عاصمہ جہانگیر بے موسم گئیں، پر دِیا جلائے رکھنا ہے: ایک روزن اداریہ

عاصمہ جہانگیر

عاصمہ جہانگیر بے موسم گئیں، پر دِیا جلائے رکھنا ہے:  ایک روزن اداریہ

ہمارے معاشرے میں صنفیات کے اپنے خاص جھمیلے ہیں۔ روایتی دادیاں، نانیاں بچیوں کی پیدائش پر افسردہ ہو جاتی ہیں۔ اپنے دین و دھرم کو بہترین اور چنیدہ کہنے والے خوب صورت حوالے دیتے ہیں کہ اس کی روشنی چمکنے سے پہلے بیٹیاں زندہ در گور ہوتی تھیں، جو سلسلہ رک گیا۔ لیکن یہ صرف ایک ایک اعتقادی تعویذ ہی رہا ہے۔ رویے اور عمل میں مجموعی تناظر میں اس کی بار آوری نہیں دیکھی گئی۔ ہمارے معاشرے میں بیٹیاں کمزوری کا حوالہ ہی جانی جاتی رہیں۔ والدین کے لیے، خاندان کے لیے۔

عاصمہ جہانگیر نے اپنے کردار و شخصیت سے معاشرے میں صنف عورت کی سر بلندی کو باور کرایا۔ اسے نئے سانچوں پر تراشا۔ ہمارے سماجی ماہرین، متوازن دانش ور، اور خود کو نقاد باور کرانے والے بہادری کو مردانہ صفت گِنواتے ہیں۔ آپ ایسے بہت ساروں کے جملے دیکھیں، سنیں اور پڑھیں گے کہ جو اپنی نظریاتی اجلے پن کی نرگسیت میں رقصاں کہیں گے کہ عاصمہ جہانگیر مرد تھیں۔ انہیں اپنے لفظوں اور جملوں میں چھپے تعصبات کا شعور ہی نہیں ہوگا۔

عاصمہ جہانگیر جرات کا ایسا نشان تھیں جس نے جرات و بہادری کو نئے معانی پہنائے، بلکہ جرات و بہادری اور ذہنی وفکری روشنی کو نکھارا۔  ہم تفصیل میں کچھ اور نہیں کہیں گے۔ بہت ساری جگہوں پر عاصمہ جہانگیر کی مطلق العنانوں کی کھیپ کے خلاف عورت وارانہ کردار کی تفصیلات میسر ہوں گی۔ (ہم ایک روزن والوں کی صنفیاتی اور دیگر تعصبات کو زبان کے اندر چیلنج کرنے کی روش کو ہماری زبان پر عدم مہارت باور کرنے والے ہماری غلطی نشان زد کر لیں کہ ہم نے مردانہ وار کی ترکیب نہیں برتی۔)

عاصمہ جہانگیر

وہ حقوق اللہ کے لیے سرگرداں معاشرے میں حقوق العباد کی سرخیل تھیں۔ ہم نا مردوں کے معاشرے میں وہ ہمارا سر غرور عورت تھیں۔ خوب صورت عورت۔

ہمارے یہاں کے معاشرے میں جب کہ سیاست اور سیاسی ہونا صریحا خطا کاری ہے، نا پسندیدہ معانی کے عکسوں میں دیکھی جاتی ہے، ریاستی اداروں کے اخلاقی احساس برتری کی مارکیٹنگ جاری ہے۔ فسطائیت مختلف رنگوں کے لباس پہنے اور غازہ ملے الٹے پاؤں دوڑی آ رہی ہے۔ فرد اور شہری اپنا اور ریاست و حکومت کا تعلق بھولتا جا رہا ہے (بشکریہ تعلیمی نظام اور مرکزی دھارے کے کاروباری ذرائع ابلاغ کا)، اس سیاق میں عاصمہ جہانگیر ایک توانا متبادل آواز تھیں؛ نا صرف متبادل آواز تھیں بلکہ کئی ایک طاقت کے سنگھاسنوں پر براجمان لوگوں کے لیے سوہانِ روح تھیں، ان کے ضمیروں کے لیے خلش تھیں۔ مزاحمت پسندوں کے لیے رہنما و تمثیل تھیں۔ اندھیرے قافلوں کا دِیا تھیں۔

ہمیں عاصمہ جہانگیر کی متبادل آواز سے روشنی لیتے رہنا ہے۔ ہمیں اس عورت سے انسانیت کا اور حقوق العباد کا سبق لینا جاری رکھنا ہوگا۔ کیا ہم تیار ہیں؟ قدرت نے ہمیں عدم تیاری کی حالت میں بھاری ذمے داری سے دوچار کر دیا ہے، یاد رکھیے گا۔