پاکستان کی نظریاتی اساس کا خوف

پروفیسر فتح محمد ملک

(پروفیسر فتح محمد ملک)

نظریۂ پاکستان کے حوالے سے ملک کے دانشور ، محقق اور استاد پروفیسر فتح محمد ملک دو ٹوک مؤقف رکھتے ہیں۔ ان کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ”ہماری قومی شناخت کا خوف” سے ایک مضمون پیش خدمت ہے۔ یہ کتاب پورب اکادمی نے شائع کی ہے۔
مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو سے لے کر جسونت سنگھ تک ہندوستان کے سرکردہ سیاسی دانشور پاکستان کی نظریاتی اساس سے خائف چلے آ رہے ہیں۔یہ لوگ تصورِ پاکستان کی نفی کرنے کی خاطر عہد آفریں تاریخی حقائق سے چشم پوشی پر مجبور ہیں۔ اقبال کے انقلابی سیاسی افکار سے تحریکِ پاکستان کے ناگزیر رشتے کو توڑنے کی مہم کا آغاز خود مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو نے کیا تھا۔قائداعظم اور مہاتما گاندھی کے درمیان اٹھارہ روزہ مذاکرات کے دوران مہاتماگاندھی نے جداگانہ مسلمان قومیت یعنی دو قومی نظریہ کی بجائے فقط جغرافیائی حقائق پر مبنی سیاسی حل تلاش کرنے پر بار بار زور دیا تھا اور ہر بار قائد نے اِس استدلال کو پوری قوّت کے ساتھ رَد کر دیا تھا۔پنڈت نہرو نے اپنی کتاب ”تلاشِ ہند”(Discovery of India) میں اقبال کی شاعرانہ اور فلسفیانہ خدمات کو بھرپور خراجِ تحسین پیش کرتے وقت اِس جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنے کی ناکام کوشش کر رکھی ہے کہ علامہ اقبال کا تصوّرِ پاکستان سے کوئی تعلق نہ تھا۔آج جناب جسونت سنگھ ہمیں سمجھانے آئے ہیں کہ قائداعظم کو اسلامی ریاست کے قیام سے کوئی غرض نہ تھی وہ تو فقط مسلم علاقہ (Muslim Territory) حاصل کرنا چاہتے تھے۔یہاں میں قارئینِ کرام کی توجہ اِس حقیقت کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ برصغیر میں مسلمان اکثریت کے خطّے تو پہلے سے موجود تھے۔ تحریکِ پاکستان کے قائداعظم تو اِن خطّوں میں مثالی اسلامی مملکت کے قیام کی خاطر جہد آزما تھے۔تصورِ پاکستان کے خالق علامہ اقبال کو تصوّر اور تحریک ہر دو سے لاتعلق ثابت کرنے کی یہ مہم درحقیقت ہمیں علامہ اقبال کے فکری اور نظریاتی فیضان سے محروم کر دینے کی نامبارک مہم ہے۔مہاتما گاندھی اور پنڈت نہرو سے لے کر جسونت سنگھ تک سبھی یہ جانتے ہیں کہ بقول اقبال:
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خِشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
یہ لوگ ہماری جھولی میںفقط چند پتھر کنکر ڈال کر ہم سے اقبا ل کے وہ افکارِ تازہ چھین لینا چاہتے ہیں جن سے پاکستان کی جغرافیائی حدود کے اندر ایک جہانِ نو پیدا ہو سکتا ہے۔ جناب جسونت سنگھ نے زیرِ نظر کتاب میںمکمل حقائق کو تاریخ کے وسیع تر تناظر میںدیکھنے اور سمجھنے کی بجائے تاریخ کے طویل دورانیے میں سے فقط چند من پسند جزوی حقائق کواپنے سیاق و سباق سے کاٹ کرپیش کیا ہے۔میں اِس طرزِ عمل کو حقائق سے روگردانی کے مترادف سمجھتا ہوں۔ قائداعظم کا دعویٰ ہے کہ سن چالیس کی قراردادِ پاکستان مسلمان عوام کی اُس اجتماعی رائے سے پھوٹی ہے جسے اقبال کے فکر و فن کے فیضان نے جنم دیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اقبال کی فکر میں حضرت مجدد الف ثانی ؒ ، حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور سرسیّد احمد خاںؒ کے سے دردمندانِ ملّت کی عہددر عہد سفر کرتی ہوئی فکر شامل ہے۔ اقبال کے ضمیر میں یہ تمام فکری دھارے ایک منجدھار کی صورت اختیار کرتے ہیںاور عصرِ حاضر کے سیاسی اور تہذیبی تصورات کے تناظر میں ایک نئی تشکیل پاتے ہیں۔ سن تیس کے خطبۂ الہ آباد میں پاکستان کا تصور اِسی نئی نظریاتی تشکیل کا عکس ہے۔
قراردادِ پاکستان کو تصورِ پاکستان کے تناظر میں ہی سمجھا جا سکتا ہے ۔اِسی طرح تحریکِ پاکستان تصورِ پاکستان ہی کا عملی ظہور ہے۔مہاتما گاندھی کے سے جو دانشور یا سیاستدان تصورِ پاکستان کو ”بکواس”یا ”بیہودہ ”یا “absurd” سمجھتے رہے وہ زندگی بھر احمقوں کی جنت ہی میںمقیم رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ علامہ اقبال اور قائداعظم کی اٹوٹ نظریاتی رفاقت اور فکری یگانگت کو سمجھے بغیر قیامِ پاکستان کے محرکات و عوامل کو سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ قائداعظم کے سیکرٹری مطلوب الحسن سیّد نے اپنی انگریزی تصنیف” محمد علی جناح۔ایک سیاسی مطالعہ” میںلکھا ہے کہ قراردادِ پاکستان کی منظوری کے بعد قائداعظم نے اُن سے کہا تھا کہ ”کاش اقبال آج زندہ ہوتے! وہ یہ جان کر بہت خوش ہوتے کہ ہم نے بالکل وہی کیا ہے جس کی وہ ہم سے توقع رکھتے تھے”(صفحہ۲۳)۔
سن انیس سو پینتیس کے قانونِ آزادیٔ ہند کے تحت منعقدہ اُنیس سو سینتیس کے انتخابات کے آس پاس کا زمانہ قائداعظم کی سیاسی زندگی کا انتہائی مُشکل زمانہ تھا۔اِس کٹھن دورمیں علامہ اقبال نے انتہائی استقامت کے ساتھ قائداعظم کا ساتھ دیا۔اس دور میں اقبال اور قائداعظم کی عیاں اور نہاں قربت کی تفصیلات ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی کی کتاب ”اقبال کے آخری دو سال” میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دورونزدیک سے کسی ادبی انجمن یا سیاسی تنظیم کی جانب سے اقبال کی صحت یابی کے لیے کسی دُعائیہ قرارداد کا پیغام پہنچتا تو اقبال فوراً تار کے ذریعے اپنی اِس تمنّا کا اظہار کرتے کہ’ اب میری بجائے قائداعظم کی درازیٔ عُمر کی دُعا کیاکریں۔ میں نے اپنا مشن مکمل کر لیا ہے مگر میرے قائداعظم کو ابھی اپنا مشن مکمل کرنا ہے ‘۔اِسی زمانے میں ایک شام پنڈت نہرو میاں افتخار الدین کے ہمراہ علامہ اقبال کے ہاں تشریف لائے۔ گفتگو کے دوران جب یہ کہا گیا کہ اگر قائداعظم کی بجائے اقبال اسلامیانِ ہند کی سیاسی قیادت کا فریضہ سرانجام دیں تو کانگرس کے ساتھ مسلمانوں کے خوشگوار تعلقات قائم ہو سکتے ہیں۔یہ بات اقبال کو سخت ناگوار گزری۔انہوںنے بیساختہ فرمایا کہ’ صرف اور صرف محمد علی جناح ہی مسلمانوں کے لیڈرہیں۔ میں اُن کا ایک ادنیٰ سپاہی ہوں’۔تاریخ شاہد ہے کہ اقبال نے تاریخ کے اِس نازک ترین دور میںقائداعظم کے ایک وفادارسپاہی ہی کا کردار سرانجام دیا ہے۔ وہ اپنی آخری سانس تک قائداعظم کے ساتھ ایک چٹان کی طرح قائم رہے۔
جب قائداعظم اپریل سن انیس سو چھتیس میںمیاں احمد یار خان دولتانہ ، سرفضل حسین اور دیگر یونینسٹ سیاستدانوں سے مایوس ہو کر علامہ اقبال کے پاس آ ئے اور سیاسی مدد طلب کی تو اقبال نے بخوشی میدانِ عمل میں آنے کا وعدہ کیا۔اِس موقع پر اقبال اور قائداعظم کے درمیان جو گفتگو ہوئی اُس میں سے فقط ایک سوال اور ایک جواب قارئینِ کرام کی نذر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے:
اقبال: ” اگر آپ اودھ کے تعلقہ داروں یا بمبئی کے کروڑ پتی سیٹھوں کی قسم کے لوگ پنجاب میں تلاش کریں گے تو یہ جِنس میرے پاس نہیں ہے۔ میں صرف عوام کی مددکا وعدہ کر سکتا ہوں۔
قائداعظم: مجھے صرف عوام کی مدددرکار ہے۔” (اقبال کے آخری دو سال، صفحہ۳۰۷)
قائداعظم کے اِس عوام دوست مؤقف نے اقبال کی فکری اور نظریاتی تنہائی دُور کر دی۔وہ خوشی سے چِلّا اُٹھے: ”گئے دِن کہ تنہا تھا میں انجمن میں/ یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں”۔تب سے لے کر اپنے دمِ واپسیں تک اقبال نے قائداعظم کی سیاسی اور نظریاتی رفاقت کا حق اِس شان سے ادا کیا کہ قائداعظم اُنہیں اپنا ”دوست ، فلسفی اور رہنما ”کہنے لگے۔ سوشلزم کا دم بھرنے والے پنڈت نہرو ہمیشہ سے قائداعظم کے سیاسی قدوقامت سے خائف رہتے تھے اورجا و بے جا اپنے احساسِ کمتری کا اظہار کرتے رہتے تھے۔اپنی الیکشن مہم کے آغاز میں پنڈت جواہر لال نہرو نے انتہائی رعونت کے ساتھ اعلان کیا تھاکہ ”آج ہندوستان میں صرف دو فریق موجود ہیں۔انڈین نیشنل کانگرس اور برطانوی حکومت۔ باقی جتنی جماعتیں ہیں اُن کو یا کانگرس کی پیروی کرنا پڑے گی یا برطانوی حکومت کا ساتھ دینا ہوگا۔” اِس پر قائداعظم نے اعلان فرمایا کہ ” ہندوستان میں دو نہیں بلکہ تین فریق ہیں۔ نیشنل کانگرس، برطانوی حکومت اور مسلمان۔ ہم نہ کانگرس کے خیمہ بردار بننے کو تیار ہیں اور نہ حکومت کی کاسہ لیسی کرنے پر آمادہ ہیں۔ ہماری اپنی قومی پالیسی اور ہمارا اپنا قومی پروگرام ہے۔”پنڈت نہرو قائد کے اِس بیان پر آپے سے باہر ہو گئے اور انہوں نے قائداعظم کی ذات اور مسلم لیگ ہر دو کو ہدفِ طعن بنایا ۔پنڈت نہرو کے اِس زہریلے بیان پر علامہ اقبال نے ایک طویل اور مدلل بیان جاری کیا جس کے فقط چند فقرے پیشِ خدمت ہیں:
”مسٹر جناح آج مسلمانوں کے سب سے بڑے اور سب سے معتمد علیہ لیڈر ہیں۔ مسٹر جناح تخیل کی دنیا میں پرواز کرنے کی بجائے حقیقت بینی کو ترجیح دیتے ہیں۔ … پنڈت نہرو کو یہ ہرگز زیب نہیں دیتا کہ وہ اِس بات کا شور مچاتے پھریں کہ مسٹر جناح مسلمانوں کے متوسط درجے کے بالائی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں یا مسٹر جناح کو مسلمانوں کے افلاس اور فاقہ زدگی کا کوئی علم نہیں ہے، یا یہ کہ (پنڈت نہرو) ہندوئوں اور مسلمانوں کی یکساں نمائندگی کرتے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا خود پنڈت نہرو ہندوئوں کے متوسط طبقے کے بالائی اور متموّل طبقے سے تعلق نہیں رکھتے؟ افلاس اور بھوک کا نام لے لے کر خلطِ مبحث کرنےاور ماسکو سے مانگی ہوئی زبان میں باتیں کرنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ حقائق کو بنظرِ غائر پرکھا جائے …مسلمانوں کی طرف سے اگر کسی شخص کو بات کرنے کا حق حاصل ہے تووہ صرف مسٹر جناح ہیں۔ ”(اقبال کے آخری دو سال، صفحات۷۲ ۔ ۳۷۱)

انتخابات کے نتائج برآمد ہوتے ہی پنڈت نہرو نے ۱۹مارچ۳۷ء کو دہلی میں ایک آل انڈیا نیشنل کنونشن منعقد کی جس میں اپنی تقریر کے دوران انھوں نے اِس بات پر بہت زور دیا کہ مسلمانوں کو کوئی معقول قیادت میسر نہیں آئی۔چنانچہ مسلمان آج اُداس اور مغموم ہیں۔وہ خود کو ”لاوارث سمجھنے لگے ہیں”۔اِس لیے اب انڈین نیشنل کانگرس ہی مسلمانوں کی قیادت کا فرض سنبھال رہی ہے۔اِسی کنونشن میں الہ آباد میںسوشلسٹ دانشور ڈاکٹر محمد اشرف کی نگرانی میں ”مسلم رابطۂ عوام ”کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ علامہ اقبال نے کانگرس کی اِس جارحانہ مہم کا مقابلہ کرنے کی حکمتِ عملی اور ٹھوس منصوبہ بندی کو قائداعظم کے نام اپنے خطوط میںصیغۂ راز میں رکھتے ہوئے پیش کیا ہے۔قائداعظم نے اِس حکمتِ عملی پر حرف بہ حرف عمل کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم کنونشن منعقد کیا اور اُس کنونشن میں جداگانہ مسلمان قومیت کو اُجاگر کرتے ہوئے اسلامیانِ ہند کے جداگانہ تہذیبی، معاشی اور سیاسی مؤقف پر اصرار کیا۔اِس زمانے میں اقبال نے اپنے بسترِ علالت اور بعد ازاں بسترِ مرگ سے اُٹھ اُٹھ کرمسلم لیگ کی روزافزوں سیاسی سرگرمیوں میںبھرپور حصہ لیا۔اقبال کی سیاسی اور تہذیبی خدمات کو اس سے بڑا خراجِ تحسین کیا ہوگا کہ سن انیس سو چالیس کی جس صبح قراردادِ پاکستان منظور ہوئی اُسی شام لاہور میں یومِ اقبال کی تقریبات کا آغاز ہوا۔ تقریب کے پہلے اجلاس کی صدارت شیرِبنگال فضل حق نے فرمائی اور اپنے صدارتی خطبے میں قراردادِپاکستان کو فکرِ اقبال کی عطا قرار دیا۔ دوسرے اجلاس کی صدارت خود قائداعظم نے فرمائی اور اپنے صداتی کلمات میں قراردادِ پاکستان کو اقبال کے سیاسی شعورکا اعجاز ٹھہرایااور اپنے صدارتی کلمات میں اعلان فرمایا کہ:
“If I live to see the ideal of a Muslim State being achieved in India, and I were then offered to make a choice between the works of Iqbal and rulership of the Muslim State, I would prefer the former.” (The Civil and Military Gazette (Lahore) 26 March 1940, P.207)
درج بالا سطروں میں بابائے قوم ، بانیٔ پاکستان ، قائداعظم محمد علی جناح نے علامہ اقبال کے ساتھ اپنی ذاتی اور نظریاتی یگانگت کاناقابلِ تردید ثبوت پیش کر دیا ہے۔فرماتے ہیں کہ اگر پاکستان میں مجھ سے پاکستان کی حکمرانی یااقبال کے فکر و تخیّل میں سے کسی ایک چیز کاانتخاب کرنے کو کہا گیا تو میں حکومت چھوڑ دوں گامگر اقبال کے افکار سے اپنا رشتہ ہر گز نہ توڑوںگا۔بابائے قوم اِس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ اقبال کے افکارِ تازہ پر عمل کے بغیر نہ پاکستان وجود میں آ سکتا ہے اور نہ پاکستان کی جغرافیائی حدود کے اندر ایک جہانِ تازہ نمودار ہو سکتا ہے۔افسوس صد افسوس! قائداعظم کی رحلت کے بعد ہمارے حکمران طبقے نے رفتہ رفتہ بابائے قوم کا طرزِ فکر و عمل ترک کر دیا۔ اپنی کرسی کومضبوط کرنے کی خاطر اقبال کو چھوڑ دیا۔ نتیجہ یہ کہ نہ کرسی مضبوط رہی اور نہ ہی پاکستان!
٭٭٭