ڈر کے راج میں مرتی آوازیں

لکھاری
شاہ رخ رشید

ڈر کے راج میں مرتی آوازیں

(شاہ رخ رشید)

کل ساری رات کروٹیں لیتے اذیت میں گزری ہے ۔ کچھ دنوں سے مسلسل موصول ہونے والی فون کالز اور ان باکس پیغامات میں انکشاف ہوا ہے کہ میرے محترم اساتذہ ، دوست اور خیر خواہوں کو میرا فیس بک پر سیاسی ، سماجی اور مذہبی مسائل پر آواز اٹھانا ، حالانکہ یہ کوئی معتبر آواز نہیں ہے ، میرے ہی حق میں بہتر نہیں لگتا ۔ ان کے نزدیک یہ ملک ، یہ معاشرہ ایسی آوازوں کا دشمن ہے جو صاف سنائی دیتی ہوں اورپھر مختلف بھی ہوں تو بچنے کا کوئی امکان نہیں۔ جب کہ میرا ماننا ہے کہ آوازیں یونہی دبائی جاتی رہی تو یہاں آوازوں کا وہ کال پڑے گا کہ خاموشی ’’ صوراسرافیل ‘‘ پھونکے گی۔
میرا قصور بھی کیا ہے جب انسانیت ہی سسکیاں لے رہی ہو تو قلم کیسے مسکرا سکتا ہے ۔ تڑپتے سسکتے لوگوں کو دیکھتا ہوں تو وہ تصاویر آنکھوں میں رہ جاتی ہیں ، جنہیں لفظ دیکھتے ہیں اور دیکھتے ایسے ہیں جیسے دیکھنے کا حق ہو ۔ انہیں لہو کا رنگ لال ہی دکھتا ہے ۔ یہ شعیہ ، سنی، ہندو، مسلم ، عیسائی ، سکھ یا احمدی کے خون میں امتیاز نہیں کر پاتے ۔ چیخنے چلانے کی آوازیں سن سکتے ہیں درکنار اس بات کے کہ چیخنے والا پنجابی ، بلوچی ، سندھی یا پشتون ہے۔
ہاں یہ ضرور میرا قصور ہے کہ میں آج تک زندگی کے مسائل پر مثبت سوچنے کا قائل رہا ہوں ۔ اپنے ہی دیس میں منزہ زندگی کرنے کے کتنے ہی خواب دیکھے ہیں ۔ ایک ست رنگی دھنک تخلیق کی جس میں سارے ہی خوش نما رنگ ہیں۔ ہائے ہائے دیکھئے نہ کتنا کوتاہ اندیش ہوں ، پرندوں کے نغموں سے لبریز فضاوں ، خنک اور شاداں مہکے سائیوں کا متلاشی ہوں۔ تارکینِ وطن کو بھگوڑے گردانتا تھا مگر کل عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں ہونے والے انسانیت سوز واقع نے تو سب توڑ پھوڑ دیا اور مجھے مایوسیوں کی دلہیز پر لا کھڑے کیا ہے سوچ رہا ہوں یہ جگہ تو انسانوں کے رہنے کے لئے نہیں ہے ۔ یہاں تو شہر شہر جنگل پھیل گیا ہے ، وہی جنگل جو بنجر پن ، خون خواری اور درندگی کا بلیغ استعارا ہے۔
؎ وہی اداسی ، وہی سفر ہے ، وہی درندے ، وہی خطر ہے
وہ جس میں اُ گنے تھے چاند تارے وہ شہر جنگل سے بھر گیا ہے

اور پھر ایسا ظلم کہ آواز اٹھانے پر بھی پہرے اور ہم ایسوں کو تو سرکار کا نوکر کہہ کر ڈرایا جاتا ہے۔ کیا سرکار کا نوکر دھڑکتے دل کے ساتھ گوشت پوست کا انسان نہیں ہوتا ؟ یا وہ ’’ دھڑکتے دل ‘‘ سے بحقِ سرکار دستبردار ہو جاتا ہے ؟ خیر ساری رات کی سوچ و بچار کے بعد فیصلہ یہ ہوا کہ میرے پیاروں کے تحفظات بجا ، میں فیس بک کو خیر باد کہہ دوں گا مگر ابتدائی مرحلے پر اس موذی کا استعمال کم کر دوں گا ۔ایسی لت لگی چھوڑے نہیں چھوٹے ہے ۔ چلئے آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ خاموشی اختیار کر لوں گا اور مان بھی لیا کہ ہر آواز ، ہر جذبہ ، ہر احتجاج لفظوں کے سانچے میں نہیں ڈھلتا ۔ کچھ آوازیں ، کچھ جذبے اور کچھ احتجاج آنسووں کا روپ دھار کے خاموشی کی زبان بھی بولتے ہیں ۔ مگر صاحبان ! صرف وہاں ، جہاں احساس کی سماعتیں زنگ آلود نہ ہوں ۔ صرف وہیں پلکوں کا یہ گونگا پانی اک گونج بن کر چاروں اور بکھرتا سنائی اور دکھائی دیتا ہے مگر یہاں احساس تو نا پید ہے۔
ویسے رفیع رضا بھی غلط نہیں کہتا۔
؎ میرے سہمے ہوئے لوگوں کو بتایا جائے
چیخ اُ ٹھنے سے بھی ماحول کا ڈر جاتا ہے
پیارو! آپ جو میرے لئے فکر مند ہیں آپ کی بے لوث محبتوں کا شکریہ اور ان سب حساس دھڑکنوں کا بھی مشکور ہوں جو ایک عرصہ میرے جلتے بجھتے لفظوں کے سُر تال پر دھڑکتی رہی ہیں ۔