روہنگیا نسل کشی اور شاکیہ منی کے ہونٹوں کا تبسم

Naseer Ahmed
نصیر احمد

روہنگیا نسل کشی اور شاکیہ منی کے ہونٹوں کا تبسم

از، نصیر احمد

“جس طرح قتل ایک فرد کے زندگی کے حق سے انکار ہے، اسی طرح نسل کشی پورے کے پورے انسانی گروہوں کے حقِ زندگی سے انکار کا نام ہے۔ اور یہ انکار انسانیت کا ضمیر جھنجھوڑ دیتا ہے۔ اس کے نتائج انسانیت کے لیے نقصانات کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں جن میں نسل کشی کے شکار گروہوں کی ثقافتی اور دیگر خدمات کا ضیاع بھی شامل ہے۔ نسل کشی آئینِ اخلاق اور اقوام متحدہ کے مقاصد کے منافی ہے۔ نسل کشی کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جب سیاسی، مذہبی اور نسلی گروہ یا تو مکمل طور پر تباہ کر دیے گئے یا جزوی طور پر۔” اقوام متحدہ

ان کی تو روح ہی نہیں ہوتی، ہر طرح سے مختلف ہوتے ہیں، ان کو قتل کرنا جرم نہیں ضرورت ہے جیسے صفائی ستھرائی کے لیے چوہے مارنا ضروری ہے۔ ابدی یہودی

“اگر پورا گاؤں مسلمان ہو گیا تو بہت ہی خطرناک بات ہو گی۔ افریقی گُربہ ماہی کی تعداد بہت ہوتی ہے، یہ مچھلیاں ایک دوسرے کو بھی کھاتی ہیں فطرت کو بھی تباہ کرتی ہیں۔ اس ملک میں یہ مچھلیاں نہیں پیدا ہوں گی۔” ایک بدھ فقیر

اقوام متحدہ نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کا ذمہ دار میانمار کی فوج کو قرار دیا ہے۔ اس نسل کشی کے دوران مختلف تخمینوں کے مطابق تیرہ ہزار روہنگیا قتل کر دیے گئے اور سات لاکھ سے زیادہ ملک بدر کر دیے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق روہنگیا کے خلاف جرائم کی تفصیل کافی طویل ہے۔ ان جرائم میں قتل، قید، تشدد، بچوں کی جان لینا، گاؤں جلانا، جبری گمشدگی اور جنسی غلامی شامل ہیں۔

سوال تو بہت اٹھتے ہیں۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ جو بات ہٹلر کہہ رہا تھا وہ ایک مذہبی رہنما کیوں کہہ رہا ہے اور جو بات ایک مذہبی رہنما کہہ رہا ہے وہ ایک فوجی کیوں کر رہا ہے؟

کاملیت پرستی کا ایک فیچر یہ بھی ہے کہ ایک ایسی نفسیاتی کیفیت حاصل کی جائے جس میں روشنی، نفاست اور پاکیزگی کا دور دورہ ہو۔ یہاں تک وجد کا سماں بندھ جاتا ہے اور بات یہاں تک رک جائے تو ہم کاملیت پرستی نہیں کہہ سکتے لیکن بات یہاں رکتی نہیں بَل کہ مشن یہ بن جاتا ہے جب وہ نفسیاتی کیفیت طاری کر لی جائے تو معاشرے کو بھی اسی نفسیاتی کیفیت پر استوار کیا جائے اورجو بھی نا خوش گوار ہو، نا پسندیدہ ہو، گھناؤنا ہو اسے ختم کر دیا جائے۔

اب کاملیت پرست نظریاتی ایک افسانہ تراشتے ہیں جس میں ایک ماضی یا مستقبل ہوتا ہے جس میں ہر چیز اس نفسیاتی کیفیت کی آئینہ دار ہوتی ہے جس میں سب کچھ اچھا اچھا اور اپنا اپنا ہوتا ہے۔ حال کے جتنے مسائل ہوتے ہیں وہ پرایوں کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ پرائے جو روشن نہیں ہوتے، نفیس نہیں ہوتے اور پاکیزہ نہیں ہوتے۔ پرائے جو روشن، شدھ، نفیس اور پاکیزہ کو تعفن آلود کرتے ہیں، برباد کرتے ہیں، اپنی غلاظت سے بھر دیتے ہیں اور پرائے جو برابر کے انسان نہیں ہوتے، بل کہ انسان ہی نہیں ہوتے، اس لیے ان کا خاتمہ ضروری تا کہ روشنی، نفاست اور پاکیزگی کے علاوہ کوئی نہ رہے۔

بات کو اس طرح سے پیش کیا جاتا ہے کہ میانمار میں بدھوں کے دین، بدھوں کی قوم اور بدھوں کی نسل کے تحفظ کے لیے کالرے بنگالیوں (میانمار کے روہنگیا مسلمان، یہ ایک توہین آمیز اصطلاح ہے جو روہنگیا کے لیے استعمال کی جاتی ہے) سے میانمار کو پاک کرنا بہت ضروری ہے ورنہ جس طرح افغانستان، پاکستان اور بھارت میں شاکیہ منی کے ماننے والے نہیں رہے اسی طرح یہ کالرے بنگالی بھی میانمار پر بھی قبضہ کر لیں گے اور شاکیہ منی کا نام لیوا کوئی نہیں بچے گا۔ حالاں کہ روہنگیا میانمار کی آبادی کا صرف چار فیصد ہیں لیکن یہ مذہبی، نسلی اور قومی کاملیت پرستی ایک تخیلاتی پاکیزگی کے کھونے کے خوف پر استوار ہے اس لیے حقائق اتنی اہمیت نہیں رکھتے۔

اور پاکیزگی کے تحفظ کے لیے میانمار کے سب بدھوں کو یک جا ہونا پڑے گا اور جو اس یکتائی کا حصہ نہیں بنتا وہ دشمنوں کا دوست ہے اس لیے اس کا خاتمہ بھی ضروری ہے ورنہ جب قوم، مذہب اور نسل متعفن ہوں گے تو نروان کیسے ملے گا، شاکیہ منی کے ہونٹوں سے تبسم چھن جائے گا اور کائنات کالرا بنگالی بن جائے گی۔ اور کائنات کو کالرا بنگالی بننے سے بچانے کے لیے کالرے بنگالی کا قتل بھی جائز ہے، کالرے بنگالی کا ریپ فرض ہے، کالرے بنگالی کا گاؤں جلانا روحانی آسودگی ہے اور کالرے بنگالی کے بچوں کا قتل تو سمجھو نروان کے قریب قریب ہی ہے۔


مزید و متعلقہ:  جو ثقافتی فلسفہ انسان دشمنی کو فروغ دیتا ہے؟  از، نصیر احمد

کاملیت پرست ریاستیں اور ان کی عدالتوں کی خر مستیاں  از، نصیر احمد


حالاں کہ شاکیہ منی یہ بھی کہہ گئے ہیں رستہ آسمان نہیں بَل کہ یہ دل ہے۔ لیکن شاکیہ منی کی باتوں کی اپنی مرضی کے مطابق تفسیریں کی جا سکتی ہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ باتوں میں ہی کچھ مسائل ہیں لیکن ایسا کہنے سے بدھوں کی دشمنی بڑھ جائے گی اس لیے جو عملی بات ہے وہ یہی بنتی ہے کہ بدھوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی جائے کہ وہ بدھ مت کو کاملیت پرستی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی انسانی حقوق کی پا مالیوں سے دور کر لے۔

روہنگیا کی نسل کشی میں کاملیت پرستی کا دوسرا اہم فیچر بھی موجود ہے جس میں فرد کی عدم موجودگی ہے۔ اب روہنگیا کو قتل کر کے جو پاکیزگی بچائی جا رہی ہے اس کا اظہار قوم، نسل اور مذہب جیسے گروہ میں ہوتا ہے۔ فرد اس ساری گفتگو میں موجود نہیں ہے۔ فرد اپنی جان کھو دے گا، کوئی مسئلہ نہیں کہ اس کی رگوں میں اس کی قوم دوڑتی ہے۔ فرد کسی بچے کو قتل کر کے اپنی انسانیت کھو دے گا۔ لیکن وہاں پر جرم کو ثواب ثابت کرنے والے علامے بھی موجود ہیں جو آلڈس ہکسلی کے پادری کی طرح کہہ دیں گے کہ جوان تم نے چڑیا نہیں ماری بَل کہ اس شیطان کو قتل کیا ہے جو وعظ میں خلل ڈال رہا تھا۔

جب فرد بذاتِ خود کچھ نہیں تو پھر اس کے حقوق کا کیا جواز بنتا ہے۔ بس ملت ہے، مذہب ہے اور نسل ہے۔ یعنی یہ جو ہزاروں قتل ہوئے ہیں اور لاکھوں در بدر ہوئے ہیں، یہ جیتے جاگتے انسان نہیں بَل کہ گُربہ ماہی، چوہے، درجن، دشٹ اور بھیڑیے ہیں۔

لیکن یہ تو اس فوجی سربراہ جس کے خلاف کارِ روائی کی اقوام متحدہ نے سفارش کی ہے اور ما با تھا (بدھ مذہبی رہنماؤں کا ایک انتہا پسند گروہ) کا افسانہ ہے، میانمار کے ان سب شہریوں کا افسانہ بھی جو روہنگیا کے خلاف جرائم میں ملوث ہیں، اور ان سب شہریوں کا افسانہ بھی جو ان جرائم کی حمایت کرتے ہیں اور میانمار کے ان سب شہریوں کا بھی جن کی زبانوں پر جیسے اپنے جون ایلیا کہتے تھے آبلے پڑ گئے ہیں اور ان حکومتوں کا بھی جو میانمار کی مدد کر رہی ہیں اور اقوام متحدہ جو رپورٹیں تو لکھتی ہے مگر نسل کشی کی روک تھام نہیں کرتی۔ افسانہ ہی تو ہے، وہ سارے لوگ افراد ہیں۔ وہ کچھ کہہ رہے ہیں۔

آواز: “مجھ سے میرا بیٹا چھینا، اسے زمین پر دے مارا اور اس کا گلہ کاٹ دیا۔ یہ کہہ کر وہ ماتم کرنے لگی۔”

آواز: “اب میں اس بات کی پیاسی ہوں کہ کوئی مجھے ماں کہے۔ دس سال کے میرے بھائی کو وہ لے گئے، اپنے بھائی سے میں شرمندہ ہوں کہ اسے میں بچا نہ سکی۔ سسکیاں بھرتے ہوئے اس نے کہا۔”

آواز: “فوج نے میرے گھر کے سات افراد مار دیے۔ میری ماں، میری دو بہنیں، میری بھابی، اس کا بیٹا، میرا بھائی، میرا بیٹا۔ یہ میں اس لیے بتا رہی ہوں، جو ہم پہ گزری، وہ جاننا ضروری ہے۔”

یہ افراد ہی تو ہیں جنھیں دکھ ہوتا ہے، تکلیف ہوتی ہے اور جو سچ بتانا چاہتے ہیں، کوئی اعلٰی کائناتی مقصد کبھی روتا پیٹتا نظر آیا؟ افسانہ یہ کاملیت پرستی ہے اور کاملیت پرستی کے نظریاتی اور کاملیت پرستی کے پیرو کار اور جنوبی ایشیا میں اس افسانے کا جادو سچائی ہی توڑ سکتی ہے۔ سچائی جس کا اب مستقبل اتنا روشن نظر نہیں آتا۔ لیکن سچائی ہی کاملیت پرستی، قوم پرستی اور مذہبی انتہا پسندی کا یہ اتحاد توڑ سکتی ہے جس نے خطے کے لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔

آج کے لیے بس اتنا ہی، بڑا کٹھن سے کام ہے، کاملیت پرستی کے نتائج پر گفتگو کرنا۔ ہماری تو خواجہ شیراز کی طرح صحبت صنم، پیالہ صافی، گلگشت مصلا اور آب رکن آباد سے آگے سوچ جانے سے ہی انکار کر دیتی ہے مگر جمہوریت سے، شہریت سے انسانیت سے بھی ایک وابستگی ہے جو ان ظلمت کدوں سے ہٹنے نہیں دیتی اور پھر صحبت صنم، پیالہ صافی، گلگشت مصلا اور آب رکن آباد انسانیت، جمہوریت اور شہریت کے بغیر تو مودی کی طرح، اونگ سانز سو کی کی طرح، میانمار کے فوجی سربراہ کی طرح، نفرت پھیلاتے کسی مذہبی رہنما کی طرح کسی جوشیلے سے چھچھورے کی راحتیں ہی ہوسکتی ہیں، ہماری اور آپ کی تو نہیں ہو سکتیں۔