کیا ہم سب صرف اور صرف سماجی گناہ گار ہی ہیں؟

لکھاری کی تصویر
اظہر مشتاق

کیا ہم سب صرف اور صرف سماجی گناہ گار ہی ہیں؟

از، اظہر مشتاق

فریڈرک لیوس  ڈونلڈسن نے 1925 میں اپنے ایک خطاب میں سماجی گناہوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا: بغیر کام کے دولت، بے ضمیر خوشی، کردار کےبغیر علم ،  بداخلاق تجارت، انسانیت کے بغیر سائنس ، قربانی سے عاری عبادت اور  بے اصول سیاست سماجی گناہ ہیں۔ ذرا غور کیا جائے تو  فریڈرک ڈونلڈسن کے ایک مقولے میں ترقی یافتہ سماج کے  رہنما اصول پنہاں ہیں اور شائد فریڈرک ڈونلڈسن کی سیاست کے بھی یہی رہنما اصول تھے۔ کسی بھی سماج کے مذہب، معاشرت، معیشت، اقتصادیات، سیاست، تجارت ، ثقافت اور  رہن سہن کے نمائیندہ اصول  اس سماج کی  کی سماجی اخلاقیات مرتب کرتے ہیں اور وہ سماجی اخلاقیات اس سماج کے تمام شعبہ ہائے زندگی  میں کام کرنے والے انسانوں کے عمل سے نمایاں ہوتی ہیں۔

اگر اخلاقی شیرازہ بندی  نمائندہ اور مروجہ اصولوں کے مطابق ہو تو سماج کی پرتوں میں کام کرنے والے اشخاص ایک مثالی معاشرے کی تخلیق میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے ملک  و قوم کو ترقی کی راہوں پر ڈھالنے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں۔ ایسے سماج میں ریاست عوام کی رہنما بنتی ہے اور انہیں کام کرنے کے مواقع،  سوچ و فکر کی آزادی، سوال کا حق، اظہارِ رائے اور تنقید کی آزادی کا  حق دیتی ہے۔ ریاست ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو معاملہ فہمی اور نیک نیتی سے دور  کرنے کی سعی کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کے تمام مکاتیب ِفکر کو قومی دھارے میں لانے کی کوشش کرتی ہے اور اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ لوگوں کے بنیادی حقوق کو مجروح کئے بغیر ان کے لئے سزا و جزا کے مقیاس مرتب کئے جائیں ۔ ایسی مثالی ریاست میں  کچھ  شعبوں پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے مثلاً  مذہبی امور، تعلیم،  انصاف و قانون،  کام کے مواقع اور بنیادی انسانی حقوق ۔

مذہبی علماء خواہ وہ کسی بھی مذہب سے ہوں   ریاست کے مروجہ نظام اور پالیسی کے مطابق مذہبی تعلیمات اور تبلیغ کے عمل کو آگے بڑھاتے ہیں  اور ضروری نہیں کہ چند  لوگ مذہبی ہونے کی بنیاد پر اپنی مرضی کےمطابق  مذہبی اخلاقیات مرتب کر یں اور انہیں ہر دو صورت میں مذہبی اخلاقیات کو لاگو کرنے کا ڈھنڈورہ پیٹتے ہوئے ریاست کو مجبور کر دیں کہ اُن کی بات ہی آخری ہے اور یہی لاگو ہونی چاہئے ۔ بلکہ یہ گنجائش رکھی جاتی ہے کہ اکثریت کے مذہبی رجحانات سے اقلیتیں متاثر نہ ہوں اور ایسے اصول وضع کئے جائیں جو ریاست کے اندر بسنے والے سارے انسانوں کے مذاہب کے لئے قابل قبول ہوں۔

ایک سماج میں بسنے والے انسانوں کے سماجی رشتے مذہب سے ہٹ کر  طرز پیداوار پر استوار ہوتے ہیں۔ اور پیدواری عمل میں اپنا کردار ادا کرنے والا انسان بلا تفریق رنگ نسل و  مذہب  سماجی ڈھانچے میں اپنی جگہ بناتا ہے۔ لیکن ایک ایسی ریاست جس کی اساس میں ریاستی معاملات کو مذہب کے تابع کر دیا گیا ہو  انسانی محنت اور کردار کو بالعموم مذہبی معاملات سے ہٹ کر نہیں سوچا جا سکتا اور ایسے سماج میں اکثریتی مذہبی  رجحان کا پلہ ہمیشہ بھاری رہتا ہے۔ ایسی ریاست میں ایک خاص مذہبی رجحان رکھنے والے ارباب اختیار کے اندر اپنے  ہم مذہب انسانوں کے لئے نرم گوشہ رکھنا عین فطری ہے کیونکہ ایک خاص مذہب کا نمائندہ دستور ایک مخصوص طبقہ کے حق حکمرانی کو اخلاقی جواز  فراہم کرتا ہے۔

مذہبی اقدار سے قطع نظر ایک سماج کی تہذیب اور ثقافت بھی سماجی رشتوں کا تعین کرتی ہے  جیسے برصغیر پاک و ہند کی تقسیم سے قبل تمام مذاہب کے انسانوں کا آپس میں مل جل کر رہنے، ایک دوسرے کی خوشی غمی  میں شمولیت اور تہوار ساتھ بنانے کا تاریخی حوالہ موجود ہے۔ اور ماضی میں مذہب کو بنیاد بنا کر  کشت و خون کا بازار شاید ہی  تقسیم سے پہلے کسے اور مقام و محل پر گرم ہوا ہو۔ ایک  عام اندازہ یہ لگایا جاتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم اور شعور میں اضافے کی وجہ سے قومیں رہنے سہنے کے مہذب انداز پنا رہی ہیں مگر کیا  تقسیم سے پہلے برصغیر میں بسنےوالی ساری قومیں اور مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ زیادہ تعلیم یافتہ تھے؟

سماجی ارتقاء کے نتیجے میں ہونے والی تبدیلیوں کے پیش نظر استحصال کے نت نئے  طریقے وضع ہوئے ہیں اور اس میں سے ایک نہایت اہم مذ ہب کو بنیاد بنا کر اپنے ہم مذہب انسانوں کے ساتھ ساتھ سماج میں بسنے والے دوسرے مذاہب کا اخلاقی، سماجی اور معاشی استحصال کرنا ہے۔ عورتوں کےحقوق کا نہ ماننا، غیرت کے نام پر قتل، ساٹھ سالہ بوڑھے کی نو سالہ بچی سے شادی  اس استحصال کی چند واضح مثالیں ہیں۔ تمام مہذب معاشروں تقریباً وہ تمام اعمال ممنوع ہوتے ہیں جن کی تعریف مذہب گناہ کے طور پر کرتا ہے۔ مثلاً  سود اگر ایک مذہب میں حرام ہے تو  سمسج اپنے سماجی تحفظات کی وجہ سے بھی اس کو اچھا نہیں سمجھتا، جھوٹ کی سماجی تفہیم اس طرح سے بھی ہو سکتی ہے جھوٹ بولنے والے پر دوسرے لوگ اعتبار نہیں کرتے۔ بدعنوانی، چوری اور ذخیرہ اندوزی کو بھی اگر سماجی گناہوں کی فہرست میں ہی شامل رکھا جائے تو مضائقہ نہیں۔

موجودہ حالات میں وہ تما م سماجی برائیاں جو مذہبی طور پر منع قرار دی گئی ہیں سماج میں موجود ہیں۔ مذہبی اقدار کے نمائندہ لوگ اُن پر سیر حاصل بحث بھی کرتے ہیں مگر حکومتی مشینری میں موجود ہونے کے باوجود اُن پر ایک ضرب کاری لگانے سے عاری ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک  شخص صوم و صلٰوۂ کا پابند ہو مگر اپنے کسی عزیز کی درخواست لے کر ایک وزیر کے پاس اس کی سفارش لے کر جاتا ہے تو کیا وہ ایک سماجی گناہ کا مرتکب نہیں ہو رہا؟ اسی طرح اگر ایک طالب علم محنت کر کے امتیازی نمبروں سے پاس ہو کر بھی بدعنوان افسرانِ بالا کی سازشوں کا شکار ہوجاتا ہے اور آگے بڑھ نہیں پاتا اور نتیجتاً آگے بڑھنے کے لئے بدعنوانی اور رشوت کا سہارا لیتا ہے تو کیا ساراگناہ اُسی کا ہے؟ ایک پولیس یا فوج کا ملازم عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہ وصول کرتے ہوئے دیانتداری سے اپنی ڈیوٹی نہیں دیتا تو وہ خدا کے سامنے ہی جوابدہ ہو گا اسکی کوئی معاشرتی ذمہ داری نہیں؟  عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے سیاستدان  کو ہر وہ جائز و ناجائز کام کرنے دیا جائے اور یہ سوچ لیا جائے کہ اس کا احتساب بروزِ قیامت ہو گا؟  اور کیا ایک عالم دین  کے ہر اس فتوے کو درست مان لیا جائے جو اسکے اپنے اور ایک  مخصوص طبقے  کے مفادات کی تقویت کے لئے ہو؟

ہر انسان سماج کی بُنت میں ایک اینٹ کا کردار ادا کرتا ہے۔ سماجی تخلیق میں ہر انسان کا کردار اہم ہے اور ہر انسان کو سوچنے، پرکھنے اور سوال کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہونی چاہئے تاکہ ایک سماجی معاہدے کے تحت ریاست اور فرد کی ذمہ داریوں کا تعین ہو سکے۔ اگر مذہب  اور مذہبی اخلاقیات کی آڑ میں انسانی استحصال کو جواز دئیے جاتے رہے تو معاشرہ مزید سماجی گناہوں کا مرتکب ہوتا رہے گا اور آنے والی نسلوں کے سوالات کے جوابات دینے کی بجائے ہمارا ضمیر ہم سے یہ سوال کرے گا کہ کیا ہم سماجی گناہ گار ہیں؟