میڈیکل کا شعبہ: جدید نصاب و تحقیق کی ضرورت

لکھاری کی تصویر
عافیہ شاکر

عافیہ شاکر

میڈیکل کا شعبہ بہت توجہ چاہتا ہے۔ پاکستان میں صحت اور تعلیم بہت پیچھے ہیں۔ حکومتوں کی توجہ کبھی بھی ان شعبوں کی طرف نہیں رہی۔ عموماً صحت کا موازنہ ہسپتالوں کی حالت اور مریضوں کو ملنے والی سہولیات سے کیا جاتا ہے مگر شعبہ صحت کی اصل حالت شعبۂ میڈیکل ہے جہاں سے ایک خاص قسم کی فکر اور تربیت پیدا ہو رہی ہے جس کی طرف کسی کا دھیان نہیں۔ ہم جب ایف ایس سی کر رہے تھے تو ہمارے خواب تھے کہ ہم میڈیکل کے شعبے میں جائیں گے تو پتا نہیں دنیا ہی بدل جائے گی اور ہمیں زندگی کسی اور ڈھنگ سے بسر کرنے لگے گی مگر میڈیکل کے شعبہ میں آنے کے بعد یہاں کی حالت دیکھ کر پورے ملک میں افراتفری اور ابتری کی سمجھ آتی ہے۔

میڈیکل کے شعبے میں صحت اور تعلیم دونوں شعبے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ یہاں پڑھانے والے اور مسیحائی کی تربیت دینے اور لینے والے ایک ہو جاتے ہیں۔افسوس اس بات کا کہ کئی دہائیوں سے پڑھائے جانے والے نصابات اسی طرح ہر سال نئے طلبا و طالبات پر آزما ئے جا رہے ہیں۔ نصاب میں تبدیلی جو کلّی ہونے چاہیے بہت تھوڑی سطح کی بھی نہیں ہورہی۔ دنیا بھر میں میڈیکل میں جدید ریسرچ سامنے آ رہی ہے وہ فوری طور پر نصابات کا حصہ بن رہی ہے مگر پاکستان میں اس ضرورت کو محسوس ہی نہیں کیا جاتا۔ دوسرا اہم نکتہ پڑھائے جانے والے طریقے Methods ہیں۔طلبا و طالبات میں ابھی تک بے حد حجاب والی کیفیت ہے۔ حتیٰ کہ ٹیچرز میں بھی ایک قسم کا فاصلہ اور بلاوجہ کا پردہ ہے جس کی وجہ سے اس شعبے میں ریسرچ ڈیویلپمنٹ آگے نہیں بڑھ پاتی۔ بہت سارے طلبا و طالبات میڈیکل میں داخلہ لینے کے بعد سست اور عدم دلچسپی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اُن کا تحقیقی میدان کمزور ہو جاتا ہے۔آپ کو جتنی بھی جدید تحقیق ملے گی زیادہ تر پاکستان سے باہر کی ملے گی مگر پاکستان کے میڈیکل کے طلبا کی اُس میں شمولیت برائے نام ہی ملتی ہے۔اس کی ایک وجہ ہمارا رٹّا سسٹم بھی ہے۔ بھاری بھرکم اور دقیانوسی نصاب کو رٹّنے کی عادت ڈالی جاتی ہے اور ہاؤس جاب کے وقت سیکھنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ ہاؤس جاب میں ڈاکٹرز کچھ پوچھنے اور بتانے کے عمل سے گزرتے ہیں ورنہ میڈیکل کے چار سالہ دور میں بہت کم طلبا و طالبات ریسرچ میں دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

آپ کو حیرانی ہوگی کہ میڈیکل کے خالصتاً تحقیقی اداروں میں بھی سیاست، طلبا یونین اور اسلامی و دیگر مذہبی تبلیغ کے منظم مظاہرے ہوتے ہیں۔ اس قسم کی سرگرمیاں کسی بھی ریسرچ سے زیادہ دلچسپی اور تنظیم کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔
میڈیکل میں سب سے پہلے نصاب اور طریقۂ تدریس کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ورنہ یہی طلبا باہر کے ممالک میں زیادہ بہتر سیکھ کے آتے ہیں ۔ دوسرا طلبا و طالبات کو شعبے میں دلچسپی میں لانے کی ضرورت ہے۔ ہاؤس جاب اور پرائیویٹ پریکٹسس کے ذریعے ڈاکٹرز بننے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔
کچھ ضروتوں کی طرف بھی توجہ دلانا چاہوں گی:
۱۔ physiology اورBiochemistry شعبہ جات میں استعمال شدہ فرسودہ ٹیسٹس کو ختم کر دینا چاہیے۔
۲۔ میڈیکل کالجوں میں زیرِ تربیت آلات کو ڈیجیٹل ہونا چاہیے۔ مینوئل اورپرانے آلات سے اب جان چھڑانے کی ضرورت ہے۔تقریباً ہر میڈیکل کالج میں ایسی ہی صورتِ حال ہے۔
۳۔ میڈیکل کے شعبہ میں دلچسپی رکھنے والے افراد کو لانے کے لیے کالج کی سطح پر ہی BLS یعنیBasic life support پروگرام کروانے چاہیے تا کہ اس شعبے میں دلچسپی بڑھے اور شعور کی آگاہی ہو۔
۴۔ modular system of teaching کے نفاذ کے لیے PMDC کو سنجیدگی دکھانی ہو گی۔دنیا بھر کی جدید میڈیکل اب اسی سسٹم میں ڈھل چکی ہے پاکستان کے طلبا و طالبات کو کب تک یہ فرسودہ نظام دیا جاتا رہے گا۔
۵۔ ہاؤس جاب اور فل جاب کے دوران DPT (doctor of physiotherapy) ، DHND (doctor of Health and Nutrition Dietetics) اورAHS (allied health services) کو مل کر کام کرنے کی سہولت دی جانی چاہیے۔ اس کے علاوہ D pharmacy کو بھی میڈیکل کے طلبا اور طالبات کے ساتھ دوران تدریس تحقیق کی اجازت ہونی چاہیے تا کہ مل کر شعبۂ صحت کی حالت سنواری جائے اور باہم پیدا ہونی والی پیچیدگیوں کو سب ماہرین مل کر حل کر سکیں۔
ایک اور ایشو جس کی عوامی سطح پر کافی شنوائی ہو چکی ہے کہ جب تک اچھا پیکج اور عزت نہیں دی جاتی اچھے ڈاکٹرز میسر نہیں ہو سکتے۔اگر یہی صورتِ حال رہی تو ہسپتالوں میں ناتجربہ کار اوراناڑی ڈاکٹرز کی کھیپ آتی رہے گی اور شعبۂ صحت کو اچھا کرنے کا خواب، خواب ہی رہے گا۔

About عافیہ شاکر 7 Articles
عافیہ شاکر میڈیکل کی سالِ اول کی طالبہ ہیں۔ سائنس اور سماجیات دونوں میں دل چسپی لیتی ہیں۔ فطری اور سماجی سائنس کو میڈیکل کی تعلیم کے لیے ناگزیر سمجھتی ہیں۔ مستقبل میں سائنسی فورم بنانے کا ارادہ رکھتی ہیں اس کے لیے اچھی کتابوں کے تراجم میں بھی دلچسپی لیتی ہیں۔

2 Comments

Comments are closed.