بھارت اور پاکستان: چوہدری فیر میں نا ایں سمجھاں

aik Rozan writer
معصوم رضوی، صاحبِ مضمون

(معصوم رضوی)

بھارت حکومت کے لئے پسندیدہ اور عوام کیلئے ناپسندیدہ ملک ہے مگر کیا حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ قوم کو پوری دنیا میں ذلیل کر سکے، حالات اچھے ہوں یا برے ہندوستان کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتا جہاں پاکستان کو شرمندہ کیا جا سکے مگر قربان جائیے پاکستان حکومت پر جو بلند حوصلگی اور استقامت کےساتھ ذلت و حقارت کا مقابلہ کرنے کی خداداد صلاحیت سے مالا مال ہے، جس طرح ہندو مت کی مذھبی کتاب رامائن میں ولن راون کے نو چہرے ہوتے ہیں اسی طرح  ملک کے بھی بظاہر تین چہرے ہیں، بھارت، جو آج بھی اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھتا ہے، ہندوستان، جو خالص ہندووں کا دیس اور ہندووتا کا نظام دیکھنا چاہتا ہے اور پھر انڈیا جو ملک کا سیکولر امیج پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
گزشتہ ہفتے مشیر خارجہ سرتاج عزیز صاحب کی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت خود بھارت کیلئے بھی حیران کن رہی ہو گی، سرحدوں پر جنگ کی کیفیت، قیادت کی جانب سے زھر بھرے بیانات، دنیا بھر میں دہشتگرد ملک قرار دینے کی مہم، اس ماحول میں نواز حکومت کی یہ جرات یقینی طور پر نریندر مودی کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں ہو گی، پاکستانی مشیر خارجہ کو پروٹوکول سے ہٹ کر دور دراز میز پر بٹھایا گیا، پریس کانفرنس اور میڈیا سے گفتگو پر پاپندی عائد کی گئی، کانفرنس میں شریک تمام ممالک کے مندوبین کو گولڈن ٹیمپل کا دورہ کروایا گیا مگر سرتاج عزیز صاحب کو ہوٹل میں نظر بند رکھا گیا، گویا دنیا کے سامنے ہندوستان نے بن بلائے مہمان کے سواگت سے نوازا، مودی سرکار کی جانب سے سفارتی آداب کی دھجیاں بکھیرنے پر بھارتی میڈیا تک چیخ اٹھا کمال یہ ہے کہ اب بھی ہمارے ماتھے پو کوئی شکن نہیں، غالب کا شعر یاد آ رہا ہے اس کیفیت پر:
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
افغان صدر اشرف غنی نے توہین آمیز حقارت کے ساتھ پاکستان کی 50 کروڑ ڈالر کی امداد ک ٹھکرا دی، بھارت اور افغانستان نے پاکستان پر دہشتگردوں کی سرپرستی کے ڈھیروں الزامات بھی عائد کر ڈالے، اب ذرا مختصر کا جائزہ لیتے ہیں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا، افغانستان  کی مدد کیلئے پڑوسی ممالک پر مشتمل یہ تنظیم 2011 میں تشکیل دی گئی، استنبول، کابل، الماتی، بیجنگ اور اسلام آباد کے بعد یہ کانفرنس امرتسر میں منعقد کی گئی، مستقل ارکان میں افغانستان، آذربائیجان، چین، بھارت، ایران، قازقستان، کرغزستان، پاکستان، روس، سعودی عرب، تاجکستان، ترکی، ترکمانستان اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں، یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس تنظیم میں ان ممالک کی کتنی تعداد ہے جنکو پاکستان برادر اور دوست ممالک سمجھتا ہے، کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ کسی برادر اور دوست ملک نے بھارت کی سفارتی بدتہذیبی پر کوئی آواز بلند نہ کی، ایک آوار ضرور اٹھی اور وہ ملک تھا روس، اسے blessing in disguise سمجھا جا سکتا ہے، روسی نمائندے نے الزامات کے کھیل کا حصہ نہ بننے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ کانفرنس کا ایجنڈا ہائی جیک نہیں ہونا چاہیئے، سرتاج عزیز کی تقریر تعمیر قرار دیتے ہوئے پاکستان پر تنقید کو غلط قرار دیا، بہرحال صورتحال یہ ہے کہ بھارت، افغانستان اور روس کو نکال دیا جائے تو 14 میں سے 11 ارکان پر پاکستان برادرانہ تعلقات کا دعوی رکھتا ہے مگر سامنے کوئی نہ آیا، یہ صرف ایک مثال ہے اس پر ستم یہ ہے کہ نواز حکومت سفارتی محاذ پراپنی کارکردگی کو تاریخی قرار دیتی ہے
بھارت سے محبت اور نفرت کا رشتہ نیا نہیں، یقینی طور پر بھارت سے ہر سطح پر مراسم ہونے چاہیئے مگر عزت کیساتھ، دیکھا یہ جاتا ہے کہ ہندوستان سے کوئی سیاستدان، ادیب، شاعر، فنکار آئے تو پاکستانی دیدہ و دل فرش راہ کر دیتے ہیں جسونت سنگھ ہوں یا مانی شنکر آئر، اوم پوری پوٕں یا نصیر الدین شاہ، شاعر، ادیب، سیاستدان پاکستان میں دل کھول کر استقبال کیا جاتا ہے جبکہ روشن خیال بھارت میں خورشید قصوری کے میزبان کا چہرہ کالا کیا جاتا ہے، فنکاروں کو دھمکیاں دیکر ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے، گزشتہ سال بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج اسلام آباد میں ہونیوالی  ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شریک ہوئیں تو پاکستان میں انہیں وی وی آئی پی پروٹوکول دیا گیا، صدر اور وزیر اعظم سے ملاقات، میڈیا پر متعدد انٹرویو، تقریبات میں شرکت، رواں سال ستمبر میں بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کی سارک وزرا داخلہ کانفرنس میں شرکت اور چوہدری نثار کی تقریر سے پہلے ہی وطن روانگی، نومبر میں اسلام آباد ہونیوالی سارک سربراہی کانفرنس میں نہ صرف بھارت نے بائیکاٹ کیا بلکہ سفارتی جنگ چھیڑ کر کانفرنس ہی منسوخ کروا دی اور اب بھارت میں ہونیوالی کانفرنس میں پاکستان کیساتھ کیا جانیوالا سلوک عالمی شرمندگی کے سوا اور کچھ بھی نہیں، ایک سال پہلے نریندر مودی کا مبینہ اچانک دورہ پاکستان کیسے بھلایا جا سکتا ہے، تمام مصروفیات معطل کر کے بن بلائے مہمان قافلے کو پورے سرکاری اعزاز کیساتھ وزیر اعظم کی رہائشگاہ رائیونڈ لیجایا گیا حالانکہ ان کے ساتھ بھارتی مشیر سلامتی اجیت ڈوول بھی موجود تھے جو پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کے ماسٹر مائنڈ تصور کیے جاتے ہیں، ایک لمحے کو تصور کریں اگر ہمارے وزیر اعظم کو اچانک دورہ بھارت سوجھے تو کیا ہندوستان ان کا سواگت بھی اسی طرح کرتا۔ جواب آپ کو بھی بخوبی پتہ ہے اور سرکار کو بھی۔
دونوں ممالک ایک دوسرے پر سنگین الزامات عائد کرتے ہیں فرق یہ ہے کہ بھارت جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ہم سچ کو بھی سچ ثابت کرنے میں ناکام رہتے ہیں، کلبھوشن یادیو کا معاملہ اسکی بہترین مثال ہے، چھ ماہ سے زائد ہو گئے اتنے سنگین الزامات، بلوچستان میں دہشتگرد نیٹ ورک کی باتیں، پھر کیا ہوا، اب یا تو یہ الزامات درست نہیں تھے یا پھر معاملہ ہی کچھ اور ہے، ٹی وی چینلز پر بھارتی فلمیں اور ڈرامے بند ہو گئے تو کیا بگڑ گیا، شاید یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہیئے تھا، ہم بھارت کو کرارا جواب کیوں نہیں دے سکتے، جب بندوستان کھلی دشمنی دکھا رہا ہے تو ھارتی مصنوعات پر بھی پابندی عائد ہونی چاہیئے، بھارت کے ساتھ تجارت سمیت تمام تعلقات کو معطل تو کیا جا سکتا ہے، یہ وضاحت کرتا چلوں کہ میں بھارت سے تعلقات کے خلاف نہیں بلکہ مکمل حق میں ہوں، ثقافتی، ادبی، سفارتی، تجارتی ہر طرح کے تعلقات ہونے چاہیئے مگر عزت کی قیمت پر ہرگز نہیں، ہندوستان کو یہ بات بار بار یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان نہ تو نیبال ہے نہ بھوٹان، پاکستان جیسا بھی ہے بہرحال پاکستان ہے، جو بھارت کو ہر محاذ پر شکست دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، بھارت کو اسکی زبان میں جواب دینا ضروری ہے اور یقین مانیں اگر خدانخواستہ پاکستان ایٹمی صلاحیت کا حامل نہ ہوتا تو ابتک بھارتی کالونی بن چکا ہوتا، سوال یہ ہے کہ حکومت نے سرتاج عزیز بھارت کیوں بھیجا، کیا کوئی ذی شعور انسان جنگی جنون کی اس فضا میں ایسا فیصلہ کر سکتا ہے اور پھر اس ذلت آمیز رویے کو سفارتی رموز و اسرار بنا کر پیش کرنا محض عذر گناہ بدتر از گناہ کے مصداق ہے۔
کسی گاؤں میں ایک مزارع کلف لگے کپڑوں اور اونچا شملہ باندھ کر چوہدری کے ڈیرے پر پہنچا، علیک سلیک کے بعد چوہدری کی بیٹی سے اپنے بیٹے کا رشتہ پیش کیا، چوہدری تھوڑی دیر تو کچھ نہ سمجھا اور پھر اس نے پالتو غنڈوں کو بلا کر مزارعے کی ایسی دھنائی لگائی کے سارا کلف اتر گیا، پگڑی شملے سمیت کہیں اور جا پڑی، پھولی سانسوں اور دکھتے جسم کیساتھ مزارع دھیرے سے اٹھا، پگڑی سر پر جمائی کپڑوں کو جھاڑا اور چوہدری سے مخاطب ہو۔ چوہدری فیر میں ناں ایں سمجھاں۔