پاکستان میں طبقاتی تقسیم کی بحث

معاشرے کی تصویر

(حُر ثقلین)

انسانی معاشرے میں طبقاتی تقسیم صدیوں سے رائج ہے۔کسی بھی معاشرے کے چالاک افرادبالا دستی حاصل کرنے کے لیے طبقاتی تقسیم بناتے رہتے ہیں۔عام

طور پر معاشرے کے

صاحبِ مضمون: حُر ثقلین

ذہین افرادمعاشرے کی تعمیر میں براہِ راست شامل نہیں ہوتے ہیں اور وہ سیاست میں حصہ نہیں لیتے ہیں ان کی خواہش محض منافع بخش پیشوں کا حصول ہوتا ہے جس کی بدولت ایک اوسط دماغ سیاست میں غالب آتا ہے ۔یہی افراد معاشرے کے باقی طبقوں کو اپنے زیرِ اثر کر لیتے ہیں اور انہیں محکوم بنا لیتے ہیں۔حاملِ اقتدار اور صاحبِ اختیار ہونے کی بدولت وہ تمام ریاستی اداروں کو اپنے زیرِ اثر کر لیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ عام آدمی تھانے سے لے کر عدالت تک در بدر ہوتا رہتا ہے جبکہ اشرافیہ قانون کی تشریحات کا سہارا لے کر اِدھر اُدھر ہوجاتی ہے۔یہی اشرافیہ چھوٹے طبقوں کو زبان نہیں دیتی اور ان کی آواز کو دبا دیتی ہے۔ یہ بااثر طبقہ کسی بھی معاشرے کا محض 2فیصد ہوتا ہے۔یہی 2فیصد لوگ باقی 98فیصد لوگوں کا استحصال کرتے ہیں۔ انسانی تاریخ میں پائی جانے والی بد امنی اسی طبقاتی تقسیم کا نتیجہ رہی ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب انسان فلاحی ریاست کے قیام کی جانب بڑھا تو یہ تقسیم کم سے کم ہوتی چلی گئی ۔یہ بات بھی درست ہے کہ یہ تقسیم بالکل ختم نہیں کی جا سکتی مگر اسے کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔یورپ اور امریکہ کے معاشروں نے ایسا کرکے دیکھایا ہے۔وہاں کے لوگ اس تقسیم کو بڑھنے سے روکنے کے لیے جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ نے حلف اٹھانے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں اداروں کو یہ یاد کرایا ہے کہ انہوں نے ماضی میں محض اشرافیہ اور مخصوص کلاس کی سیکورٹی کے لیے اقدامات کیے ہیں جبکہ عام امریکی کی حفاظت کے لیے کچھ نہیں کیا ۔ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اب صرف عام امریکی کی فلاح و بہبود اور اس کی سیکورٹی کے لیے کام کیا جائے گا۔
بدقسمتی سے پاکستانی معاشرہ بھی مختلف طبقات میں بٹا ہوا ہے اور یہاں طبقاتی تقسیم دن بدن گہری ہوتی چلی جا رہی ہے۔یہاں کی اشرافیہ اور مقتدرہ نے چھوٹے طبقات کو اپنے اپنے شکنجوں میں کسا ہو اہے۔اب ملک کے اندر واضح طور پر دو طرح کے نظام کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کے فیصلے اور احکامات ہر طبقے کے لیے مختلف ہیں۔مثال کے طور پر پنجاب حکومت نے صوبے بھر میں فضا میں جھولنے والے بڑے جھولوں کے استعمال پر پابندی عائد کر رکھی ہے مگر فورٹریس لاہور میں ایسی کوئی پابندی نظر نہیں آتی ہے۔ امیر طبقے کی رہائشی کالونیاں الگ نظر آتی ہیں وہاں پر صفائی،سیوریج ،سڑکوں اور ٹریفک کا نظام حکومتی ادارے عمدہ طریقے سے چلا رہے ہوتے ہیں جبکہ غریب طبقے کے رہائشی علاقوں میں مسائل میں روز بروز اضافہ ہو رہاہوتا ہے۔ اشرافیہ کے لیے سیکورٹی کے انتظامات عمدہ اور مثالی ہوتے ہیں جبکہ عام طبقہ حالات کے رحم و کرم پر ہی ہوتا ہے۔بنیادی انسانی حقوق مساوی نہیں ہیں۔رول آف لاء مہذب دنیا میں ایک جیسا ہے مگر یہاں قانون اور انصاف کے تقاضے بھی ہر طبقے کے لیے الگ الگ ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں طبقات میں بڑھتی ہوئی یہ خلیج کسی بھی طرح کی شکست و ریخت کو سبب بن سکتی ہے۔
عام طور پر طبقاتی نظام شعور کی کمی کی وجہ سے معرضِ وجود میں آتا ہے اور تعلیم کی کمی ہی شعور کی کمی کا سبب بنتی ہے۔علم کا واحد پر اثر ذریعہ درس گاہ ہی ہوتی ہے۔پاکستان میں دانستہ طور پر تعلیمی درسگاہوں اور نظام کو درست نہیں کیا جاتا ہے۔حکمران طبقہ یہ بات بخوبی سمجھتا ہے کہ جس دن پاکستانی معاشرے کے ہر بچے کوایک جیسے ذریعہ علم تک با آسانی رسائی حاصل ہو گئی وہ دن ایسی تقسیم کا آخری دن ہو گا۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملک میں چار طرح کے نظامِ تعلیم رائج ہیں اور یہ نظام مختلف طبقات پیدا کر رہے ہیں۔اشرافیہ باقی کے تین طبقات کو آپس میں الجھائے رکھتی ہے تاکہ وہ ان کی طرف متوجہ نہ ہوں۔مقتدرہ تمام فیصلے اپنے لیے کرتی ہے ہاں البتہ عام آدمی کی خواہشات پر لیپا پوتی کرنے کے لیے دانش سکول اور پینے کے صاف پانی جیسے ناکام منصوبے بھی شروع کیے جاتے ہیں۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے تمام طبقات کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا ہوگا ایک سوچ اور ایک فکر اپنا نا ہو گی ۔سب سے بھاری ذمہ داری حکمران طبقے کی ہی ہے کہ وہ مختلف طبقوں میں گہری ہوتی خلیج کو کم سے کم کریں اور ملک میں یکساں نظام تعلیم رائج کریں ،مساوی بنیادی حقوق اور قانون کا نظام نافذ کریں۔اگر پسے ہوئے طبقات ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو یہی خلیج اس اشرافیہ کا قبرستان ہو گی۔