پاکستانی معاشرہ اور روایتی تعلیم کا تصور

ایک روزن لکھاری

ارشد محمود

کبھی آپ غور کریں،ہمارے ہاں اکثر اسکولوں کی دیواریں پر یہ نعرہ بڑے جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے
Education is formation not information،پتہ نہیں یہ نعرہ کس کی ایجاد ہے لیکن اس قول کی دانش سے ہمارے اساتذہ تعلیمی ماہرین بے حد متاثر نظر آتے ہیں۔ لگتا ہے ہمارے تعلیمی فلسفے کی اساس اسی قول میں مضمر ہے۔۔۔نعرے یوں ہی مقبول نہیں ہوتے ،ان سے قوموں کی اجتماعی سائیکی کا پتہ چلتا ہے۔اس نعرے کا سیدھا سادھا ترجمہ یہ ہے کہ تعلیم معلومات حاصل کرنے کا نہیں،مخصوص قالب میں ڈھلنے کا نام ہے۔اگر یہ نعرہ ہم نے مغرب سے مستعارلیا ہے تو ہم نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ کم ازکم مغربی اقوام نے اس نعرے کو کبھی اپنی تعلیم کی بنیاد نہیں بنایا۔سچ تو یہ ہے کہ افلاطون سے لے کر جان ڈیوی تک مفکرین نے اس نعرے کے برعکس خیالات کوفروغ دیا۔جس کے نتیجے میں جمہوری اور انسانی اقدار پر ایمان رکھنے والا خوشحال یورپ وجود میں آیا۔
اگر مذکورہ نعرہ لے کر چلیں تو پہلی بات یہ سامنے آئے گی کہ تعلیمی منتظمین اور معلمین کا غالب دھیان دینے میں نہین بلکہ اس کی وساطت سے خاص قسم کے ذہن اور فکر کے حامل افراد بنانا ہو جائے گا۔اس کا پہلا نتیجہ یہ ہو گا کہ تعلیم کے بنیادی مقصد سے ہٹ جائیں سے اور تعلیم کی تخفیف ہوکر محض خواندگی رہ جائے گی۔ہامری قوم کے پڑھے لکھے افراد میں تعلیم یافتہ ہونے والی بات نظر نہین ااتی یا وہ اپنے رویّے،مزاج اور فکر میں ناخواندہ لوگوں سے مختلف نہیں ہو پاتے تو اس پر حیران نہیں ہونا چاہیے ۔انہیں بنایا ہی خواندہ گیا ہوتا ہے۔جدید نظریات کے مطابق تعلیم کا مطلب ’’علم دینا‘‘نہیں فرد کو علم کے ’’پراسس ‘‘میں ڈالناہوتا ہے۔چہ جائیکہ اس کا مطلب فارمیشن(تشکیلِ شخصیت)کیا جائے۔جب تعلیم کو فارمینشن(Formation) کی سطح پر لے آئیں گے تو نہ صرف پوری فلاسفی تبدیل ہو جائے گی بلکہ نصاب،تعلیمی منتظمین اور اساتذہ کا سارے کردار علم پروری کی بجائے Introductionیا دوسرے لفظوں میں برین واشنگ ہو جائے گا۔ریاست کے سامنے پہلا سوال یہ ہو گا کہ کیا پڑھا جا ئے اور کیا نہ پڑھا جائے۔گویاعلم کے پراسس کا آغاز ہونے سے پہلے ہی خاتمہ ہو جائے گا۔علم معروضی چیز کا نام ہے اور اسے آزاد فضا کی ضرارت ہوتی ہے۔سچائی کو جاننے کے لیے پہلے سے شرائط نہیں باندھی جاسکتیں۔اگر اسے مخصوص فکری سمت دیں گے تو پھر وہ علم نہیں ہوگا،عقائد کا مجموعہ ہوگا۔۔۔علم اس وقت تک وجود میں نہیں آتا جب تک وہ ٹھوس حقائق ،دلائل،تنقید اور تجربے کی کسوٹی پر پورا نہ اُترے۔علم کے برعکس اندھا ایمان ہوتا ہے جس کی بنیاد خالص جذبات پر رکھی جاتی ہے۔اور ایسے جذبات علم کا اور بھی ستیا ناس کر دیتے ہین جب تقدیس کا عنصر بھی شامل ہو جائے۔علماندھے انصاف کی مانند ہے جو اپنے اور بیگانے کو نہیں دیکھتا۔ماضی سے ورثے میں ملے ہوئے مقولوں کا خاتمہ کرتا ہے۔صداقت آفاقی نظام سے متعلق ہوتی ہے وہ کسی مخصوص گروہ یا جغرافیے سے وابستہ نہیں ہوتی۔علم کا مطلب آئیے جانیں۔۔۔کیا ہے؟کس طرح ہے؟ کیوں کر ہے؟اور پھر علم کو ہنر سے اپنے فائدے اور ترقی کے لیے استعمال کرنا ہوتا ہے۔لیکن علم کے حوض میں اگر پہلے سے طے شدہ معیارات اور خود ساختہ تعصّبات کو لے کر جائیں تو علم کا شفاف پانی گدلا ہو جائے گا۔علم کی وادی میں آپ جتنا آادانہ گھومیں گے،آپ پر اتنی ہی زیادہ سچائیاں منکشف ہوتی چلی جائیں گی۔لیکن اگر آپ خود کو علم اور سچائی کا’’ استاد‘‘ سمجھ کر چلیں گے تو علم آپ کے ہاتھ آنے والا نہیں ہے۔علم اپنے عمل میں ایک جمہوری اور سیکولر فعل ہوتا ہے۔آمریت اور تقدیس سے اسے مسخ کرتی ہے۔ہمیں اس بات پر غور کرناہوگا کہ علم اور سائنس کو انھی قوموں نے پایا ہے جو اپنی فطرت میں جمہوری اور سیکولر ہوگئیں۔علم کے حصول کے لیے انسان کا فکری لحاظ سے آزاد ہونا ضروری ہے۔تحصیل علم کا مطلب ہی یہ ہے کہ ابھی آپ نے جاننے کا عمل شروع کرنا ہے۔اگر آپ پہلے سے ہی جانتے تو علم کی ضرورت نہیں۔علم خود آزاد ہے ۔

اس پر کسی پابندی نہیں لہٰذا وہ ان لوگوں کو نہیں ملتا جو ذہنی طور پر غلام ہوں۔علم ذہنوں کو آذاد کرتا ہے۔ماضی کی آلودگی کو صاف کرتا ہے اور مستقبل کے امکانات دکھاتا ہے۔جامد اور پہلے سے بھرے ہوئے ذہن علم کو نہیں پاسکتے اور نہ اس سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔اُلٹاوہ حقائق سے خوف زدہ ہوتے ہیں۔وہ سچائی پر جذبات کو ترجیح دیتے ہیں۔چناں چہ ہمارا تعلیمی نصاب حقائق کی سانسی یعنی معروضیت کی بجائے جذبات سے مرتب کیا جاتا ہے۔چناں چہ تعلیمی ادارے ایسے گھسے پٹے سانحے ہیں جن سے وہ افراد نکلتے ہیں جو خواندہ تو ہیں لیکن سچائیوں سے واقف ہوتے ہیں اور نہ ہی تخلیقی صلاحیتوں سے ماحول میں تبدیلی اور ترقی لا سکے۔
آج کے مفکرین اس بات کے بھی سخت خلاف ہیں کہ استاد خود کو’’ علم دینے والا‘‘نہ سمجھ لے اور وہ طالب علموں کے اوپر آقا اور ’’ماسٹر‘‘ نہ بن جائے۔تعلیم کے عمل میں برابری اور کھلے پن کا ماحول قائم کرنے کے لیے جدید تعلیمی اداروں میں استاد کو ’’سر‘‘ کہنا دور کی بات اساتذہ خود کو استاد یا ٹیچر کے لقب سے بلائے جانے کو بھی معیوب جانے کو بھی معیوب سمجھتے ہیں اور ہدایت کرتے ہیں کہ طالب علم انھیں نام لے کر بلائیں(اب پاکستان مین بھی جدید اور ممتاز تعلیمی اداروں میں یہ روایت چل پڑی ہے اور آمرانہ مزاج کا ستاد جو خود کو عقلِ کل اور سماجی اقدار کا رکھوالا سمجھتا تھا فیوڈل نظام کی ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ رفتہ رفتہ مٹ رہا ہے اور اس کی جگہ جمہوری اور کشادہ ذہن کا علم اُبھر رہا ہے)انسان علم کی جس وسعت اور گہرائی میں جا چکا ہے وہاں استاد ہی کیوں نہ ہو کسی کا علم کے منبر پر چڑھ بیٹھنا بے علمی کی بات ہی ہو سکتی ہے۔
فارمیشن ‘‘ کے نظریے کی مقبولیت کی وجہ ہمارے معاشرے میں آمرانہ اور فیوڈل مزاج کی پختگی کی دلیل ہے۔جس میں طاقت ور کمزور کو’ ٹھیک‘ کرتا ہے۔ریاست شہریوں کو،حکمران عوام کو،باپ اولاد کو،مرد عورت کو،اساتذہ طلبأ کو۔۔۔ اس سے اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کا تحفظ اور اسٹیٹس کو قائم رکھنا مقصود ہے۔ہماری ریاست اور معاشرے پرفوجی غلبے کے سیاسی و سماجی اثرات بھین اس کی ایک وجہ ہیں۔اپنے مخصوص قومی تناظر میں یاد کرانا شاید مناسب ہوگاکہ’’فارمیشن‘‘ کا لفظ فوج میں استعمال ہونے والی ایک عسکری اصطاح ہے۔عوام کو محبِ وطن اور اچھا مسلمان بنایا جائے۔علم،سشائی اور روشنی کا نام ہے۔جب علم ملے گا سچائیاں خود بہ خودسامنے ااجائیں گی اور ایک ایسا انسان بننے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا جو اپنے ماحول سے محبت کرتا ہے۔لیکن جب کوئی ادارہ،گروہ یا شخص کسی دوسرے کو کچھ خاص قسم کی ’’چیز‘‘ بنانا چاہیں تو سمجھ لیں کہ کچھ مقاصد پنہاں ہیں۔اس کا سچائی ،علم اور صداقت سے کوئی تعلق نہیں۔کوئی بھی انسان علم اور آگہی سے ’’خراب‘‘ نہیں ہو سکتا۔معاشرے میں جتنی بھی خرابی ہوتی ہے۔وہ جہالت کی پیداوار ہوتی ہے اور جو معاشرہ جتنا زیادہ خراب ہو گا اس کا مطلب ہے کہ وہ اتنا ہی زیادہ جاہل ہو گا۔آمرانہ افکار کی ضرورت بد دیانت کو ہوتی ہے۔کوئی بھی دیانت دار معاشرہ آزادئ فکر پر پابندی لگنا ضروری نہیں سمجھے گا۔وہ چاہے گا کہ شہریوں کی خود ساختہ فارمیشن کرنے کی بجائے علم خود ان کی فارمیشن کرے ۔وہ حقائق کی روشنی میں اپنی فارمیشن کے عمل سے خود گزریں۔اگر پاکستان کے عوام کو مصنوعی طور پر محبِ وطن ’’بنانے‘‘کی کوشش نہ کی جاتی تو پاکستان کبھی نہ ٹوٹتا۔اگر ہمارا تعلیمی نصاب اور میڈیا عوام کو اچھا مسلمان بنانے کی کوشش نہ کرتا تو پاکستان کے عوام زیادہ اچھے مسلمان ہوتے! یہ عمل اور علم کی دنیا ہے۔مادی اور ٹھوس حقیقتوں پر مشتمل۔اسے دیکھا ،چھویا اور پرکھا جا سکتا ہے۔عمل سے علم ملتا ہے۔ مخصوص لفظوں ،فقروں اور پیراگرافوں کے رٹے لگانے سے نہیں۔خواہ ان کے ساتھ آپ کی وابستگی کیسی ہی کیوں نہ ہو۔وہ بے نتیجہ رہیں گے۔انسان ہو یا ماحول ،بدلتا صرف علم ہے،ایک سچا علم۔جس کو کوئی گھڑ نہیں سکتا۔وہ کسی کی ملکیت نہیں ہوتا۔نہ کسی کے قبضے میں۔وہ کائنات کے اندر بالکل آزاد اور ننگ دھڑنگ ہوتا ہے۔اس پر کوئی ملمع نہیں چڑھاہوتا۔اس کا کوئی نام اور جغرافیہ نہیں ہوتا۔بس جاننے کی جستجو،پیاس اور ہمت چاہیے۔علم اور سچائیاں خود ہی واضح ہو کر آپ کے سامنے اا جائیں گی اور پھر علم آپ کی جو بھی فارمیشن کرے ۔ہمیں اس پر اکتفا کرنا چاہیے۔وہی سب بڑی سچائی ہے وہی سب سے بڑی اخلاقیات ہے،جسے فطرت اپنے قوانین سے بناتی ہے۔یہ ظلم کی بات ہے کہ تعلیم کو علم فراہم کرنے کا وسیلہ بنانے کی بجائے اسے طالب علم کی شخصیت اور فکر کی مخسوس قالب میں تشکیل دینے کا ذریعہ سمجھا جائے۔تعلیم کو فارمیشن کا ذریعہ سمجھنے والے دنیا میں آج تک مندرجہ ذیل تین طرح کے گروپ شامل رہتے ہیں:
۰ مذہبی تعلیم دینے والے
۰ فاشزم یا نازی ازم پر یقین رکھنے والے
۰ کمیونسٹ معاشرے
مندرجہ بالا تعلیمی نظام میں یہ سوچ کر تعلیم دی جاتی کہ حصولِ’’علم‘‘ کے بعد کس طرح کے افکار ہونے چاہیے۔گویا تعلیم تلقین عقائد بن جاتی ہے۔ اسے ہی دائرے میں جامد کر دیا جاتا ہے۔جب آپ فارمیشن کا نظریہ لے کر چلتے ہیں تو آپ پہلے سے ہی کچھ اقدار اور نظریات کو متعین کر لیتے ہیں۔جن کی طرف آیندہ تعلیم کو موڑنا ہے۔یہ کچھ ایسے ہی ہے کہ سفر پر نکلنے والے شخص کے پاؤں میں رسّی باندھ دی جائے۔ظاہر ہے وہ آپ کے مطلوبہ فاصلے سے آگے نہیں جا پائے گا۔اسی کا نام فارمیشن ہے۔کیا ہونا ہے،کیا بنانا ہے،یا کیا حاصل کرنا ہے اگر اسے فلسفے کی سطح پر پہلے سے طے کر لیا جائے تو پھر تعلیم کا مقصد فوت ہو جائے گا۔تعلیم علم حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اور علم صداقت کی جستجو کے سوا کچھ نہیں۔یہ دنیا کن عناصرسے بنی ہے۔اور کن قوانین کے تحت عمل پیرا ہے اس کی آگہی کا نام علم ہے۔کیا پتہ ہے کہ آپ علم کے حصول سے پہلے ہی جن مقاصد کا تعین کر رہے ہیں حقائق اور علم انھی کی تردید کر دیں۔۔۔لہٰذا ہمارا مقصد فقط علم(صداقت)کا حصول ہونا چاہیے۔پہلے صداقت کا تو پتہ چلے پھر صداقت خود ہماری ذات اور افکار کی تشکیل کر دے گی۔
اگر ہمیں صداقت کا پہلے ہی پتہ ہے تو پھر تعلیم کے ادارے کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔اس کے جواب میں کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ تعلیم کے ادارے کی اس لیے ضرورت ہے کہ پچھلی نسل کو پہلے سے معلوم صداقت کا علم منتقل کرے۔اگر تعلیم کے یہی معنی ہیں تو یہ بہت میکانکی اور محدود نوعیت کا معاملہ ہو کر رہ جائے گا۔زندگی اور کائنات تو حرکت سے عبارت ہے۔

یہاں جامد اصول اور ابدی قسم کی صداقتیں کام نہیں کرتیں۔ان کے اپنے زمان و مکان کے حساب سے تجدیدِ نو ہونی ضروری ہے۔علم کا یہی پراسس ہے۔صداقت تو آبشارہے جس میں ہر دم تروتازہ صداقتیں گرتی رہتی ہیں۔جو صداقت باسی ہو جائے وہ صداقت ہی نہیں ہوتی۔ اگر آپ کے پاس سچ مُچ کی صداقت ہے تو زمانہ اس کا خود بہ خود ساتھ دے گا ورنہ وہ ماضی کے علمی عجائب گھر کا حصہ بن جائے گی۔اگر ہم سچ مچ علم کے پیاسے ہیں تو پھر ہمیں صداقتوں کے سامنے آنے پر انھیں قبول کر لینا چاہیے۔تہذیب اور سماجی ترقی کا عمل یونہی قائم رہ سکتا ہے۔اگر ہم نے علم کا مقصد ہی فارمیشن بنائے رکھا۔تو زوال،پسماندگی اور سقوط ہمارا مقدر ہوگا۔ہمیں افلاطون کے اس قول کو نہیں بھولنا چاہیے’’جدھر بھی دلیل مجھے لے جائے گی میں اس طرف چلا جاؤں گا‘‘
یہ ہے تعلیم کی بنیادی روح۔مغربی اقوام نے ترقی اس اصول پر کی ہے۔صداقتیں پہلے متعین نہیں کی جا سکتیں۔وہ عمل اور کھوج سے ہی سامنے آتی ہیں۔وہ انسان ،انسان نہیں جو صداقت سے ڈرتا ہو۔تعلیم کا عمل کسی نظریاتی ایجنڈے کے بغیر شروع کرنا چاہیے۔یہی سائنسی روّیہ ہے۔ہم علم لینے چلے ہیں،جاننے چلے ہیں۔اب جو بھی سامنے آئے۔اس پر ہمیں فخر کرنا چاہیے۔اس کے مطابق خود کو ڈھالنا چاہیے۔علم کو ’’خود ساختہ‘‘ کریں گے،اسے اپنے مطلب،مرضی،مفادات اور تعصبات کے مطابق ڈھالیں گے تو وہ علم نہیں رہے گا اور ہمیں اس بات پر بھروسہ ہونا چاہیے کہ علم یعنی معروضی صداقت کو پالینے کے بعد انسان پہلے سے خوبصورت بنے گا۔
جو لوگ ’’فارمیشن‘‘ کو تعلیم سمجھتے ہیں۔وہ درج ذیل شکوک میں مبتلا ہوتے ہیں۔انھیں یہ شک ہوتا ہے کہ تعلیم کے ذریعے جو علم سامنے آنے والا ہے۔وہ اس علم سے مختلف ہوگا جسے وہ پہلے سے علم سمجھتے۔حفظ ماتقدم کے طور پر وہ تعلیم کے سارے پراسس کو ہی فارمیشن کا نام دیتے ہیں۔تاکہ پہلے سے ہی طے کر لیا جائے کہ تعلیم حاصل کونے کے بعد کس طرح کا آدمی بننا ہے۔
ان کا دوسرا یہ شک ہوتا ہے کہ علم کہیں طالب علم کو ’[خراب‘‘ ہونے کا خدشہ اس حد تک حاوی ہوجاتا ہے چناں چہ وہ علم کو سنسر کرتے ہیں!علم کو مسخ کر کے طالب علم تک پہنچنے دیا جاتا ہے اور یوں علم کا ہی قتل ہو جاتا ہے۔چناں چہ یہی وجہ ہے کہ ہمارا پڑھا لکھا آدمی تعلیمی اداروں سے جب گریجویٹ ہو کر نکلتا ہے ۔اس میں صاحبِ علم والی کوئی بات آپ کو متاثر نہیں کرتی۔اس کی سوچ بچار، کیریکٹر،مزاج ویسا کا ویسا ہی ہوتا ہے جس طرح اس معاشرے کے کسی بھی ناخواندہ آدمی کا۔اس میں ڈگری لینے کے بعد کوئی قلبی و ذہنی تبدیلی واقع نہیں ہو پاتی۔معاشرہ ویسا کا ویسا ایک جگہ پر کھڑا رہتا ہے۔یکسانیت اور یک رُخی سوچ کاحامل۔۔۔ترقی اور تبدیلی کے اِمکانات پیدا نہین ہو پاتے۔پڑھا لکھا آدمی بھی اپنے گردو پیش کا نئی طرح سے تجزیہ کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوتا ہے۔وہ نئے سوال نہیں اُٹھا سکتا۔اس کی،سماجی،اخلاقی اور کئنات کے بارے میں فکر بنیادی طور پر وہی کی وہی رہتی ہے جو تعلیم اور نام نہاد علم کے حصول سے پہلے تھی۔
فارمیشن کا نظریہ تخلیقیت(Creativity) کی موت ہے۔یہ صرف کاپی بنانا سکھاتا ہے۔ہماری ذہنی اور قلبی تشکیل کا جو کام علم نے کرنا ہوتا ہے۔وہ کام ہم اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں اور پھر علم کو اپنے قومی،علاقائی اور گروہی تعصب کے مطابق ڈھالتے ہیں۔تعلیمی عمل محض رَٹّے کا نام رہ جاتا ہے۔وہ سوشنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہونے دیتا۔اس لیے کہ تجربہ کرنے اور نتائج خوداَخذ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔جو علم کی جستجو پیدا نہیں ہونے دیت۔علم خود عمل پر ابھارتا ہے۔اس لیے کہ علم ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔علم کے بعد انسان فارغ بیٹھ ہی نہیں سکتا۔وہ مزید علم کا متلاشی رہے گا اور حاصل کرتا رہے گا۔مگر افسوس کہ یہ سب چیزیں ہمارے تعلیم یافتہ طبقے میں ناپید ہو گئی ہیں۔اس لیے کہ ان کی تربیت ایسے تعلیمی ماحول،اداروں اور ان کے اساتذہ کے زیرِ اثر ہوئی ہے جن کا مقصد علم دینا کم اور ان کی فارمیشن کرنا زیادہ تھا۔جو علم کو بہتا دریا،بے کراں اور ہر دَم نئے انداز سے منکشف ہونے والا مانتے ہی نہیں۔وہ طالب علم کے ذہن کو کھلنے ہی نہیں دیتے۔ہمارے طالب علم پر سوال ،بحث اور دلیلوں میں الجھنے کی پابندی ہے کہ استادکا’’احترام‘‘ بہت ضروری ہے۔وہ اخلاقیات،تقدیس اور وطنیت کے نام پر جس طرح کے بھی متعصب اور غیر سائنسی نظریات ٹھنستا ہے،کھلی چھوٹ ہوتی۔طالب علم کا کام خاموشی سے سننا،اسے قبول کرنا اور اس کا رَٹّا لگانا ہے تاکہ کمرہ امتحان میں اس کی قَے کی جا سکے۔ظاہر ہے اس طرح کا تعلیمی نظام مدبر اور سائنس دان پیدا نہیں کر سکتا۔صرف اندھوں کی قطار ہی بنائی جا سکتی ہے۔جو ایسی بوسیدہ تہذیب اپنے کندھوں پر اُٹھائے پھریں۔جس کے تخلیقی سوتے خشک ہو چکے ہوں۔
ہم علم سے خوف زدہ کیوں ہیں؟علم کی معروضی صداقت پر ایمان کیوں نہیں۔اس پر ہمیں غور کرنا چاہیے۔

About ارشد محمود 14 Articles
asif