عدم برداشت اور پارسیوں کی حالتِ زار

لکھاری کی تصویر
اسد لاشاری، صاحبِ مضمون

(اسد لاشاری)

پاکستان کے قیام کے بعد ریاستی نظریہ کی وجہ سے سندھ ، پنجاب، خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں صدیوں سے آباد اقلیتوں کا رشتہ پل بھر میں ٹوٹ گیاتھا ۔ریاستی نظریہ کی وجہ سے آج تک پاکستان ایک قوم نہیں بن سکا ۔موجودہ دور کے نظریہ کے مطابق پاکستان قومی ریاست نہیں بلکہ مذہبی ریاست بن چکی ہے ۔ ابتدائی برسوں میں ہی اقلیتوں کو پیغام دیا گیاکہ یہ ملک غیر مسلموں کی باقیات کے لئے نہیں مسلمانوں کے لئے بنا ہے ،ہم نے اباؤ اجداد کی قربانیوں کے عوض یہ وطن حاصل کیا ہے ، مشرکوں اور کافروں سے آزادی چھین کر حاصل کی ہے ۔ اس لئے آپ لوگوں سے گذارش کی جاتی ہے ، کہ برائے کرم ہماری پاک سرزمین سے رضا کارانہ طور پر چلے جائیے، آپ لوگوں کی وجہ سے وطنِ عزیز کی پاک مٹی نجس ہو رہی ہے ۔ یہ الفاظ کسی نے واضح طور پر تو نہیں کہے البتہ ایسے قوانین متعارف کرائے گئے جن کی وجہ سے اقلیتوں نے خو د کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں غیر محفوظ سمجھنا شروع کر دیا۔ آج ستر سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی پاکستان اسلامی ریاست تونہیں بن سکا ،البتہ عدم برداشت ، دہشتگردی، مذہبی انتہا پسندی، غربت اور بھوک و افلاس کی وجہ سے حالات پہلے سے زیادہ ابتر ضرور بن چکے ہیں۔ ستر سالہ عرصہ کے دوران ہم نے ہندوؤں، عیسائیوں اور سکھوں کے ساتھ زیادتی کے قصہ سنے ہوں گے ، لیکن کبھی پارسی کمیونٹی کے ساتھ زیادتی اور نا انصافی کے بارے میں نہیں سنا ہوگا ۔ اس کی چند وجوہات یہاں پیش کی جاتی ہیں جن کی وجہ سے اب تک محفوظ اقلیت تصور کیے جاتے ہیں ۔
1سب سے چھوٹی اقلیتی برادری ہونا ہے ۔
2کبھی قومی میڈیا کی خبروں کی زینت نہیں بنے
3 ان پر انگریزوں کی کرم نوازی تھی جس نے پارسیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جس کی وجہ سے وہ پڑھ لکھ کرا علی طبقہ میں شامل ہو گئے اور کاروبار کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا دیا ۔
4 وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔
5 کبھی قانون نہیں توڑتے۔ لیکن حقیقت ان باتوں کے بر عکس ہے۔
بڑھتی ہوی دہشتگردی اور عدم برداشت نے پارسیوں کے لئے ملک میں مزید رہنے کے لئے حالات سازگار نہیں چھوڑے ۔ ان کے ساتھ بھی زیادتیاں ہوتی رہتی ہیں لیکن ان کے مسائل قومی میڈیا کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں ۔ ڈاکٹر فریم جی من والا نے اس حوالے سے بات کرتے ہوے انکشاف کیا کہ پاکستان چوک پر ہماری اگیاری جسے Fire Temple بھی کہا جاتا ہے اس کی چار دیواری پر کچھ شر پسند عناصر نے لکھا تھا کہ یہاں کافروں کے لیے کوئی گنجائش نہیں، یہاں سے چلے جاؤ ۔ یہ الفاظ کس نے لکھے کیوں لکھے اب تک اس کا پتہ نہیں چل سکا۔ ہمیں اگیاری کے چوکیدار نے جب آگاہ کیا تو ہماری کمیونٹی کے لوگوں نے راتوں رات دیواروں پر پینٹ کر کے اسے صاف کر دیاتا کہ میڈیا تک یہ خبر نہ پہنچے ۔جب میں نے اس سے دریافت کیا کہ اگر میڈیا تک خبر نہیں پہنچے گی تو پھر لوگوں کو کیسے پتہ چلے گا کہ آپ لوگوں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ؟ اس بات کا جواب انہوں نے کچھ اس طرح سے دیاکہ، اگر یہ خبر میڈیا تک پہنچتی تو اور شر پسندوں کو پتہ چل جائے گا پھر وہ بھی ہمیں تنگ کرنا شروع کر دیں گے، اس لئے ہم میڈیا میں آنے سے کتراتے ہیں۔ یہ راز تب dfافشاں ہوے جب کچھ عرصہ قبل شہر قائدکے لیے کی گئی ان کی خدمات پر ڈاکیومنٹری The Silent server of the city بنانے کے سلسلے میں ان سے ملا ۔ میرا ذاتی شوق ہے کہ میں ملک میں رہنے والے مختلف مذاہب اور رنگ ونسل سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے بارے میں جان سکوں، ان کی رسم و رواج کے بارے میں جانوں اسی سلسلے میں ، میں نے اپنی پہلی ڈاکیومنٹری کے لئے پارسیوں کو چنا کیونکہ پارسی کمیونٹی جس تیزی سے ہجرت کر رہی ہے وہ جلد ہی تاریخ کا حصہ ہ بن جائے گی اس مٹتی ہوی تہذیب کو اپنی طرف سے خراجِ عقیدت پیش کرنے کی کو شش کی ہے، اور ان کا شہر قائد کی ترقی میں بھی اہم کردار رہا ہے۔
انہوں نے NED University ماما پارسی گرلز ہائی سکول ، بی وی ایس ہائی اسکول سمیت نرسری سکولز بھی بنائے ہیں۔جبکہ شعبہ صحت میں لیڈی ڈفرن، انکل سریا ،کڈنی سینٹر ،ایس آئی یو ٹی اور آغا خان ہسپتال جیسے اداروں کے بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ حالتِ زاریہ ہے کہ ہم نے ان کی بنائی ہوی چیزوں کی قدر نہیں کی مثلاً جہانگیر پارک صدر، جہانگیر کوٹھاری پریڈ، جسے اب باغ ابن قاسم کے نام سے جانا جاتا ہے حکومتی بے دھیانی کی وجہ سے زبوں حالی کا شکار ہیں۔ اور بھی ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو ڈاکیومنٹری میں دکھائی جائیں گی جن کا ماضی شاندار جبکہ مستقبل تاریک دکھائی دیتا ہے ۔ڈاکیومنٹری کے سلسلے میں پارسیوں سے انٹرویوز بھی لئے، جو اس ڈاکیومنٹری میں شامل ہیں۔ ان انٹرویوز میں سابق سفیر جمشید مارکر صاحب کا انٹرویو بھی ڈاکیومنٹری کے حصہ ہے ۔ جب جمشید مار کر سے ڈاکیومنٹری کے حوالے سے ،انٹرویو کے دور ان سوال پوچھا کہ جب پاکستان بنا تو اس وقت 7000 پارسی کراچی میں رہتے تھے، جب کہ آج ستر سال بعد پارسیوں کی تعد۱د 1200 کے قریب رہ گئی ہے ، گزرتے وقت کے ساتھ پارسیوں کی آبادی کیوں نہیں بڑھ سکی؟ مارکر صاحب نے کہاکہ آزادی کے کچھ سالوں بعد ڈڑامائی انداز میں اقلیتی برادری کی آبادی میں کمی واقع ہوی اس کے اثرات پارسی کمیونٹی پر بھی پڑے۔
اور بھی چند ایسی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے آبادی نہیں بڑھ سکی، ان میں سرِ فہرست دیر سے شادی کرنا، زیادہ بچے پیدا نہ کرنا،دوسرے ممالک کی طرف ہجرت کرنا یہ وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے پارسیوں کی آبادی میں کمی وقع ہوی ہے۔ لیکن اس کمی میں شدت 90 کی دہائی کے بعد آئی ۔اب ہرگزرتے سال کے ساتھ پارسی اپنے بچوں کے محفوظ مستقبل کے لئے کینڈا، اسٹریلیا، امریکہ اور دیگر یورپین ممالک کی طرف ہجرت کر کے وہیں مستقل رہائش اختیار کر رہے ہیں ۔
یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ وطنِ عزیز میں موجود چند گروہ خود سے کمزوروں کو رنج و الم میں مبتلا کر کے ان کی خوشیاں چھین کر یا پھر ان کے مذہبی جذبات مجروح کر کے نہ جانے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ شاید اس کی وجہ وہ جوشیلے خطیب ہیں جو اپنی جوشِ خطابت کے ذریعہ لوگوں کے جذبات کو ابھارا کرتے ہیں ۔ پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک ایک خاص قسم کی زبان تشکیل دی گئی ہے جس کا اظہار جلسوں جلوسوں اور اجتماعات میں تمام سیاسی و مذہبی رہنمااکثر کرتے رہتے ہیں ۔ مثلاً ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ ملک سازشوں کا شکار ہے، یہود ونصاریٰ اس ملک کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا معاشرہ جہاں عدم براداشت عام ہو اور واضح الفاظ میں دوسرے مذاہب کے لوگوں کے بارے میں نفرت کا اظہار کیا جاتا ہووہاں اقلیتی برادری جو پہلے ہی آٹے میں نمک برابر ہو ں کیسے محفوظ رہ سکتی ہے؟