قوالی کو محض درگاہوں ، خانقاہوں اور خواص تک محدود نہیں کرنا ہوگا

قوالی کو محض درگاہوں ، خانقاہوں اور خواص تک محدود
قوالی کو محض درگاہوں ، خانقاہوں اور خواص تک محدود نہیں کرنا ہو گا

پاکستان کے مایہ ناز قوال عزیز میاں کے صاحبزادے عمران میاں قوال کے مطابق قوالی کو مقبول بنانے کے لیے اسے صرف درگاہوں، خانقاہوں اور خواص تک محدود رکھنے کے بجائے اسے عوامی رنگ بھی دیا جانا چاہیے۔

اسلام آباد میں واقع ایک غیر سرکاری ادارے فاؤنڈیشن آف آرٹس، کلچر اینڈ ایجوکیشن (فیس) کی جانب سے ‘قوالی کی تاریخ’ کے عنوان سے منعقدہ ورکشاپ کے بعد بی بی سی سے خصوصی گفتگو میں عمران میاں قوال نے کہا کہ ’محفلِ سماں ایک ہزار سال پرانی روایت ہے۔‘

عمران میاں قوال نے کہا کہ ’صوفیا سمیت بزرگانِ دین ذکرو اذکار کی محفل کو محفلِ سماع کہا کرتے تھے لیکن جب حضرتِ امیرخسرو نے اس میں مختلف ساز و آلات کا اضافہ کیا جیسے ڈھولک، طبلہ، پکھاوج، دفیں اور ستار تو اس کو پھر محفلِ قوالی کہا جانے لگا۔‘

قوالی میں استعمال ہونے والی شاعری پران کا کہنا تھا کہ اس میں عشقِ حقیقی اورعشقِ مجازی دونوں طرح کی شاعری پیش کی جاتی ہے۔

‘قوالی میوزک کی ایک قدیم صنف ہے۔ آج سے سات سو سال پہلے بھی قوالی ہوتی تھی اور اس میں حمد، نعت، مناقبات اور غزلیں بھی پیش کی جاتی تھیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہر قوال نسل در نسل درگاہوں اور خانقاہوں سے منسلک ہوتا ہے اور وہیں سے اس کی شروعات ہوتی ہے۔ وہ عرسوں پہ جاتے ہیں، انھیں ماہانہ حاضریاں کرنی ہوتی ہیں۔ عزیزمیاں قوال، نصرت فتح علی خان اور صابری برادرز نے بھی درگاہوں سے ہی شروعات کی، خواص کے لیے بھی گایا لیکن انھوں نے قوالی کو اپنا اپنا رنگ بھی دیا جس کی وجہ سے وہ عوام میں مقبول بھی ہوئے۔‘

واضح رہے کہ قوالی کی تاریخ میں قوالی اور قوالوں کو مغرب میں متعارف کروانے اسے پہچان دلانے اور دنیا بھر میں شہرت دلانے میں پاکستان کے تین قوال، نصرت فتح علی خان، عزیز میاں قوال اور صابری برادرز کا بڑا اہم کردار رہا ہے۔

اس سے پہلے قوالی صرف برصغیر میں خانقاہوں اور درگاہوں تک محدود رہی تھی۔ ان تینوں مایہ ناز قوالوں کی بدولت قوالی گھر گھر پہنچی اور اسے کمرشل حیثیت بھی ملی۔

عمران میاں قوال جہاں روایتی قوالی گاتے ہیں وہیں حال ہی میں انھوں نے پاکستان کے مشہور ڈرمر ایلن سمتھ اور گٹارسٹ ذی جاہ فاضلی کے ساتھ مل کر ’قوالستان‘ کے نام سے ایک قوال بینڈ بنایا ہے۔ اس نئے قوال بینڈ میں موسیقی کی دو بالکل مختلف اصناف قوالی اور راک کا فیوژن کیا گیا ہے۔

عمران میاں قوال اس بات پر قائل ہیں کہ قوالی میں نئے سازوں کے ساتھ جدت لائی جائے۔

’قدیم روایتی قوالی میں ذکر ہوتا تھا، ردھم بنتا، جس پہ وہ رقص کرتے اور صوفیا وجد میں آتے تھے۔ جب امیر خسرو نے اس میں سازوں کا اضافہ اور آمیزش کی تو اُس دور میں بھی بہت سے لوگوں نے اعتراز کیا تھا کہ محفلِ سماع میں ساز کیوں آگئے لیکن اُس دور کی ڈیمانڈ تھی تو ستار، طبلہ، ڈھولک، پکھاوج اور دفیں لانی پڑیں۔ اب جیسے جیسے دور تبدیل ہوا تو جہاں ڈھولک بج رہی ہے وہاں ڈرم بھی آگیا، جہاں ستار بجا وہاں گٹار بھی آگیا۔‘

ان کے خیال میں روایتی قوالی کی جدید مغربی سازوں کے ساتھ آمیزش کی وجہ سے آج سات سال سے لے کر 70سال کا آدمی بھی قوالی سن رہا ہے۔

عمران میاں قوال اپنے اس نئے تجربے سے کافی خوش اور مطمئن ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ قوالی کی ترویج کرسکیں گے۔ ‘راک اور پاپ میوزک پسند کرنے والے نوجوان ‘قوالستان’ کو سنیں گے تو قوالی کو بھی سنیں گے۔‘

بشکریہ: