے کے علاوہ، ان کی جنگی مہمات کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا ہوتا تھا۔ بادشاہ اور اشرافیہ کے دیگر لوگ قانون سے بالا تر ہوتے تھے۔ یعنی تصور ہی موجود نہیں تھا کہ قانون کا اطلاق ان پر بھی ہو سکتا ہے۔ بادشاہوں کے ایجنڈے میں عوامی فلاح شامل ہی نہیں تھی۔ عوام کی خدمات کے صلے میں وہ انھیں جینے، اپنے علاقوں میں رہنے سہنے، اور ان کی زمینیں نہ چھینے کا احسان کیا کرتے تھے۔

کوئی رحم دل بادشاہ ہوتا تو یہ خدا کی خاص رحمت سمجھی جاتی تھی، ورنہ قانونی طور پر لوگ بادشاہ سے کوئی مطالبہ کرنے کےمستحق نہیں سمجھےجاتے تھے۔ یہ انگریز تھے جنہوں نے پہلی بار عوامی فلاحی کاموں کو حکومت کے ایجنڈے میں شامل کیا، انہوں نے جمہوریت کا نظام متعارف کرایا کہ  عوام اپنے حکمران کا انتخاب عوام خود کرے اورقانونی طور پر سے جواب دہ بھی بنائے۔

انہوں نےآئین اور قانون کا اطلاق اصولی طور پر سب کے لیے برابر قرار دیا۔ یقیناً کہا جا سکتا ہے کہ خود انگریز نے قانون کی پاس داری میں کوئی مثالی کردار پیش نہیں کیا، لیکن بات یہ ہے کہ پہلے تو یہ تصورات تک موجود نہیں تھے۔ انہوں نےہی انہیں متعارف کرایا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انگریز نے قانون کی بالا دستی کے اس تصور کے تحت کئی مثالی اقدامات بھی کیے۔ اپنے انگریزافسران کو حدود سے تجاوزات پر سزائیں بھی دیں، نواب لوگ اس پر چیں بجنیں ہوا کرتے تھے کہ عدالت اور کچہری کے نظام میں عامی اور خاص میں کوئی تمیز نہیں کی جاتی۔

فوجی اور دیگر ملازمین کو وقت پر تنخواہوں کی ادائیگی، بیماری کی صورت میں حکومت کی طرف سے علاج کی سہولت، اور پنشن جیسے تصورات انگریز کی دین ہیں۔ عوامی فلاح کے کام، ریلوے کا نظام، تعلیم کی فراہمی، قابلیت کی بنیاد پر ملازمت دینا، جس پر سر سید احمد خان جیسے روشن خیال اشرافیہ کے نمایندہ کو بھی اعتراض، بَل کہ افسوس تھا کہ بنگالی جیسی نیچ قوم پڑھ لکھ کر ہم جیسے اشراف پر حاکم کیوں بنتی جا رہی ہے، یہ سب انگریز کی وجہ سے شروع ہوا۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ انگریز نے استحصال نہیں کیا، یقیناً کیا۔ وہ کوئی مشنری نہیں تھے کہ فی سبیل اللہ یہ سب کرتے۔ انگریزوں نے بھی غریب طبقات پر بے جا ٹیکس لگائے، اپنے حکومت کے تحفظ اور بغاوتوں کے فرو کے لیے ظلم بھی کیے جو اس دور کا خاصا رہا ہے۔ لیکن اس میں انگریز اکیلے نہیں، بر صغیر میں تو یہ بھی رواج رہا کہ بادشاہ اپنے خلاف بغاوت کرنے والے اپنی ہی اولاد تک کو نہیں بخشتے تھے۔ جہاں گیر نے اپنے بیٹے کی بغاوت کی ناکامی کے بعد اس کی آنکھوں میں گرم سلائی پھیر کر اسے اندھا کر دیا تھا، اورنگ زیب نے اپنے بھائی قتل کرا دیے تھے اور اپنے باپ  شاہ جہاں کو دہلی کے لال قلعہ میں قید کر دیا تھا جہاں وہ سولہ سال قید میں رہ کر دنیا سے رخصت ہوا۔ کہنے کامقصد یہ ہے کہ حکومتی رویوں میں تبدیلی اور اس نئے دور کا آغاز انگریز سے ہوا۔


مزید و متعلقہ: دور غلامی اور آسمانی مذاہب

غلامی اور اس کا پس منظر


موازنہ کر کے دیکھیے تو معلوم ہو گا کہ تمام غیر ملکی قابضین میں انگریز کا دور سب سے اچھا تھا۔ مگر قسمت دیکھیے کہ عوام کی سب سے زیادہ نفرت اسی کے حصے میں آئی۔ اس نفرت کی بنیاد کیا تھی؟ متحدہ ہندوستان کے لوگ انگریزوں کی دی ہوئی آزادئِ افکار، ان سے بر آمد کیے ہوئے نظریۂِ قومیت اور قومیت کی بنیاد پر حقِ حکم رانی کے تصور کی بنا پر انگریزی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد انگریز نے ویسے بھی نو آبادیات چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ جس دور کا وہ خود نقیب بنا تھا، وہی دور اسے نو آبادیات چھوڑنے پر خود مجبور کر رہا تھا۔ لیکن ہندوستان کے نو تعلیم یافتہ، خصوصاً مڈل کلاس حکومت میں آنے کے لیے بے تاب ہو گئی تھی اور انگریزوں کی رخصت سے پہلے انہیں رخصت کرنے پر تُل گئی تھی۔

اس کشمکش میں ہونے والے مظالم نے نفرت کا روپ دھار لیا۔ جو اب تک چلی آتی ہے۔ اس کے بر عکس نواب اور راجاؤں نے عموماً انگریزی حکومت کی مخالفت نہیں کی۔ کیوں کہ وہ اپنے علاقوں سے پہلے سے حکم ران تھے۔ ان میں سے صرف وہ انگریز کے مخالف ہوئے جن کی سلطنیتں اور جائدادیں انگریزوں نے ضبط کر لی تھیں یا اس کا خطرہ تھا یا کسی اور وجہ سے ان کی انگریزوں سے مخاصمت چل رہی تھی۔

آل انڈیا مسلم لیگ اصلاً نوابوں کی جماعت تھی۔ اسی بنا پر اس نے انگریزوں سے ملک چھوڑ جانے کا کبھی کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ انگریز رہیں یا چلے جائیں انہیں ایک خطہ کا اقتدار لازماً سونپ دیں۔ بہ ہر حال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ انگریز سے نفرت نے ہمیں یہ سوچنے سمجھنے نہیں دیا کہ بادشاہان کی غلامی کے دور سے نجات ان کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔ جمہوریت انگریز نے ہی سکھائی جس سے عوام کے ہاتھ میں اپنے حکمرانوں کا انتخاب آیا۔ اب اس کے درست استعمال ان کا کام ہے۔

انگریز کی ان تمام خوبیوں کے ساتھ میری سب سے بڑی تنقید ان پر وطنی قومیت سے آگے بڑھ کر مذھبی قومیت کی بنیاد فراہم کرنا ہے۔ یہ چیز اس کے سیاسی فلسفے کا حصہ نہیں تھی، مگر بر صغیر میں انہوں نے یہ کارڈ استعمال کیا۔ جس نے بہت فساد کو جنم دیا۔ تاہم اس پر بحث یہاں مقصود نہیں۔

اس لیے مطلقاً یہ کہنا کہ ہم انگریز کےغلام تھے، درست نہیں۔ ہم ہمیشہ سے غلام تھے یہ درست ہے۔ انگریز نے بھی آغاز تو بر صغیر کو غلام بنا کر ہی کیا، لیکن اسی نے ہمیں اپنی غلامی سمیت، دوسروں کی غلامی سے بھی آزاد بھی کیا۔

1 Comment

  1. mr irfan , i read your article, sir muslim rulers attacked india but they settled here instead of going from delhi .so sultante period and mughal era also generated harmony between hindus, and muslim .kindly read shashi throor book british raj era of darkness . he tells that muslim rulers were no more alien to subcontinent as they settled here .it was british who came here and than after 90 year s went back with resources of india . yes they gave railway postal services but it was era of new inventions after industrial revolution .thank you.

Comments are closed.