ملالہ کا بابا:عورت کی مٹی کے کشف سے واقف مرد 

(نسیم سید)

ملالہ یوسف زئی کو ایک اور ایوارڈ (اور سرمایہ دار دنیا کا سب سے بڑا ایوارڈ) نوبل انعام ملے اب تو کافی دن ہوگئے۔ وہ برحق طور پرکئی دن تک ہر اخبار اورہر ٹی وی چینل پہ موجود رہی۔ پوری دنیا میں لوگ اپنی عقیدتیں اور محبتیں اس کے معصوم چہرے اور اس کے چٹانی عزم پر نثار کرتے رہے۔ نوبل انعام کی مستحق قرار دی جانے والی یہ گیارہ سالہ بچی گمنامی سے اچانک نکلی، زور آوروں کی جانب سے اپنے سکول کی بندش اور تعلیم کے خاتمے کے خلاف ڈٹ گئی۔ اُس نے اپنی دھرتی پہ بیٹھ کر اُس وقت استبداد کی مزاحمت کی جب امریکہ انہی استبدادیوں کا روزی رساں تھا۔ سر پہ گولی کھائی اور شریف و نجیب انسانوں کی بروقت مدد سے موت کے عمیق کھڈ سے زندہ نکل آئی اور پھر سے تعلیم اورعلم کے حق میں سینہ سپر ہوگئی۔ یوں وہ تین چاربرس کے اندر اندر انسانیت کاافتخار بن گئی۔

پاکستان میں دانش وروں کی اکثریت کی طرف سے حسبِ معمول انتہائی منفی رد عمل ہوا۔ وہی جو اُس سے قبل کے نوبل انعام والے ڈاکٹر عبدالسلام کے ساتھ ہوا تھا۔ منفی، متجسس اور مسترد کئے جانے والا انداز۔ پتہ نہیں کیا نفسیاتی معاملہ ہے کہ دریائے سندھ کے بائیں کنارے کے اُس پار لوگ اپنے افتخار کو ہمیشہ اپنی شرمندگی بنا کر سینہ پھلاتے رہتے ہیں۔ اور شرمندگی کو افتخار سمجھ اور کہہ کر گھومتے پھرتے ہیں۔ یہ تو حتمی بات ہے کہ مستقبل بعید تک یہاں کا فاشسٹ بنیاد پرست مڈل کلاس جس کسی کو بھی نوبل کے ساتھ دیکھے گا اُس کے ساتھ وہی سلوک کرے گا جو اس نے ڈاکٹر عبدالسلام کے ساتھ کیا یا ملالہ کے ساتھ کررہا ہے۔ دیمک زدگی کی سب سے بڑی نشانی یہ تھی کہ اُن کا سب سے بڑا اعتراض تھا کہ وہ امریکی ایجنٹ ہے، اور امریکہ نے اپنے ایجنٹ کو یہ اعزاز دیا ۔غضب خدا کا، ایک گیارہ سال کی بچی دنیا کے تاریک گوشے میں اپنا سکول بند ہونے اور اپنی تعلیم ختم ہونے پہ احتجاج کرتی ہے تو وہ بھلا امریکہ کی ایجنٹ کیسے بن گئی۔

اُس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ الزام وہ لوگ لگاتے رہے ہیں جن کی فکری روٹی روزی کا ذرہ ذرہ سامراج سے آتا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ جب اُسے گولی لگی تھی تب یہ لوگ کہتے تھے مکاری ہے، ٹھگی ہے، پراپیگنڈہ ہے اس طرح کی لڑکی کا کوئی نام نشان تک سوات میں نہیں ہے۔ ہمیں حیرت نہ ہوئی کہ نصف صدی قبل چاند پر انسان کے اترنے کو تو آج تک ،جھوٹ سمجھا جاتا ہے۔ ارے بابا! ملالہ تو وہیں گولی کھا کرہیومن انٹرسٹ کی سٹوری بن گئی۔ پھر اُس کا علاج ہوا۔ اب بگڑے چہرے کے ساتھ بھی وہ اُسے اپنے اعتراضات کی بوچھاڑ میں رکھتے ہیں۔ اور اب جب اُسے ایوارڈ ملا تو یہی لوگ صدمہ سے دو چار ہیں۔ نہ نیند، نہ ہوش۔ شہرت ملی طالبان کے سبب اور بہتان امریکہ پر (یہ الگ بات ہے کہ یہ دونوں محمود و ایاز ایک ہی ہیں)۔

بلاشبہ ملالہ اب بھی اپنے وطن آئے گی تو وہ اُسے ماردیں گے۔پھر یہ بحث چل پڑی کہ فلاں کو ملنا چاہے تھا اُسے کیوں نہ ملا۔ ایدھی صاحب کو، ادیب رضوی کو، اِس کو، اُس کو۔بلاشبہ، کون اِن بڑے انسانوں کی خدمات کو کم کرسکتا ہے۔ درجنوں نوبل انعام اِن کے قدموں پہ۔ اِن کی محض ایک دن کی خدمات ہزاروں دکھیوں کا مداوا ہوتی ہیں۔ اسی طرح اگر بہادری کی بات ہے تو یہاں ہزاروں لاکھوں دلیر لڑکیاں موجود ہیں۔ اسی طرح، یہاں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کوشاں لوگ بھی بے شمار ہیں۔ طالبا ن سے خوفزدہ نہ ہونے اور اپنے وجود کو خطرے میں ڈالنے والے بھی بہت ہیں۔ اسی طرح یہ بھی سچ ہے کہ بے شمار بلوچ خواتین ہیں جوسو فیصد خواندگی والے سماج کے قیام کی جدوجہد میں رونگٹے کھڑی کردینے والی قربانیاں دے دے کر اِس ایوارڈ کی حقدار ہیں۔

اگر غور کیا جائے تو پاکستان کی ساری صوبائی دارالحکومتیں وہ شہر ہیں جن کی اپنی آبائی اصلی آبادی اب اقلیت میں ہے۔ واضح اکثریت باہر دیہی علاقوں سے یہاں آنے والوں کی ہے اور باہر سے آنے والوں کی واضح اکثریت اُن لوگوں کی ہے جو اپنی اولاد، بالخصوص اپنی بچیوں کو تعلیم دینے اپنے گھر بار چھوڑ کر شہرکو کو چ کرچکے ہیں۔

پاکستان میں شہروں کی طرف ہجرت کی ایک بہت بڑی وجہ تعلیم اور بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم  ہے۔ ملالہ اِن سارے مہاجرتی مسافروں کی ساتھی ہے۔ جن کو بھی معیارات میں تول کر اُسے نوبل ملا، اصل بات یہ ہے کہ یہ نوبل ہے تو اُن سارے انسانوں کے لئے جو حق اور انصاف کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ جو ظلمت کو پرے” چخ“ کرتے ہیں۔ جو روشنی، بینائی اور بصیرت کو پچکارنے میں زندگی تجے بیٹھے ہیں۔ ملالہ بڑے کینوس میں اِنہی کی ساتھی توہے۔ یہ نوبیل انعام تعلیم دشمنی، ملا شاہی، رجعت و فاشزم کی پشت پناہ قوتوں کے خلاف، ڈٹ جانے پر ملا۔ اورمندرجہ بالا ساری باتیں حق و انصاف کے لئے برسرِ پیکار، سارے انسانوں کا مشترک محاذ ہیں۔ اس لیے دوسری ہستیاں خود اُس کی حقدار ہوتی ہوئی بھی اپنی اِس ہمسفر کے لیے خیر مقدمی اورنیک تمناﺅں کا اظہارکرتی رہی ہیں۔
اس نوبیل انعام کومظلوموں ،مجبوروں اور ضعیفوں کے حقوق اور انصاف کے سماج کے قیام لئے جدوجہد کرنے والے سارے انسانوں کی پوری تحریک کا انعام سمجھتی ہیں۔ اور یہ تحریک تو صدیوں سے جاری ہے اور صدیوں تک ہر کونے اور ہر ملک میں جاری رہے گی اور مشترک انسانی آدرشوں پہ یہ انعام ملتے ہی رہیں گے۔ جو کچھ بھی ہو، اب تو اُسے انعام مل گیا۔ اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ اُسے دوبارہ قتل کرنے کے لئے چھریاں تیز کرنے کی ضرورت نہیں اس لئے کہ اُس نے آنا ہی نہیں۔ ملالہ کے حوالے سے دنیا بھر میں خوب باتیں ہوئیں مگر دلوں، ضمیروں کے اندر اندر ایک بے چینی محسوس ہوتی رہتی ہے۔

اتنا بڑا واقعہ ہوا مگر کسی خبر میں، کسی تحریر میں کسی ذکر میں ضیاءالدین کا تذکرہ اُس زور شور سے موجود نہیں ہے جس کے  وہ حق دار ہیں۔ ملالہ کے والد ضیا الدین۔ ملالہ اپنے باپ  ضیاءالدین کے عزم، اس کی سوچ، اوراس کی فنکاری کا حسین تاج محل ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہماری سوچیں روزانہ اُس عظیم معمار کو خراج عقیدت پیش کریں جو عورت کی مٹی کے کشف سے واقف تھا۔ جس نے اس مٹی کو قبر کے اندھیروں سے نہیں بلکہ اس کو اقرا کے نم میں سینچا۔ اُس نے اُس کے وجود کو اُس کے اپنے الہام سے تراشا۔ مردہ رسوم کے تابوت میں حنوط نہیں کیا۔ جاہل روایات کی اونچی اونچی دیواریں اُس نے اپنے اور ماضی کے بیچ چن دیں تو چن دیں مگر اُس کا اپنے آپ سے وعدہ تھا کہ وہ اپنے عزم سے، اپنے خواب سے شرمندہ نہیں ہوگا۔ شاید اس کا خواب تھا کہ ہم اپنی بچیوں کے وجود کو پنجروں سے نکال کے کھلی فضائیں دیں تو وہ ستاروں پر کمند ڈال سکتی ہیں۔

سو وہ ننھی سی ملالہ کی کچی مٹی کی لوئی کو بڑی محنت اور بہت چاہت سے اپنے چاک پر ڈھالتا رہا۔ ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے اُس آوے میں پکاتا رہا جو اُس کے اپنے اندر بھڑک رہا تھا۔ منحوس روایات کو جلا کے خاک کردینے والا آوا۔ ضیاءالدین ملالہ کو ملالہ کا وجدان عطا کرنے والا وہ عظیم باپ ہے جو ہمارے معاشرے کے لیے مثال ہے۔ اس نے ثابت کردیا کہ اپنے وجود سے شرمندہ بچیوں کے سر پہ اگر ضیاالدین جیسے باپ کا ہاتھ ہو تو وہ ملالہ بن جاتی ہیں۔ لفظ باپ کو اس کے اصل معنی عطا کرنے والے عظیم ضیاءالدین! سماج کو تیری بہت ضرورت ہے۔