فلاحی ریاست کا تصور اور سی پیک کا منصوبہ

فلاحی ریاست

(حُر ثقلین)

پاکستان کو معر ضِ وجود میں آئے 70 سال بیت چکے ہیں۔ کسی بھی قوم کو اپنی متعین کردہ منزل تک پہنچنے کے لیے یہ عرصہ کافی ہوتا ہے۔ کوئی بھی ذمہ دار اور پرعزم قوم اتنے عرصے میں باآسانی اپنے مقرر کردہ اہداف کو حاصل کر لیتی ہے۔ چین،جنوبی کوریا اور جاپان اس کی مثال ہیں۔ مگر بدقسمتی سے پاکستانی قوم اب تک اپنی منزل سے بہت دور ہے۔قیام پاکستان کا مقصد ایک اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ یہ قوم پر عزم بھی تھی اور ذمہ دار بھی مگر جو رہبر اسے میسر آئے انہوں اس قوم کو مایوسی کے سوا کچھ بھی نہ دیا۔

اس ملک پر بنیادی طور پر فوجی اورسول دو طبقات نےحکومت کی۔ فوج کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔سول طرزِ حکمرانی میں پیپلز پارٹی نے انقلاب کا نعرہ بلند کیا مگراب وہ بھی اپنے مشن سے کوسوں دور ہے۔مسلم لیگ ن کا موجودہ حکمران خاندان پنجاب اور مرکز میں ایک طویل عرصہ سے برسرِ اقتدار ہے ان کا تعلق سرمایہ دار اور صنعت کار طبقے سے ہے۔فلاحی ریاست درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام ہی کی پیداوار ہے۔فلاحی ریاست میں مڈل کلاس اکثریت میں ہوتی ہے اور یہی کلاس خوش حال بھی ہوتی ہے۔غربت کا نام و نشان تک نہیں ہوتا ہے۔

سرمایہ دار کا اصل ہدف بھی مڈل کلاس ہوتی ہے یہ کلاس جس قدر بڑی ہوگی سرمایہ دار اور صنعت کار کی مصنوعات کی مانگ بھی اسی قدر زیادہ ہو گی۔ مگر پاکستان میں یہ تصور الٹ ہے۔یہاں کا سرمایہ دار اور صنعت کار مڈل کلاس پر توجہ نہیں دے رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سرمایہ دار حکمران طبقہ اس ملک کو فلاحی ریاست بنانے میں ناکام ہے۔ آج کی جدید دنیا میں فلاحی ریاست کا تصور کوئی اجنبی تصور نہیں ہے۔

ہمارے حکمرانوں کے بیرونی دنیا میں کاروبار بھی ہیں اورگھر بھی ہیں۔ارکان پارلیمنٹ بیرونی دوروں پر بھی جاتے رہتے ہیں۔یہ دنیا بھر کے نظاموں کو مطالعہ بھی کرتے ہیں۔موجودہ دور میں بہت آسانیاں ہیں جو نظام کامیاب ہے اسے اپنے ہاں نافذ کیا جا سکتا ہے۔اب خود تجربات کی ضرورت نہیں بلکہ دوسروں کے تجربات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔مگرپاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہو رہا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستانی سرمایہ دار اپنے ملک سے مخلص نہیں ہے یا اس کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔

کیا وہ یہاں کے وسائل کو سرمائے میں تبدیل کر کے بیرونی دنیا منتقل کر رہا ہے۔پانامہ سکینڈل نے ایسے سولات کا جواب بھی تلاش کیا ہے۔جو حکمران کل تک اپنی جائیدادیں بیرونِ ملک تسلیم نہیں کرتے تھے آج وہ یہ سب کچھ مان چکے ہیں۔ پاکستان میں سرمایہ دار طبقہ شہری حلقوں سے انتخاب باآسانی جیت کر اسمبلیوں میں آتا ہے۔موجودہ حکمران خاندان کی انتخابی سیاست کا محور بھی شہری حلقے رہے ہیں ۔دیہی حلقوں میں ان کا اثر نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اسی لیے انہیں وہاں کے زمیندار طبقے کو ان کی شرائط پر ساتھ ملانا پڑتا ہے۔

اب ان حکمرانوں نے دیہی حلقوں میں بھی اپنا براہِ راست اثر قائم کرنے کے لیے وہاں ملیں ،فیکٹریاں اور کارخانے لگانے شروع کر دیے ہیں۔عدالت کے ایک فیصلے نے بھی یہ بات ثابت کی ہے کہ حکمران کس طرح قوانین کو بالائے طاق رکھ کر اپنی ملیں قائم کرنے میں مصروف ہیں۔ اپنے ان کاروباری یونٹس تک باآسانی رسائی کے لیے ملکی وسائل سے موٹر ویز بنائی جا رہی ہیں۔ پنجاب میں سی پیک کا روٹ اسی مقصد کو مدِنظر رکھ کر ترتیب دیا گیا ہے۔اس پراجیکٹ کا عوام کو کوئی براہ راست فائدہ حاصل نہیں ہے۔ چینی کمپنیاں مزدور بھی چین سے لاکر یہاں آباد کر رہی ہیں۔

سی پیک پر سب سے زیادہ استفادہ چینی ہی حاصل کر رہے ہیں۔جو منصوبہ ایک عام پاکستانی مزدور کو روزگار بھی نہ دے سکے وہ آگے چل کر کس طرح اس ملک کے غریب عوام کے لیے مفید ہو سکتا ہے۔اتنے بڑے منصوبے کا فائدہ صرف اور صرف سرمایہ دار اور صنعت کار کو ہی حاصل ہو گا۔ کیا یہ سی پیک اور موٹر ویز فلاحی ریاست کے قیام میں معاون ثابت ہوں گی؟ ہرگز نہیں۔جو سرمایہ اپنے ذاتی مفادات کے لیے ان منصوبوں پر صرف کیا جا رہا ہے اگر وہ ہی تعلیم پر خرچ کیا جائے تو بہت جلد ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔

حکمران موٹر ویز اور پل دیکھا کر ووٹ لینا چاہتے ہیں مگر ملک میں تعلیم ،صحت کی سہولیات اور پینے کا صاف پانی نایاب ہیں۔غربت اور جہالت اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔انصاف کی فراہمی کا یہ حال ہے کہ عدالت جن کو بے گناہ قرار دے کر رہا کرنے کا حکم دے رہی ہے وہ کئی برس قبل یا تو پھانسی پر لٹک گئے یا جیلوں میں ہی مر گئے۔
نسلی،طبقاتی اور صنفی امتیازات کو ختم کر نے سے ہی فلاحی ریاست کی تشکیل ممکن ہے۔ایسا صرف اسی صورت میں ہی ہو سکتا ہے جب ملک بھر میں ہر بچے کو تعلیم کے مواقع میسر ہوں۔تعلیم ہی شعور اجاگر کرتی ہے۔سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔یہاں کا سرمایہ دار بخوبی جانتا ہے کہ اگر عوام میں شعور بیدار ہوگیا تو وہ اس ملک کے وسائل کو باہر منتقل نہیں کر پائے گا۔یہاں کے لوگ اپنے ملک کے وسائل کو ادھر ہی خرچ کرنے پر زور دیں گے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمران طبقہ اپنی سوچ اور روش کو تبدیل کرے جس ملک نے انہیں مال دار بنایا ہے اس کا قرض بھی ضرور اتاریں۔ وہ ملک میں ایسے منصوبے بھی شروع کریں جس سے غربت کا خاتمہ ہو۔لوگ جس قدر خوشحال ہوں گے ان کا کاروبار بھی اسی قدر یہاں چمکے گا۔بات صرف اپنی مٹی سے مخلص ہونے کی ہے۔ فیصلہ آپ نے کرنا ہے فلاحی ریاست میں آپ بھی محفوظ ہوں گے اور لوگ بھی خوشحال ہوں گے ۔بدحال معاشرے میں ایک دن سب کچھ راکھ ہوجائے گا۔