سعادت حسن مر گیا منٹو نہیں مرا

(پرویز انجم)

منٹو۔۔۔ صرف فنِ افسانہ نگاری کا ہی نہیں ایک دوَر کا نام ہے ۔ شہرۂ آفاق افسانہ نگار سعادت حسن منٹو روایتی اُردو ادب کی چوکھٹ پر ایک آتشیں ہیولے کی طرح نمودار ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے گونگے اور بہرے ادب کے جامد اذہان پر چھا گئے۔ یہ وہ دوَر تھا جب برِصغیر کے ادب و آرٹ میں نئے نئے تجربات کئے جا رہے تھے۔ پچھلا دوَر اپنا عروج دیکھ کر رخصت ہو رہا تھا ۔ نئے لوگ نئے خیالات کے ساتھ فنونِ لطیفہ کے میدان میں داخل ہو رہے تھے۔ یہ ایک ا علیٰ تعلیم یافتہ نسل تھی ۔جنہو ں نے مغربی ادب ، آرٹ اور علوم کا بھی گہرامطالعہ کیا تھا اور وہ ان مغربی تصوّ رات اور تجربات کو اُردو اور ہندوستانی کلچر میں ڈھالنا چاہتے تھے انہیں یہ شوق تھا کہ اپنے ادب، فلم اور دیگر آرٹ کو مغربی تجربات کی روشنی میں سجائیں تا کہ وہ عالمی معیار کا مقابلہ کر سکے ۔اُردو شعرو نثر میں خاص طور پر انقلابی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں ۔منٹو نے بھی نئے اثرات بڑی شدت سے قبول کیے بلکہ اُْ ن کے ہر افسانے کی اشاعت ایک ادبی حادثہ ہوتی تھی۔ معنی کے اعتبار سے صیح طور پر انہی دنوں میں ’’افسانے ‘‘ نے جنم لیا اور زندگی کی کلفتیں افسانے کی بنیاد بنیں ۔ ادب کروٹ لے چکا تھا۔ (نیا ادب یعنی بھوک محبت پر غالب آرہی تھی۔)منٹو کے بعض افسانوں نے تو بہت آفت ڈھائی۔ مقدمے چلے۔ مباحث چھڑے۔ مگر نیم کی طرح منٹو ایک ایسا پیڑ تھا جس کے پتے کڑوے اور پھل میٹھا تھا۔ بلکہ منٹو کے ادب میں جوکڑواہٹ ہے وہ ہمارے خون کے مفسدمادوں کے لئے مفید ہے۔ اپنے ہمعصروں میں منٹو کا ذہن سب سے زیادہ افسانہ نویسی ذہن تھا۔ اُن کا امیج میڈیا یا تعریفی و تنقیدی مضامین وغیرہ کا بنایا ہوا نہیں، بلکہ خود اُن کے افسانوں کا بنایا ہوا ہے۔ یہ امیج ایک بہت بڑے فنکار کا بنایا ہوا ہے۔ وہ فنکار جو اپنے پگھلتے ہوئے وجود سے لاپرواہ ہو کر زندگی بھر بے پرواہی سے لفظوں کی تیراندازی کرتا رہا۔ منٹو کا سراپا جیتے جی تابوت بن چکا تھا اور وہ اسے اپنی مرضی کے خلاف اپنے روٹھے ہوئے کندھوں پر اُٹھائے پھرتے رہے۔ کہانی لکھنا، کہانیوں میں رنگ بھرنا، پھر خود کہانی بن جانا۔ اُردو افسانے کی اَسّی نوّے سالہ تاریخ میں اس مرکز پر منٹوآج بھی اُسی شان سے براجمان ہے۔
۱۱؍مئی ۱۹۱۲ء کا دِن لوحِ ادب پر متجلی حروف میں کندہ ہے۔ یہ دن اور ادب کے حافظہ کے نہاں خانوں سے ایک عطر بیز موج کی شکل میں برآمد ہوا۔ یہ سعادت حسن منٹو کی ولادت کا دِن ہے۔ سعادت حسن منٹو جو پچھلی صدی گوشِ دوام میں ایک نعرہ ایقان بن کر ادب پر چھائے رہے اور اردوادب میں وہ مقام پایا جو کہ فرانسیسی ادب میں بالزاک کو حاصل ہے یا روسی مصنف گوگول کو حاصل ہے۔
سعادت حسن منٹو نے افسانوں کے لازوال ۲۳ مجموعے ایک بے مثال اردو ناول، ریڈیو ڈراموں کے پانچ مجموعے ایک طویل ڈراما اور مضامین کے مجموعے سپردِ اوراق کر کے تاریخ رقم کی ہے۔ سعادت حسن منٹو کے افسانوں کو میزان عدل پر دیکھیں تو اُن کی کہانیان نئے شعور و پیغام کا استعارہ ہیں۔ تقسیم کے موضوع پر منٹو نے سیاہ حاشیے، کھول دو، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ٹھنڈا گوشت، سپردِ قلم تاریخ کر کے اپنے افسانوں کو ہمیشہ کے لیے اَمر کر لیا ہے۔ منٹوکے افسانوں کے کرداروں میں کلرک ، مزدور، طوائفیں، رند، زاہد، دلال، بچے، بوڑھے حساس فنکار کی قلبی کیفیات کا تمثال دار آئینہ ہے۔ اُن کی کہانیاں معاشرہ و سماج کی ناہمواریوں، لوگوں کی ناآسودہ زندگی کی سچی تصویر کشی کرتی ہیں۔ ان کہانیوں میں ایک تکمیل ایک وسعت کائناتی گہرائی کے ساتھ ساتھ زندگی اور وجود کا فلسفہ پیش کرتی ہیں۔ منٹو صاحب نے اپنی کہانیوں کے ذریعہ حقیقت نگاری،نفسیاتی موشگافی جرأت آمیز حق گوئی کے ساتھ مذہبی، سیاسی، معاشی اورمعاشرتی، اجارہ داری کی منافقت پر طنز کے ذریعہ فرد کا نہیں نسلوں کا کرب سمو دیا ہے۔
سعادت حسن منٹو جیسا عظیم افسانہ نگار ایک صدی قبل سب جج غلام حسن منٹو کے گھر اُن کی دوسری بیوی سردار بیگم کے بطن سے پیدا ہوا۔ مسلم ہائی سکول میں دوبار میٹرک میں فیل ہونے کے بعد تیسری مرتبہ پاس ہوئے۔ اُردو سے بیگانہ و بے زار ۱۹۳۱ء میں گیارہویں جماعت ہندو سبھا کالج امرتسر میں داخلہ لیا ایف اے میں فیل ہوا تو ایم۔اے۔او کالج امرتسر میں داخل ہوا یہاں بھی دوبارہ فیل ہوا۔ اسی دوران باری علیگ جو لائل پور سے آئے اور روزنامہ ’’مساوات‘‘ کے ایڈیٹر بنے اُن سے رابطہ ہو گیا۔اُن کی صحبت کے اثر نے منٹو کو فرانسیسی، روسی اور انگریزی ادب کے مطالعہ کی طرف رغبت دی اور منٹو نے تراجم شروع کر دیے۔ پہلا ترجمہ ۱۹۳۳ء میں وکٹر ہیوگی کی کتاب ’’دی لاسٹ ڈیز آف اے کنڈیمڈ مین‘‘ کا ’’اسیر کی سرگزشت‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ ۱۹۳۴ء میں آسکر وائلڈ کی کتاب ’’ویرا‘‘ کو اردو روپ دیا۔ سعادت حسن منٹو کا پہلا افسانہ ’’تماشا‘‘ ۱۹۱۹ء کے جلیانوالہ باغ کے قتلِ عام پر مبنی تھا۔ جس میں آدمیت اور انسانیت کے متضاد رویہ کی منظر کشی کی گئی تھی۔ ۱۹۳۵ء میں منٹو نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا لیکن چندمہینوں بعد تپ دق جیسی موذی مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی سے خیر باد کہنا پڑا۔ ۱۹۳۶ء کے آواخر میں وہ نیم فلمی و ادبی میگزین ’’مصور‘‘ کے ایڈیٹر ہو کر بمبئی چلے گئے۔ ۲۶؍ اپریل ۱۹۳۹ء کو صفیہ نامی خاتون سے شادی ہوئی۔ ۱۹۴۰ء میں بیٹا پیدا ہوا۔ غالب سے اُنسیت کی وجہ سے اُن کے بیٹے کے نام پر اپنے بیٹے کا نام عارف رکھا مگر وہ اپنی پہلی سالگرہ سے دو روز قبل فوت ہو گیا۔ اُن ایام میں منٹو ریڈیو اسٹیشن دہلی سے وابستہ تھے۔جہاں انہوں نے سو سے زائدریڈیائی ڈرامے لکھے۔ وہاں اُن کا ملک کے جید ادباء شعرا سے رابطہ و مکالمہ رہا۔ تاہم دو سالہ ملازمت کے بعد اُن کا زیڈ اے بخاری اسٹیشن ڈائریکٹر سے تنازع بنا اور منٹودوبارہ بمبئی آگئے اور۱۹۴۳ء سے ۱۹۴۷ء تک نئے سرے سے مختلف فلم ساز اداروں کے لیے فلموں کی کہانیاں و مکالمے لکھے۔ اربابِ فلم میں منٹو کی اشوک کمار اور شیام سے بہت دوستی رہی۔
ہندو پاک بٹوارے کے بعد ۸ جنوری ۱۹۴۸ء کو پاکستان آگئے اور لاہور میں لکشمی مینشن جہاں وہ تادمِ آخر مقیم رہے۔ یہاں وہ بادِ حوادث کا سامنا نہ کر سکے جس کے باعث غربت اور شراب نوشی میں ذہنی دباؤ میں مبتلا ہو کر پاگل خانے میں بھی چند ہفتے رہے۔ اس ماحول سے انہوں نے برصغیر میں اُردوکا سب سے قد آور افسانہ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ تخلیق کیا۔جس درد سے منٹو نے اپنے آخری دَور کے افسانے لکھے ہیں وہ درد ہی ہمارے لیے اِ س بات کا اعلان تھا کہ منٹو موت کے دہانے پر کھڑا ہے۔ افسانوی تکنیک کے بادشاہ سعادت حسن منٹو دنیا چھوڑ کر اس شمع نورِ قدرت کے سربستہ رازوں کو آشکار کرتے ہوئے کہیں بہت دور چلے گئے۔ اُن کے جانے کے بعد اپں کی لازوال کہانیاں اہلِ نظر واہلِ دل کو تڑپاتی رہیں۔ بہت سارے لوگوں کو منٹو کی موت پر موپساں یا آسکروائلڈ کی موت یاد آئی اور ادبی دنیا میں اختر شیرانی اور میراجی کے آخری لمحے تازہ ہوگئے۔ سعادت حسن منٹو کی موت فنِ اُردو افسانہ نگاری کا زبردست حادثہ تھا۔ اُردوافسانے کی دنیا میں اسِ سے قبل اتنا بڑا واقعہ نہیں ہوا تھا۔ منٹو نے اُردو افسانے کو کیا کچھ دیا۔ اس کااندازہ اُن کی زندگی میں نہیں ہو سکا۔ اُن کی موت کے سالوں بعد جب اُن کے پرستار اُن کی کہانیوں کو ترسنے لگے جن کا نام منٹو کہانی تھا تب آنکھیں کھلیں کہ منٹو ہمارے درمیان نہیں رہے۔سعادت حسن منٹو۔۔۔ وہ منٹو۔۔۔۔وہ ستمگر، جو تختہ سیاہ پر سفید چاک سے لکھتا تھا۔ اس ہُنر مندی پر اُردو افسانے کے رسّیا سَر دھنتے رہیں گے ۔
منٹو کوراہی عدم ہوئے زمانہ ہو گیا ۔ اس عرصہ میں اُردو کے کتنے قد آور افسانہ نگار پرانے ہو گئے ۔ منٹو آج بھی نیا ہے۔آج بھی تازہ ہے ۔ آج بھی زندہ ہے بار بار پڑھے جانے پر بھی وہ اپنی افادیت نہیں کھوتا بلکہ اُس کی سرکشی و سرکشیدگی پہلے سے سوا ہی نظر آتی ہے ۔بلاشبہ وہ اپنے وقت کے بہترین افسانہ نگار تھے اور ابھی تک اُن کا جواب نہیں پیدا ہو سکا ۔
ہر کہانی ،ہر شے کا اختتام ہوتا ہے لیکن منٹو صاحب کی کہانی میں اختتام ذراجلدی آگیا اور یہ شرارہ بیاں یوں چپکے سے گزر گیا۔ پچھلی پوری صدی منٹو اردو ادب کے حواس پر چھائے رہے۔ یہ صدی بھی منٹو کی ہے۔ اگلی کئی صدیاں بھی منٹو کی ہیں کیونکہ سعادت حسن مر گیا منٹو نہیں مرا۔