پاکستانی معاشرہ اور خواتین کا عالمی دن

پاکستانی معاشرہ اور خواتین کا عالمی دن

از، فارینہ الماس

خواتین کا عالمی دن معاشرے کی سماجی و اقتصادی ، ثقافتی و سیاسی ترقی میں خواتین کے اہم کردار کو تسلیم کرنے، اور دنیا بھر میں موجود ملازمت پیشہ خواتین کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے منایا جاتا ہے ۔اس دن کو منانے کا مقصد عالمی سطح پر صنفی عدم مساوات کا خاتمہ بھی ہے اور خواتین کی ایسے شعبوں میں شمولیت کی حوصلہ افزائی کرنا بھی ، جن شعبوں پر عموماً مردوں کی اجارہ داری کے قیام کا تاثر قائم ہے ۔مغرب کی خواتین میں ان کے سیاسی و معاشی حقوق کا ادراک عین اس دور سے پیدا ہونا شروع ہوا جب صنعتی ترقی نے معاشرے کی سوچ میں ترقی پسندانہ رحجانات کو فروغ دینا شروع کیا۔جب عورت نے گھر سے باہر قدم نکالا اور اپنے خاندان کی معاشی کفالت میں مردوں کا ہاتھ بٹانا شروع کیا ۔رفتہ رفتہ اسے احساس ہونے لگا کہ اسے امتیاز کا شکار بنایا جارہا ہے ۔مرد کے برابر محنت کے باوجود اسے اجرت تو مرد سے کم دی ہی جا تی تھی اس کے ساتھ ساتھ ملازمت کے دوران اسے دیگر امتیازات کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا تھا ۔1908میں 15000خواتین نے نیویارک میں مارچ کیا اور اس مارچ کا بنیادی مطالبہ عورتوں کے لئے کام کے اوقات کو نسبتاً محدود کرنا ،انہیں بہتر اجرت اور ووٹ کا حق د لانا تھا ۔اسی واقعے کی یاد میں 1909 ء میں اٹھائیس فروری کو خواتین کا پہلا ’’عالمی نیشنل ڈے‘‘ اور 1911ء میں 19 مارچ کو پہلا ’’خواتین کا عالمی دن ‘‘ منایا گیا ۔لیکن1977 ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یہ فیصلہ کیا کہ ہر سال 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن سے منسوب کیا جائے گا۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں گو کہ اسے مختلف طور پر منایا جاتا ہے کہیں خواتین کا بنیادی مطالبہ مردوں کے برابر تعلیم اور ملازمت کے مواقع کے حصول کا مقصد ہے تو کہیں ان کی سیاسی عہدوں پر بلا امتیاز تقرر ی کا مطالبہ کیا جاتا ہے ۔ کچھ علاقوں میں محض اس خاص دن پر خواتین کو معاشرے سے مجموعی طور پر عزت و احترام دلانے کی بات کی جاتی ہے تو کہیں اس دن کا انعقاد خواتین سے متعلق محبت اور حوصلہ افزائی کے جذبات کے اظہار کی خاطر کیا جاتا ہے ۔
1975 ء میں آئس لینڈ کی خواتین نے اس خاص دن پر اپنے بھرپور احتجاج کے ذریعے دنیا کی پہلی خاتون صدر کے لئے راہیں ہموار کیں۔ اس سال مارچ کی آٹھ تاریخ کو منائے جانے والے اس عالمی دن کا campaign theme ہے ، “be bold for the change” ۔سننے میں آیا ہے کہ اس بار یہ دن امریکی خواتین کچھ اس طرح سے منانے کا ارادہ رکھتی ہیں کہ وہ واشنگٹن کی طرف مارچ کر کے امریکی صدر ٹرمپ اور اس معاشرتی نا انصافی کے خلاف سڑائیک کریں گی جو ٹرمپ کو طاقت میں لانے کا باعث بنی۔ بات کی جائے پاکستان کی تو نجانے اس دن کے لئے ہمارا کیا سلوگن ہو گا ۔ہم ایک ایسے ملک کے باسی ہیں جو ایک عالمی سروے کے مطابق خواتین کے لئے تیسرا بڑا خطرناک ملک بن چکا ہے ۔ہر سال ایک ہزار سے زائد خواتین کارو کاری کا شکار بنتی ہیں ۔نوے فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں ۔پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس کے مطابق یہاں بر سر روزگار خواتین کی تعداد گذشتہ ایک دہائی کے دوران چھپن لاکھ نوے ہزار سے بڑھ کر ایک کروڑ اکیس لاکھ سے ذیادہ ہو چکی ہے۔لیکن تقریباً ہر شعبے میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے بہت سے اداروں میں تو انہیں جنسی طور پر ہراساں بھی کیا جاتا ہے، جو وہ اپنی معاشی مجبوریوں اور ایسے واقعات کو گھر والوں سے چھپانے کے تحت برداشت کر لیتی ہیں ۔ انہیں ملازمت کے ساتھ ساتھ گھر کے نظام کا کل بار بھی اٹھانا ہوتا ہے اور انتہائی تکلیف کا باعث یہ بات ہے کہ انہیں ان کی ایسی دوہری خدمات کا اعتراف نا تو معاشرے سے ملتا ہے اور نا ہی خود ان کے اپنے گھر سے ۔
خواتین پر ظلم و تشدد کے واقعات بہت تواتر سے بڑھتے چلے جا رہے ہیں ۔ان کا استحصال ،جنسی تشدد اور قتل و غارت گری ہمارے معاشرے کا معمول بن چکا ہے ۔کہیں لڑکی کو محض چند روپوں کے عوض بیچ دیا جاتا ہے اور کہیں وہ اپنے بہت ہی قریبی اور خونی رشتوں کے ہاتھوں اپنی آبرو گنوا رہی ہے ۔معاشرے کے اخلاقی انحطاط اور جبرو ستم کا نشانہ بنتی ہوئی لڑکیوں کو پاکستان کا کوئی قانون اور محافظ تحفظ نہیں دے پاتا ۔غیرت کے نام پر ہر سال ایک ہزار سے زائد لڑکیاں قتل ہو جاتی ہیں ۔2015ء میں1096 خواتین کو جب کہ 2016ء میں 1100خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا ۔
پاکستان میں اندازاً ہر سال چالیس ہزار لڑکیاں نکاح کے مقدس بندھن میں بندھتی ہیں اور ان چالیس ہزار میں سے تیس ہزار لڑکیاں شادی کے بعد گھمبیر مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں ۔اور ایک سروے کے مطابق ان تیس ہزار میں سے چھ ہزار لڑکیاں واپس اپنے ماں باپ کے گھروں میں آ بیٹھتی ہیں ۔اور جو اس بندھن کو اپنی انگنت مجبوریوں کی بنا پر نبھارہی ہیں ان میں سے اکثر گھریلو تشدد کا شکار بن جاتی ہیں ان کے مجازی خدا اور سسرالیے ان کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، ان سے ہر قسم کا غیر انسانی سلوک روا رکھنے کو اپنا وطیرہ بنائے ہوئے ہیں ۔ 2010 ء میں خواتین پر تشدد کے آٹھ ہزار واقعات رپورٹ ہوئے اور 2011 ء میں ان واقعات کی تعداد آٹھ ہزار پانچ سو انتالیس رہی۔2013تک اس تشدد کا تناسب 3.71 تک بڑھ گیا۔خواتین پر ہونے والے تشدد کے واقعات صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں رونماہوتے ہیں ۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے تقریباً 90 میں سے 85 معاشروں میں بیویوں کو مارا پیٹا جاتا ہے ۔جبکہ ستر فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں ۔ایک عورت پر تشدد کے عوامل جسمانی،نفسیاتی،جنسی اور معاشی نوعیت کے ہو سکتے ہیں ۔لیکن تشدد کی ایک نوعیت جو بڑی برق رفتاری سے بڑھ رہی ہے وہ لڑکی کی پیدائش سے قبل اس کی جنس کا پتہ چل جانے کے بعد اسقاط حمل کے زریعے اس کا قتل ہے ۔گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان جیسے ملک میں بھی جہاں مذہب اور مذہبی احکامات کو اہمیت دی جاتی ہے اس طرح کا قبیح فعل صرف لڑکی کی پیدائش سے بچنے کے لئے انجام دیا جا رہا ہے ۔

انتہائی قابل افسوس امر ہے کہ برطانیہ میں بھی کئی پاکستانی گھرانے لڑکی کی پیدائش سے بچنے کے لئے اس فعل کے مرتکب پائے گئے۔ ہمارے معاشرے میں طلاق کی بڑھتی شرح اور لڑکیوں کے مناسب رشتوں کے حصول میں ناکامی نے یوں تو کچھ رحجانات میں بہت حد تک تبدیلی پیدا کی ہے مثلاً یہ کہ خصوصاً مڈل کلاس میں لڑکیوں کی تعلیم پر عائد پابندی کا رفتہ رفتہ خاتمہ ہونے لگا ہے۔ پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے مطابق ہائی اسکولوں میں زیر تعلیم طالب علموں میں سے 42 فیصد سے زائد تعداد لڑکیوں کی ہے ۔یونیورسٹیوں میں 47 فیصد طالبات زیر تعلیم ہیں ۔بہت سے غیر روایتی شعبوں میں خواتین نظر آرہی ہیں لیکن 70 فیصد ان لڑکیوں کا بھی ہے جو پروفیشنل تعلیم مثلاً ایم ۔بی ۔بی ۔ایس ،انجنئیرنگ ،فارمیسی ،ایم ۔فل وغیرہ کی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود اپنے علم کو قابل استعمال نا بنا سکیں اور شادی کے بعد گھر داری میں جت گئیں اور جن کی گھریلو خدمات ،خدمت کے کسی زمرے میں نہیں آتیں۔ الغرض ،عورت ہماری ایک ایسی سوچ کے جہنم کا شکار ہوچکی ہے جس میں اس کا ساتھ دینا تو کجا ،اس کے دکھوں میں اس سے ہمدردی کا بھی اس سے کوئی لینا دینا نہیں ۔دین دار اسکے گلے میں رسی ڈال کر اپنی سوچ کے اصطبل میں کسی کھونٹے سے باندھ کر رکھنا چاہتے ہیں اور آذاد خیال لوگ اسے آزادی کی اس نہج پر لے جانے کے متمنی ،کہ جہاں وہ محض مرد کی عیاشی کا ساماں مہیا کرنے کا باعث بن سکے ۔یہ دونوں قسم کے ہی مرد ،عورت کی دکھتی رگ کو جان نہیں پاتے۔یہ محض اپنے نظریات کا پرچار کر کے نام کمانے کی نیت رکھتے ہیں ۔یا یہ کہنا چاہئے کہ اپنے نظریات کی دکان چمکانا چاہتے ہیں ۔جب کہ عورت کے دکھ سمیٹنے سے انہیں کوئی غرض نہیں ۔

عورت صدیوں سے ایک جیسے ہی ستم سہنے پہ مجبور ہے جن کی نوعیت اور شدت وقت کے ساتھ ساتھ مختلف ہو سکتی ہے لیکن ختم نہیں ۔۔ ۔کیونکہ وقت بدل جاتا ہے،موسم بدل جاتے ہیں ،دل کی کیفیت ،دلکش نظاروں کے حسن اور احساسات و محسوسات ،تخیل ،خواب،تعبیر ،لفظ،بیان ،اور عمل ۔۔۔۔یادیں ،ان کی نغمگی اور اس نغمگی کا شکستگی میں بدل جانا،اور کبھی انہی یادوں کا کل سرمایہء حیات بن جانا بھی تبدیلی کا اک عمل ہے ۔چشمے،جھرنے ،دریا اپنا رستہ بدل سکتے ہیں ۔ہماری ترجیحات ،تعلقات ،آنکھوں کی زبان،ظاہر و باطن کا تال میل سب رفتہ رفتہ بدل جاتے ہیں لیکن بس ایک شے نہیں بدلتی ’’عورت‘‘ کے وجود کے گرد گھومتی ہماری سوچ ۔۔۔جو صدیوں کے ہزارویں پر بھی آکر رک جاتی ہے ۔سماج کی قدروں ،آئین و قوانین کے ترقی پانے سے بھی اس کا کوئی لینادینا نہیں ۔انسان کے چاند پر پہنچ جانا یا کائنات کی تسخیر در تسخیر بھی انسانی فہم کے اس مقفل حصے کی کنجی دریافت ناکر پائی اورفیمنزم کی چلائی جانے والی عالمگیر تحریک بھی عورت کو اس کے جہنم سے نکال نا سکی ۔مشرق کے فرسودہ نظام میں بھی عورت کی شناخت بھٹکتی پھرتی ہے اور مغرب کے استھانوں پر بھی یہ بے بال و پر اور بے آسرا دکھائی پڑتی ہے۔

کہیں دس اعشاریہ تو کہیں صد اعشاریہ کے فرق سے انسانی اقدار کے قبرستانوں میں گھمن گھیریاں کاٹتی چلی جا رہی ہے ۔ اور ہم آج تک یہ بھی طے نا کر پائے ،کہ آخر ہم عورت کا عالمی دن مناتے کیوں ہیں ۔۔۔۔؟کیا عورت پر سال بھر میں ڈھائے جانے والے مظالم کی یاد تازہ کرنے یا اس کی مردہ خواہشوں کی قبروں پر اپنی بے حسی کی اگربتیاں جلانے۔۔۔۔