بس رونق لگ جائے گی

ایک روزن لکھاری
نصرت جاوید، صاحب مضمون

بس رونق لگ جائے گی

نصرت جاوید

عائشہ گلالئی چاہے جتنی بھی پریس کانفرنسیں کرے یا ٹی وی انٹرویوز دے لے، عمران خان کی اندھی محبت میں مبتلا خواتین وحضرات کے ذہن نہیں بدلیں گے۔ ”کپتان“ ان کی نظر میں تبدیلی کی علامت اور ملک میں کرپشن کے خاتمے پر ڈٹا ہیرو رہے گا۔ عائشہ احد کا تحریک انصاف کی ڈاکٹرفردوس عاشق اعوان اور ڈاکٹر یاسمین راشد کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کے ذریعے حمزہ شہباز شریف کے خلاف ایک طویل وقفے کے بعد دوبارہ آواز بلند کرنا بھی نواز شریف کی سیاست کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔

ان خواتین کا شاید بہت ہی جائز بنیادوں پر رونا دھونا مگر ٹی وی سکرینوں پر رونق لگائے رکھے گا۔ پارسائی کا ڈھونگ رچائے ”حق گو“ خواتین وحضرات ان کی بتائی کہانیوں کو دہراتے ہوئے انتہائی منافقانہ انداز میں ”عورتوں کے حقوق“ کے چمپئن بنے رہیں گے۔ غیر جانب دارانہ تفتیش کے بعد ان خواتین کو ”انصاف“ فراہم کرنے کے مطالبے ہوں گے۔

دریں اثناء ہمارے معاشرے کے تقریباً ہر دوسرے گھر میں ”غیرت مند“ مرد اپنی بہنوں،بیٹیوں اور بیویوں کے ساتھ وہی سلوک جاری رکھیں گے جس کے وہ جبلی طورپر عادی بنائے گئے ہیں۔ پاکستان مسلسل ان ممالک میں سرِ فہرست رہے گا جہاں انٹرنیٹ کے ذریعے فحش مواد کو تلاش کرکے دلوں میں چھپائی ”شیطانی خواہشات“ کی تسکین کے سامان فراہم کئے جاتے ہیں۔ ہمارے عوام کی اکثریت کے ذہنوں میں یہ خیال مزید پختہ ہوگا کہ ان کے ووٹ کی قوت سے طاقت ور ہوئے سیاستدان اپنی سرشت میں اس دور کے ”محمد شاہ رنگیلے“ہیں۔

اودھ کے واجد علی شاہ پیا ہیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ ہیں جس کی ایک ”ناچ بریگیڈ“ بھی ہوا کرتی تھی۔ اسی لیے تو انگریزوں کی لائی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ان سے ہماری جان چھڑائی۔ 1857ء کے ”غدر“ پر قابو پانے کے بعد ”بندوبستِ دوامی“ کو متعارف کروایا۔ ایک منظم پولیس کو تشکیل دیا۔ سخت گیر مگر منصفانہ ذہن والے ڈپٹی کمشنر ایجاد کئے۔ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ہائی کورٹ وغیرہ بنائیں۔

ربّ کریم کے فضل سے آزاد ہوئے پاکستان کو اپنے قیام کے 70سال بعد لیکن اب کسی ایسٹ انڈیا کمپنی یا وائسرائے کی ضرورت نہیں۔ ہماری ریاست کے چند دائمی ادارے ہیں۔ ہماری خوش نصیبی کہ ان اداروں کے نمائندوں پر مشتمل کوئی جے آئی ٹی بنے تو صرف 60 دنوں کے اندر ایسا مواد جمع کر لیتی ہے جو پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کو جس کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا کوئی فورم نہیں ہے، پاکستان کے تیسری بار منتخب ہوئے وزیراعظم کو ”نااہل“ قرار دینے کا اہل بنادیتی ہے۔

گزشتہ تیس سال سے ہمارے سیاسی منظر نامے پر چھائے شریف خاندان کی تین نسلوں کو ”ٹیکس چور“ ثابت کردیتی ہے۔ مبینہ طورپر ٹیکس چوری اور ریاستی اقتدار کی بدولت جمع ہوئی ”حرام“ رقوم بیرونی ممالک میں قیمتی جائیدادیں خریدنے کے لیے استعمال ہوئی ہیں۔ اب ان جائیدادوں کا حساب ہوگا۔ نواز شریف اپنے بچوں سمیت بالآخر جیلوں میں محبوس ہوئے پائے جائیں گے۔

دُکھ میرا اگرچہ صرف اتنا ہے کہ یہ سب کچھ ہوجانے کے بعد بھی ہماری ریاست ،عدلیہ کی ”تاریخ ساز“ مداخلت اور معاونت کے ہوتے ہوئے بھی ”قوم کی لوٹی ہوئی دولت“ کو اپنے خزانے میں واپس نہیں لاپائے گی۔ ہم اپنے ذمے ٹیکس ادا کئے بغیر ہی اپنی ریاست سے بغیر کسی لوڈشیڈنگ کے سستی بجلی مہیا کرنے کی توقع برقرار رکھیں گے۔

ہمارے بچوں کی تعلیم کے لیے آکسفورڈ اور ہارورڈ جیسے ادارے بنانا بھی ریاست ہی کی ذمہ داری رہے گی جسے جدید ترین سہولتوں والے ہسپتال بنانا ہیں لوگوں کو وافر اور مناسب روزگار مہیا کرنے کے منصوبے بھی سوچنا ہیں چونکہ ہم نے ٹیکس نہیں دینا اور ”قوم کی لوٹی ہوئی“ دولت نے ریاستی خزانے میں واپس بھی نہیں آنا، اس لیے ہماری ہر حکومت خواہ وہ صاف ستھرے، ذہین ترین اور نیک پاک ٹیکنوکریٹس پر ہی مشتمل کیوں نہ ہو خسارے کے بجٹ بناتی رہے گی۔ ورلڈ بینک اور IMF سے مقامی وسائل سے جمع کی ہوئی رقوم اور ریاستی خرچ کے مابین خوفناک تفاوت والے خسارے کو پورا کرنے کے لیے رجوع کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔

نام نہاد عالمی برادری کے بنائے ورلڈ بینک اور IMF مگر خیراتی ادارے نہیں ہیں۔ ان سے قرضہ یا امداد حاصل کرنے کے لیے چند کڑی شرائط کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ایوب خان،جنرل ضیاءاور جنرل مشرف کے ادوار میں معاشی محاذ پر اگر رونق لگی نظر آئی تو وجہ اس کی صرف یہ تھی کہ ہماری ریاست نے سردجنگ کے دوران امریکی کیمپ کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ 1979 مین جب کمیونسٹ روس افغانستان پر قابض ہوا تو ہم نے ”جہاد“ کا بیڑا اٹھایا۔ نائن الیون ہوا تو ہم نے اسی ”جہاد“ سے نبردآزما ہونے کے لیے صدر بش کی مسلط کردہ War on Terror کی بھرپور معاونت کا فیصلہ کیا۔

واشنگٹن میں ان دنوں ٹرمپ کے وائٹ ہاﺅس پہنچ جانے کے بعد ایک بار پھر افغانستان کے بہت چرچے ہیں۔ امریکی صدر اپنے جرنیلوں سے سخت ناراض ہے۔ افغانستان پر پالیسی سازی کے لیے ہوئے اجلاسوں میں ان پرچیختا ہے۔ بارہا سوال کرتا ہے کہ کھربوں ڈالر کے زیاں کے بعد بھی 16سال سے جاری جنگ نے اپنے اہداف کیوں حاصل نہ کئے۔ افغانستان کی معدنیات سے فائدہ چین کیوں اٹھارہا ہے۔

اپنے پیشرو صدور کی طرح ٹرمپ نے بھی افغانستان کی جنگ کو ہر صورت جیتنے کا ذہن بنالیا ہے۔ اس کے بہت چاﺅ سے لائے جنرل Mattis کا اصرار ہے کہ افغانستان کی جنگ جیتنے میں امریکہ کی مسلسل ناکامی کی وجوہات ”مقامی“ نہیں۔ اس کا ”علاقائی“ حل ڈھونڈنا ہوگا۔لفظِ ”علاقائی“ درحقیقت افغانستان کے اہم ترین ہمسائے،پاکستان، کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ امریکی جرنیل اور سفارت کار بہت تواتر سے حالیہ دنوں میں راولپنڈی اور اسلام آباد کے چکر لگارہے ہیں۔ ”حقانی نیٹ ورک“ کا تذکرہ ہے۔ سنا ہے کوئی ”کوئٹہ شوریٰ“ بھی ہے۔ کہاجارہا ہے کہ ان دونوں کا قلع قمع کرنے کے لیے پاکستان “Do More” کرے۔ اس Do More کی ”جائز“ قیمت وصول کرے ورنہ….
اس ”ورنہ“ کا ذکر عائشہ گلالئی اور عائشہ احد کی دُکھ بھری داستانوں سے پریشان ہوئے ہمارے عقل کل اینکرخواتین وحضرات کے بھاشنوں میں سننے کو نہیں ملتا۔

بین الاقوامی امور پر ان کا سارا علم ”اقامہ“ کی تفصیلات بیان کرنے تک محدود ہوچکا ہے۔ حوصلہ ہمیں یہ بھی دیا جارہا ہے کہ امریکہ اور اس کی افغانستان میں مشکلات گئیں بھاڑ میں ۔چین اپنایار ہے،اس پہ جان بھی نثار ہے۔ CPEC کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ اس کی بدولت 56 ارب ڈالر پاکستان میں خرچ ہوں گے رونق لگ جائے گی۔ اس رونق کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ان سیاستدانوں کو فارغ کرکے عبرت کا نشان بنادیا جائے جو ٹیکس کی ایک پائی بھی نہیں دیتے۔ اپنے اختیارات کا جائز فائدہ اٹھاتے ہوئے”حرام کی دولت‘ کے انبار لگائے چلے جاتے ہیں۔ اس دولت کو کسی نہ کسی طریقے سے بیرون ملک بھیج کر قیمتی جائیدادیں خریدلیتے ہیں۔ عورتوں کے ساتھ ”محمد شاہ رنگیلے“ہوجاتے ہیں۔ان سے نجات پالیں تو دوسرے مسائل پر بھی توجہ دیں۔