محبت اور مسلم عورت

مصنف کی تصویر
ذوالفقار علی

 

(ذوالفقار علی)

مُسلم معاشرے میں بالخصوص اور غیر مُسلم معاشرے میں بالعموم عورتوں کے کردار کا تعین مردوں کے تفویض کردہ اصولوں کے تابع رہا ہے۔ مردوں نے اپنے الگ الگ مفادات کی تکمیل کیلئے عورتوں کے استحصال کی خاطر غیر فطری اورغیر منطقی طرز عمل اور اصول لاگو کئے۔ کبھی مذہب کے نام پر اُن کے کردار کو محدود کیا گیا، کبھی اپنی ذات کی کمیوں کوتسکین پہنچانے کیلئے اُسے اپنے تابع کرنے کی سعی کی گئی۔ کبھی نام نہاد غیرت کے نام پر اُن کا قتل کیا گیا۔ کبھی اپنی عیاشی کیلئے بازار کی زینت بنایا گیا۔ توکبھی منافع اور کاروبار کی ترویج کیلئے اس کا استعمال کیا گیا۔

رسم ورواج اور مردوں کے ذاتی مفادات و اجارہ داری کی قید میں جکڑی عورت مُسلم سماج کے ارتقا میں اپنا کردار آزادی سے ادا نہیں کر سکی۔ جس کی وجہ سے سماجی گُھٹن اور جبر کی مختلف شکلوں نے پورے مُسلم سماج کو اپنی لپیٹ میں لے آن لیا۔ بڑی تیزی سے مُسلم معاشرہ تہذیبی و ثقافتی طور پر پسماندگی وتنزلی کا شکار ہوتا گیا۔ اس بگاڑ کا منفی اثر مردوں کی عام زندگی پر بھی بہت بُری طرح پڑا، کیونکہ جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو غُلام رکھنے کی کوشش کرتا ہے تو اُس کی اپنی آزادی بھی سلب ہو رہی ہوتی ہے اور وہ خود بھی با عزت اور پُروقار زندگی گُزارنے سے محروم ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے اگر ہم اپنے معاشرے کا بغور جائزہ لیں تو اس میں اکثر مردوں کا کردار ایک چوکیدار کی طرح کا ہے۔ اپنی اپنی عورتوں کی چوکیداری کرنا ہمارا فرض منصبی بن چُکا ہے۔ جس کے اثرات ہماری اجتماعی سوچ اور رویوں پر بہت گہرائی سے نفوذ پزیر ہو چُکے ہیں۔

کُھلا پن، برداشت، عدم تشدد، تخلیق اور دلیل کے عناصر سے ہماری ذات خالی ہو چُکی ہے۔ جس کے باعث شدت پسند رویے، تنگ نظری، بےجا شک اور لا اُبالی پن ہمارے معاشرے کے اہم جُزو پن چُکے ہیں۔ اس تناظر میں عورت کے نفسیاتی پہلو کا جائزہ لیا جائے تو عمومی طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے کہ عورت محبت کرنے کے فطری جذبے کی خصوصیت سے بھی محروم ہوتی جا رہی ہے۔ کیونکہ طویل غلامی اور استحصال کی وجہ سے عورت تکمیل محبت میں شدید تذبذب کا شکار نظر آتی ہے۔ اُس کے لا شعور میں عدم تحفظ کا احساس وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔جس کی وجہ سے ملکیتی احساس، انا پرستی،انتقامی جذبہ، طویل منصوبہ بندی اور گیم پلان کے عناصر بدرجہ اُتم عورت کی نفسیات اور ذات میں دخیل ہو چُکے ہیں۔

یاداشتوں کی تلخی میں لپٹے احساسات اُس کی محبت کی صلاحیت کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں جس کا خمیازہ مرد اور عورت دونوں کو بُھگتنا پڑ رہا ہے۔ اسی لئے مُسلم معاشرے میں محبت کی شادیاں اکثر ناکامی سے دوچار ہوتی ہیں۔ وقت گُزرنے کے ساتھ ساتھ ایسی شادیوں میں ایک دوسرے پر بدل جانے کے الزامات عام سی بات سمجھے جاتے ہیں۔ اگر اس بگاڑ پر قابو پانا ہے تو ہمیں ایک دوسرے کا احترام کرنا ہو گا اور جائز سپیس دینا ہوگی، فطری حق اور آزادیوں کو تسلیم کرنا اور برابری کی بُنیاد پر حقوق بانٹنا ہونگے۔ ورنہ ہماری آنے والی نسلیں پائیدار ترقی، روحانی تسکین اور حقیقی شخصی آزادی حاصل کرنے میں ناکامی کے ساتھ ساتھ محبت جیسے عظیم اور فطری جذبے سے بھی عاری ہو جائیں گی۔

About ذوالفقار زلفی 63 Articles
ذوالفقار علی نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا ہے۔ آج کل کچھ این جی اوز کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ایکو کنزرویشن پر چھوٹے چھوٹے خاکے لکھتےہیں اور ان کو کبھی کبھار عام لوگوں کے سامنے پرفارم بھی کرتے ہیں۔ اپنی ماں بولی میں شاعری بھی کرتے ہیں، مگر مشاعروں میں پڑھنے سے کتراتے ہیں۔ اس کے علاوہ دریا سے باتیں کرنا، فوک کہانیوں کو اکٹھا کرنا اور فوک دانش پہ مبنی تجربات کو اجاگر کرنا ان کے پسندیدہ کاموں میں سے ہے۔ ذمہ داریوں کے نام پہ اپنی آزادی کو کسی قیمت پر نہیں کھونا چاہتے۔