رو بہ زوال سماجی علوم

رو بہ زوال سماجی علوم ، تعلیم پر ایک نظر
پروفیسر شیو وسوناتھن

رو بہ زوال سماجی علوم

از پروفیسر شیو وسوناتھن (سماجی خانہ بدوش)  او  پی  جندل گلوبل یونیورسٹی

ترجمہ و تلخیص: ابو اسامہ،اسسٹنٹ پروفیسر،  شعبہ سوشل ورک، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی،  حیدرآباد  

میرے دوست نے ایک دن سماجی علوم پر  ہونے والی گفتگو کی کمی  کے تعلق سے شکایت کی اور کہا  کہ پلاننگ کمیشن نے سماجی علوم پر خصوصی توجہ دی تھی ۔ پلاننگ کمیشن نے سماجی علوم کے درمیان ایک نئی قسم کی ہم آہنگی اور ربط پر زور دیا مگر ہم میں سے کسی ایک  نے بھی اس کو ختم کیے جانے پر کسی بھی طرح کا احتجاج درج نہیں کیا۔ اس نے کہا کہ ایک عجیب طریقے سے سماجی علوم کے ماخذ  اور ذرائع ختم  ہو رہے ہیں۔  اس نے تین نکات کا ذکر خصوصی طور پر کیا:  پہلا سول سوسائٹی جس نے توانائی، شہریت اور جمہوریت پر بحث و مباحثے کا ماحول پیدا کیا تھا ، اب وہ بھی خاموش ہے۔ حتی کہ نریگا (مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی ایکٹ) جو کہ شہریت اور استحقاق کے بجائے اعداد و شمار تک محدود ہوکر رہ گیاہے ۔ جین ڈریز اور ارونا رائے کی انتھک کوششوں کے باوجود نریگا کا موضوع جو کہ غربت کا ایک نشان علامت ہے، مدھم پڑ گیا۔  مسئلہ تو باقی ہے مگر اس کی افادیت کو موضوع بحث بنانے کے لیے اب بہت کچھ باقی  نہیں  بچا ہے۔

میرے دوست نے دعوی کیا کہ ٹیلی وژن نے ایک تیز رفتار اور جارحانہ سماجی علوم کو شکل دی ہے۔ ایک ماہرمعاشیات کے علاوہ کوئی ٹیلی وژن چینل شاذ و نادر ہی سماجی علوم کے کسی ماہر کو اپنے پروگرام میں بلاتا ہے۔ حسن اتفاق اگر کوئی ٹی وی چینل ان میں سے کسی کو بلا بھی لیتا ہے تو  وہ اپنی ماضی پرستی کی دنیا سے باہر نہیں نکل پاتا ہے۔  اس پر ستم یہ کہ اخبار بھی بہت زیادہ اکیڈمک، تصوراتی یا فلسفیانہ نہیں ہوتے ہیں۔ اخبارات میں سرخیوں کی بھرمار ہوتی ہے؛ ان میں یہ صلاحیت تک نہیں ہوتی کہ وہ کسی پالیسی کا تجزیاتی مطالعہ کر سکیں۔  ان کا موضوع بحث ‘اسمارٹ شہر’ ہوتے ہیں جب کہ اخبارات کو تونقل مکانی/ہجرت، جھونپڑ پٹیوں، غیر رسمی سماج ، تشدد اور بے روزگاری جیسےموضوعات کو خصوصی توجہ کے ساتھ جگہ دینی چاہیے۔  ہمارے ماہرین اقوام متحدہ کی چند رپورٹوں پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں جنھیں وہ تنقید کا متبادل سمجھتے ہیں۔  اشاریے ، نظریہ کے نئے متبادلات کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں اور ماہرین رینکنگ اور سماجی ڈیولوپمنٹ، تعلیم، جنس اور تشدد کی زمرہ بندیاں کرنے میں مشغول ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی ٹینس کی باریکیاں سمجھنے کے لیے ومبلیڈن بیجوں کی فہرست یاد کرلے۔

تیسرے نکتے پر تو بہت ہی کم گفتگو ہوئی ہے۔ یہ ادب کے میدان میں ایک نئی روایت ہے جس میں ہندوستانی تحریریں اور پبلشنگ ہاؤسز نے ادبی تحریروں کو اقتدار کا ایک زبردست ذریعہ بنا دیا ہے ۔ یو. آر. اننت مورتھی سے لے کر آتش تاثیر کی تحریریں سماج کی عکاس ہونے کے ساتھ ساتھ دانشوری سے بھری ہوئی ہیں بہ نسبت ان ماہرین کے جو جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کی تھکا دینے والی کٹیگری میں بنٹ چکے ہیں۔ سماجی علوم ایک ٹیوشن کالج بن گیا ہے جو خیالات کو دہرانے میں مصروف ہے جب کہ خیالات کی تازگی ناول نگاروں سے آر ہی ہےاور یہی بات صحافت کے لیے بھی مناسب لگتی ہےبالخصو ص ایسے صحافی جو شہروں پر لکھ رہے ہیں اور ہجرت و شہریت کےموضوع پر دلکش تحریریں رقم کر رہے ہیں جب کہ سماجی علوم میں اس کی کمی ہے۔ شہروں کو سمجھنے کے لیے جیریمی سی بروک کو پڑھنا اچھا لگتا ہے ۔ دوسری طرف ہمارے ماہرین سماجیات کی فرسودہ روایات میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

چوتھا بڑا نقصان سیاست اور  بالخصو ص دائیں بازو کے سیاستدانوں سے ہے۔بایاں بازو تو اپنی نظریاتی پاکیزگی کو آخری حد تک بچائے رکھنا چاہتا ہے اور بحث و مباحثہ سےبھی خوفزدہ ہے جب کہ دایاں بازو سیکولر ازم، حب الوطنی، ترقی، خوشحالی، نیشن اسٹیٹ جیسی اہم اصطلاحات پر قبضہ جما لینے کی تاک میں ہے۔  فرقہ پرست طاقتیں نئے قسم کے مباحث اچھال رہی ہیں جب کہ ماہرین سماجی علوم بے بسی کے ساتھ یہ ساراتماشا دیکھ رہے ہیں۔ان اصطلاحات کی نئی تعریفات اور ان کی سرکاری لفظیات میں تبدیلی بھی دانشور طبقہ کو بیدار کرنے میں ناکام ہے۔حتی کہ کچھ سماجی ماہرین خصوصا مورخین جو اعتراض کر بھی رہے ہیں تو وہ کانگریس ٹائپ مورخین ہیں۔ ان کی اکیڈمک حسیات بھی کانگریس پارٹی کی سیاسی بد حالی کی طرح مرجھائی ہوئی ہے۔

ایک اور مسئلہ جس پر کم توجہ دی گئی ہے جو کم اہمیت کا حامل نہیں ہے وہ یہ کہ سماجی مسائل سفر کرتے ہوئے حقائق کی طرح اب دوسرے نئے میدانوں میں بدل رہے ہیں۔  ٹیکنالوجی اور ماحول کے مسائل بہت ہی گہرے سوال ہیں، نہ کہ صرف مینجمنٹ اور نفع-نقصان تجزیہ کی باتیں بھر۔  مادھو گڈگل اور کستوری رنگن کے درمیان مغربی گھاٹوں کے موضوع پر ہونے والے مباحثے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ کیسے سماج قدرت کو ایک خوبصورت شکل دیتا ہے اور کس طرح روزگار کا علم جمہوری تخیلات کا حصہ ہونا چاہیے!

ایک اور مختلف طریقے سے اقتدار، موجودگی اور پائیداری کے ساتھ ایک زراعتی سائنسداں ایم ایس سوامی ناتھن سماجی اور قدرتی سائنسوں کے درمیان اپنے بائیو- گاؤوں کے اختراعی تجربہ کے ذریعہ ایک با صلاحیت فرد ہے۔ اگر ہم اس نظر سے دیکھیں تو  مادھو گڈگل اور سوامی ناتھن سماجی علوم میں اتنی ہی اہمیت کے حامل ہیں جتنے کہ اشیش نندی اور ایندرے بیتل جیسے روایتی دانشور ہیں ۔

ہمیں مارکیٹ کی اہمیت پر سماجی علوم کے لیے  بطور فریم زور دینے کی ضرورت ہے۔  انتخابی سروے کے ساتھ  مارکیٹ سروے بھی اہم ہے۔ در حقیقت یہ  پسندیدگی، خواہشات، جسم، جنسیت اور شہریت پر اچھی خاصی معلومات فراہم کرتی ہیں جس سے ایک ماہر سماجی علوم عموماً دور رہتا ہے۔ سنتوش دیسائی اور رام بیجا پر کر جیسے مارکیٹ کے ماہرین پسندیدگی، خواہشات اور ضرورتوں کے فلسفی ہیں جنھیں  اس پس منظر میں سنجیدگی سے لینا چاہیے۔

ہم محسوس کر رہے ہیں کہ سماجی علوم، سماجی سوالات سے مبرا ہوتے جا رہے ہیں۔ ماہر سماجی علوم غیر مناسبت اور بیوقوفی کے درمیان ہچکولے کھا رہا ہے۔ حالانکہ اسے محسوس کرنا  چاہئے کہ اسےمحض جوڑنے کے کام کے علاوہ  بہت گہرائی تک جانے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ساتھ نرالے پن، اختلاف اور تخلیقیت کے تلاش میں نئے ذرائع تلاش کرنے ہوں گے۔ اس کو یہ سمجھنا ہو گا کہ بہت سارے خوبصورت تصورات جیسے سیکولر ازم اور نیشن اسٹیٹ اب مدھم پڑ گئے ہیں اس لیے اس کو تصورات، کیس اسٹڈیز اور طریق کاروں کی نئی فلسفیانہ ڈکشنریوں کی تعمیر کرنی ہوگی۔ اس ضمن میں تو سب سے پہلے کہانیاں کہنے کی طرف لوٹنا ہوگا،   ایتھنو گرافی اور ماہر بشریات کلفورڈ گیرٹز کی طرح خوبصورت وضاحتوں سے پر کیس اسٹڈیز کرنی ہوگی۔ روزمرہ کے تجربات کی یگانگت کو مزید معنویت دینی ہوگی۔ سماجیات جو کسی زمانے میں دیہی مطالعات اور شمولی مشاہدہ سے رو بہ رو کیا تھا جس میں ایم، این، سری نواس کی’Village Remembered The’  جیسے کلاسیک موجود ہیں۔  کیس اسٹڈیز کی گہرائی ایک اسکالر کو ایسے ماحول میں لے جاتی ہے جہاں وہ اپنے کلاسیک کے مفہوم کو نیا پن دیتا ہے اور فیلڈ کے عمدہ تجربات سے لطف اندوز ہوتا ہے۔  اس طرح کی کتابیں لکھنے کے لیے ایک سماجیات یا بشریات کے ماہر کو ایک اچھا سامع بننا پڑتا ہے اور وقت کی مختلف اقسام کو اپنی اسٹڈی میں آنے کی اجازت دیتا ہے۔  سماجیات کو ایک روسی ناول کی طرح،  وقت کے گنجلک پن اور کردارو ں میں یگانگت کا موقع دینا چاہیے جو بیانیہ میں نیا انداز پن لاتے ہیں۔ایک سماجی علوم کے ماہر کو منشی یا تہذیبوں کی یاد داشت کا ریکارڈر ہونا پڑتا ہے جو زبانی تخیلات میں رہتے ہیں اور تاریخی عمل کے دوران کھوجاتے ہیں۔یادداشت کے ساتھ تاریخ اور ترقی کے پرے وقت کی اقسام کو قید کرنا بھی لازمی ہے۔سماجیات کو ہر عصری تقاضے پر گہری نظر رکھنی ہوگی۔

تاریخ میں پھنسے ہوئے ہمارے سماجی علوم کو مستقبل پر بھی ذرا دھیان دینے کی ضرورت ہے۔خواب اور تخیل اب سماجیات کا حصہ ہونے چاہئیں کیوں کہ ٹکنالوجی  اور شہروں کا مستقبل جمہوریت کے مسقتبل سے متعلق ہے۔موجودہ سیاسی تناظر میں سماجی علوم ایک تنگ ہندوستانی آئیڈیا پیش کرتے ہیں۔موجودہ زمانے میں سماجی علوم کی ذمہ داریاں دو گنا بڑھ جاتی ہیں کیو ں کہ جس آئیڈیل ہندوستان کا ہم خواب دیکھ رہے ہیں اس کے لیے بہت محنت در کار ہے ۔

اپنی موجود شکل میں بحیثیت مشینی آلات، مینجیریل ہندوستان کا آئیڈیا انتہائی افتاد طبع ہے۔ہماری حالت یہ ہے کہ ہم امریکہ اور چین سے لیے ہوئے خیالات کو بھی پوری طرح اپنانے میں ناکام ہیں ۔ جب تک کہ سماجی علوم ہندوستان کے لیے نئی امیجری نہیں بنائیں گے درمیانی طبقہ ایسے ہی آزردہ خاطر رہے گا۔ اس کو ایک تخلیق اور سرگرم دنیا کی طرف بڑھنا ہے ۔

آخر میں، بطور متحرک سماج کے ہمارے پاس ہارے ہوئے، پسماندہ اور نڈھال  طبقے کے لیے کم جگہ ہے ۔اخلاقیات کی یادداشت کے طور پر، سماجی علوم یگانگت کے گہرے امکانات تلاش کرنے ہوں گے۔ خواہ وہ کوئی ناپید ہوتی ہوئی زبان، کرافٹ، حیوان یا زندگی کا سلیقہ ہی کیوں نہ ہو ! نئے حقائق، نئی سچائیاں ، نئے امکانات اور نئی تنقیدیں لانے کے بعد ہی شاید سماجی علوم ایک ایسا بہترین کردار ادا کر سکے جو ہندوستان کو موجودہ صورت حال سے نکال کر ایک دوسرے مقام تک لے جائے ۔یگانگت صرف اختلافات کا نام نہیں ہے بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ کس طرح سے اختلافات کی دلیل ہندوستان میں جمہوریت کی نئی قواعد بناتی ہے۔ اگر واقعی میں ہندوستان مستقبل میں خود کو بچانا چاہتا ہے تو اسے ایک تخلیقی قوت بننا پڑےگا۔