عمران خان صاحب! اب تو بالغ ہو جائیں

ملک تنویر احمد، Malik Tanvir Ahmed
ملک تنویر احمد، صاحبِ مضمون

عمران خان صاحب! اب تو بالغ ہو جائیں
(ملک تنویر احمد)
واہ۔۔کیا خوشخبری ہے جس کے لئے قوم کی سماعتیں مدتوں سے ترس رہی تھیں۔ اس نوید صبح کے انتظار میں بیس کروڑ مرد و زن عشروں سے اپنی نگاہیں جمائے ہوئے تھے۔ اس مژدہ جانفزا نے بد حال اور نڈھال جسموں میں گویا زندگی کی نئی لہر دوڑا دی ہو۔ اس باد صبا نے مدقوق چہروں پر زندگی کی مسکراہٹیں بکھیر دی ہوں۔ غربت، عسرت، ناداری اور افلاس کا تختہ مشق بنے بدن اس خوشخبر ی سے خوشحالی و امارت کی ترنگ سے جھومنے لگے ہوں۔ یہ خوشخبری جس کا قوم کو مدت سے انتظار تھا جناب عمران خان کے لبوں سے پھسل کر چار دانگ عالم اپنے خوشبو بکھیرتی پھر رہی ہے۔یہ خوشخبری خان صاحب جیسی مہان شخصیت پر ہی جچتی تھی کہ وہ قوم کے ہر فرد کو اس سے آگاہ کرتے ۔ خان صاحب نے بری فوج کے سپہ سالار سے ملاقات کے بعد یک سطری تبصرے میں اپنی ملاقات کو کوزے میں بند کر کے قوم کے گوش گزار کیا،’’جگر تھام لو۔ دل کی دھڑکنوں کو قابو میں کر لو۔ سانسیں روک لو ۔ سماعتوں کو ایک جگہ لگا لو۔ ذہن کو یکسو کر لو کہ اسے یہ عظیم خوشخبری مبارک ہو کہ سپہ سالار صاحب پاکستان میں جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں‘‘۔ خان صاحب کے بقول اس خوشخبری کے بعد جمہوریت کو لاحق تمام خطرات تحلیل ہو چکے ہیں۔اب راوی چین کی بانسری بجائے گا جس پر قوم محو رقص ہو کر اس خوشخبری پر ان مہان شخصیت کو خراج تحسین پیش کر ے گی جس نے قوم کی ٹوٹتی ہوئی امیدوں میں نئے رنگ بھر دیے ہیں۔اگر خان صاحب کی ’’خان اعظم‘‘ سے ملاقات کا خلاصہ فقط یہی خوشخبری ہی قوم کی سماعتوں کے پار گزارنا تھی تو پھر قوم کو مبارک ہو کہ جمہوریت سے وابستہ ان کی تمام امیدیں اور تمنائیں جلد ہی ثمر آور ہونے والی ہیں۔عمران خان اس ملک کی سیاست میں ایک تبدیلی کا نام تھے۔یہ تبدیلی اس جمہوری کلچر کے خلاف تھی جس میں بقول خان صاحب اور ان کے حواریوں کے بد عنوانی، لوٹ کھسوٹ اور اقرباپروری کی آلائشیں جا بجا اسے شرمسار و بدبد نام کر رہی ہیں۔ خان صاحب اس تبدیلی کے داعی بن کر ابھرے تو ملک کے ایک بڑے طبقے نے انہیں اپنی امیدوں اور امنگوں کو محور و مرکز بنا ڈالا۔ اب تک ان کا جمہوری کردار کیا رہا اس سے قطع نظر موضوع کو ان کی افواج کے سپہ سالار کی ملاقات تک ہی محدود رکھتے ہیں۔عمران تبدیلی کا نام ہے۔ یہ ماضی کے ان بد بودار اور تلخ نقوش کو فکر نو اور عظمت کردار سے دھونے والی تبدیلی کا نام تھا جس میں جمہوریت کی ضمانت عسکری اداروں سے لینے کی روش کو بد لنا تھا۔ خان صاحب کو اس جمہوریت کے فروغ کے لئے کام کرنا تھا جس میں جمہوریت کی بقا کی ضامن وہ بیس کروڑ عوام سمجھتے ہیں جن کا حق رائے دہی حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ کا واحد آپشن ہے۔عوام نامی ڈھال ہی جمہوریت کی ضمانت ہوتی ہے جسے بد قسمتی سے ماضی میں کبھی بھی در خور اعتناء نہیں سمجھا گیا۔ماضی میں افواج پاکستان سے جمہوریت کی ضمانتیں لینے کی روش نے کیا ظلم ڈھایا وہ ان چار مارشل لاؤں سے واضح ہے جو ہمارے حرماں نصیب تاریخ کا تاریک باب ہیں۔خان صاحب جمہوریت پر یقین رکھتے ہے تو جمہور پر بھی یقین کرنا سیکھیں۔اس جمہور کو جمہوریت کی ضمانت سمجھیں۔ اسے جمہور کو وہ قوت و طاقت بخشیں کہ جو کسی طالع آزما کی جمہوریت پر شب خون مارنے کی راہ میں مزاحم ہو جائے۔اس جمہور کو جمہوریت کی فصیل کا نگہبان سمجھیں۔اگر قوم کو خوشخبری سنانی تو یہ اسے جمہور کی عظمت و مضبوطی کی خوشخبری سنائیں۔اس جمہور کو بھی اس قابل سمجھیں کہ وہ جمہوریت کی ضامن بن سکے۔خان صاحب !آپ کے دودھ کے دانت کب گریں گے ۔ آپ کب تک گھٹنوں کے بل چلتے رہیں گے۔ آپ کب تک دوسروں کی انگلی پکڑ کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے۔ خان صاحب! اب تو خدارا! بالغ ہو جائیں ۔ جمہوریت کی ضمانت فوج کے سپہ سالار سے لینے کی بجائے جمہور سے لینے کی عادت ڈالیں۔

1 Comment

  1. Asalm o alikum wesa ap k khail ma Pakistan ma baliag kon hae hae???????,,,,,,,,,
    ?
    Kya nawaz shrif ya zadari ya koi ar???????,,,,,,,,,,,,,,

Comments are closed.