نئی ٹیلی فلم ’’ایک تھی مریم‘‘ پر ایک تبصرہ

خرم سہیل

افواج  پاکستان کے حوالے سے ماضی میں پیش کیے گئے ڈرامے آج بھی ناظرین کے ذہنوں پرمنقش ہیں، جن میں سنہرے دن اورایلفا بریوو چارلی سرفہرست ہیں۔ اسی طرح ملی نغمے قوم کی آواز بن کرگونجتے رہے ہیں،آج بھی ان کی دھنیں ہماری سماعت کو مترنم احساس دلاتی ہیں۔ عہدحاضر کے پاکستانی سینما میں متعدد فلموں کی تکمیل میں آئی ایس پی آر کی معاونت دستیاب رہی،اب اس تخلیقی سفر میں ایک اہم اضافہ 6ستمبرکو نمائش کے لیے پیش کی جانے والی ٹیلی فلم’’اِک تھی مریم‘‘ہے،جو پاکستان ائیر فورس کی پہلی فلائنگ آفیسرشہید مریم مختیارکی زندگی پر مبنی ہے۔ یہ فلم بتاتی ہے، اپنے وطن کے لیے خواب دیکھنے والے کس طرح اس پر نچھاورہوجاتے ہیں،انہی جذبوں کی عکاسی کرتی اس فلم میں محسوس کرنے کوبہت کچھ ہے۔

ٹیلی فلم ’’اِک تھی مریم‘‘کی کہانی معروف ڈرامانگارعمیرہ احمد نے لکھی ہے،جبکہ اس کی ہدایات موجودہ دور کے مصروف اور مقبول ہدایت کار سرمدکھوسٹ نے دی ہیں۔ فلم کامرکزی کردارمعروف اداکارہ صنم بلوچ نے اداکیا،جبکہ ذیلی کرداروں میں والدین کے کردار حنا خواجہ بیات اوربہروزسبزواری نے نبھائے ہیں، مریم شہید کی زندگی سے جڑے دیگرکرداروں میں بھی اداکاروں نے اپنے صلاحیتوں کامظاہرہ کرتے ہوئے یاد کے اس کینوس پر اپنے اپنے رنگ کامیابی سے بھرے ہیں۔ فلم کی موسیقی شانی ارشد نے ترتیب دی، زیب بنگش نے اس ٹیلی فلم کا تھیم سانگ ’’پنکھ لگا کے‘‘ گایا،جس نے کئی مناظر میں ان کہی باتوں اورجذبات کے اظہار کاکام انتہائی گہرائی سے کیاہے، اس مدھر دھن کے بول معروف شاعرصابر ظفر نے تخلیق کیے،جن کی معنویت میں مریم کے خوابوں کی جھلک اور وطن کی مٹی سے لگن کی مہک اٹھتی محسوس ہوتی ہے۔

صنم بلوچ نے اپنی زندگی کی ایک یادگاراوردل کوچھولینے والی اداکاری کی ہے۔ مختصر دورانیے کی ٹیلی فلم میں کام کرنے کے باوجود جس طرح انہوں نے ایئرفورس کی ابتدائی زندگی سے لے کر مریم کی پیشہ ورانہ زندگی تک کے مناظر کو عکس بند کروایا ہے،وہ قابل تعریف ہے۔ سرمد کھوسٹ نے ٹیلی وژن کے ڈرامے کے پس منظر کو یہاں خوب استعمال کیااوران کے تجربے کی بنیاد پر اس سوانحی ٹیلی فلم کے مرکزی خیال کو جامع انداز میں بیان کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ اس ڈرامے کے دیگر فنکاروں نے بھی اپنی صلاحیتوں کاخوب خوب مظاہرہ کیا۔ اس ٹیلی فلم کی پروڈیوسرنیناکاشف ہیں، دیگر تکنیکی عملے کے اراکین نے بھی اپنے کام سے انصاف کیا۔ اردو ون چینل نے اس ٹیلی فلم کونشر کیا۔ ہم کہہ سکتے ہیں، سوانحی انداز میں مختصردورانیے کی ٹیلی فلم کے نئے عہد کاآغاز اس فلم کے ذریعے ہوچکا ہے۔

فلم کامرکزی خیال جوکہ مریم مختیار کی حقیقی زندگی سے اخذ کیاگیا،وہ کچھ یوں ہے۔ایک بچی جس کو بچپن سے ہی جہاز کی پروازمیں دلچسپی تھی،اس کے کھلونے کاغذ کے بنائے ہوئے جہاز تھے، جب وہ زمانہ طالب علمی میں پہنچی، تب بھی جہازوں کے ماڈل اس کی نگاہ کامرکز تھے، پاکستان ائیر فورس جیسے پیشہ ورانہ ادارے میں جہاں ابھی تک کوئی لڑکی فلائنگ آفیسر نہیں بنی تھی،وہاں یہ خواب دیکھنے والی لڑکی اپنی تعبیر پاناچاہتی تھی، سو وہ پاکررہی۔ تعلیم وتربیت ،ریاضت اورمشقت کے تمام مراحل سے گزر کروہ اس منصب تک جاپہنچی، دھرتی کی بیٹی کاپہنچنا خواب ہوتاہے، جو ایک دُختر وطن کی منزل ہوتی ہے۔

اس ٹیلی فلم میں کئی مناظر نمناک کردینے والے ہیں، بالخصوص جب ایک منظر میں وہ اپنی بہن کی مہندی میں ڈھولک بجانے میں مصروف ہے، تو اس کو فون پر اطلاع ملتی ہے کہ اس کے ایک ساتھی فلائنگ آفیسر کا جہاز کریش ہوگیاہے،وہ یہ سن کر روہانسی ہوجاتی ہے، اس کی والدہ کوجب یہ خبرپتہ چلتی ہے، تووہ اپنی بیٹی سے کہتی ہے’’مجھے اسی خبر سے ڈرلگتاہے،مگرمیں اس طرح کیوں سوچ رہی ہوں،مجھے نہیں سوچنا چاہیے۔‘‘مگر بیٹی ماں کو مخاطب کرکے کہتی ہے۔’’آپ کو اس طرح سوچنا چاہیے ،کیونکہ اگر جہاز کریش ہوجائے توپھر کچھ بھی ہوسکتاہے،کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔‘‘ یہ ایک جذباتی منظر ہے،جوآگے چل کراس کی اپنی زندگی میں ایک حقیقت کاروپ بھی دھارتاہے۔

یہ ٹیلی فلم ناظرین اورعوام کے لیے ایک پیغام بھی دیتی ہے، وہ پیغام یہ ہے کہ سرحدوں کی حفاظت کوئی اتنا سہل فریضہ نہیں، سرزمین پاکستان کے کتنے ہی بیٹے اوربیٹیاں جانیں ہتھیلی پر رکھے اس کی حفاظت کے لیے خود کو ہمہ وقت تیار رکھتے ہیں۔ اپنی خوشیوں پر قوم کی حفاظت کو ترجیح دیتے ہیں،کوئی غازی بن کر اورکوئی شہید ہوکر اس وطن پر نچھاورہوجاتاہے۔ ان قربانیوں کاکوئی بدل نہیں، اس لیے ہمیں ضرورت ہے، ہم ان احساسات سے بھی واقف ہوں، صرف زبانی جمع خرچ تک نہیں، بلکہ عملی طورپر بھی اس بات کے لیے تیار رہیں، کبھی ہمارے وطن پر آنچ آئے توہم بھی ان بہادروں کے ساتھ سینہ سپر ہوکردشمن کو نیست ونابود کرسکیں۔

اس ٹیلی فلم کے علاوہ بھی مریم مختیار کی زندگی پر ایک دستاویزی فلم بنائی گئی ہے، اس ٹیلی فلم اور اس دستاویزی فلم کو یوٹیوب پردیکھاجاسکتاہے۔ اس دستاویزی فلم میں مریم مختیار کے والدین کے تاثرات، مریم کی زندگی کے مختلف گوشوں سے آگاہی، اس کی حقیقی تصویریں اور تربیت کے دنوں کے یادگارلمحوں کو متحرک دیکھاجاسکتاہے، وہ مریم جس نے جام شہادت نوش کیا، مگر اس کی یادیں وطن عزیز کے بسنے والے مکینوں کے دلوں میں مقید رہیں گی۔

پاکستانی سینمامیں ٹیلی فلموں کے شعبے میں یہ ٹیلی فلم ایک گراں قدراضافہ ہے، اس طرح کی مزید فلمیں بننی چاہییں، تاکہ ہم نہ صرف اپنے شہیدوں کی قربانیوں کا اعتراف عوام الناس تک پہنچاسکیں، بلکہ اپنے بہادر غازیوں کا فخر بھی دنیا کے سامنے پیش کرسکیں۔ دنیابھر میں پروپیگنڈاسینما کی فضا میں اپنی حقیقی آوازوں کو بلند کرنا عہدحاضر کی اہم ضرورت ہے، ہمارے فنکار اس مورچے پر بھی فتح یاب ہوں گے، ہمیں اس کا یقین ہے،جس کی ایک گواہی یہ ٹیلی فلم ہے،جس کو اپنے وطن سے پیار کرنے والے ہر پاکستانی کو دیکھنی چاہیے۔