خطوں کے اصل نام اور ان کی قدیم ثقافت

گل زیب خاکوانی

 

سکندر جب موجودہ ٹیکسلا میں وارد ہوا تو اُس علاقے کا نام ٹیکسلا نہیں تھا بلکہ تاریخ کے اوراق میں ٹَک شا سیلیہ تھا۔یعنی قدیم سنسکرت زُبان میں سِل یعنی پتھر کو تراشنے والے۔Takht Bahiسرائیکی میں لفظ (ٹَک) آج بھی تراشنے کے ہی معنٰی میں مستعمل ہے۔لیکن جب اس علاقے میں مقدونی آئے تو انہوں نے اس ترکیب کو اپنا لجہ دیا اور ٹک شا سیلیہ ٹیکسلا میں بدل گیا۔اسی طرح سندھو سندھ دریا کی وادی میں رہنے والے قدیم سندھو سماج کو ایران کے ساسانی حکمرانوں نے ہندو سماج کہا۔ اور سندھس ویلی کو پُرتگالیوں نے اپنے لب و لہجے میں انڈس ویلی کا نام دیا۔یہیں سے انگریزوں نے سندھیا سماج کو انڈیا کہا۔کیا یہ غضب نہیں کہ آج ہمارے اپنے نام حملہ آوروں کے لب ولہجے کی دین ہیں اور اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ ہم نے بھی انہی کو حرظِ جاں کررکھا ہے۔
ہمارے ہاں بہت سی جگہوں اور شہروں کے نام تک انگریزوں کی جنبش ِ لب کی زد سے محفوظ نہ ہوسکے۔ جہاں تک ناموں کی صوت کا تعلق ہے جو کثرتِ استمعال سے بگڑ جاتی ہے یا بن جاتی ہے یہ ایک اور بحث ہے۔ مگر ہمارے نام ہمارے قدیم عہد کی تاریخ کا حصہ ہوا کرتے ہیں۔جس میں زرہ برابر بھی ردوبدل کی جائے تو ایک تاریخ کے معنی خیز تاثر کو ختم کرنے کے مترادف ہوگا۔اب ملتان کو لے لیجے۔ قدیم سندھ سماج میں اسکا نام مہا ویل استھان ہوا کرتا تھا۔یعنی مہان عظیم لوگوں کی جگہ۔چونکہ ہندووں کی قدیم تاریخ میں ہرنا کشیپ اور اسکے موحد بیٹے پرہلاد اور اسکی بہن ہولکا رانی جسکی بابت سے ہندو اپنا ایک قدیم ہولی کا تہوار مناتے ہیں وہ اسی مہا ویل استھان کے باشندے تھے۔علاوہ یہاں آدیتیہ یعنی سورج کا ایک عظیم مندر بھی تھا۔اسی نسبت سے یہ مہا ویل استھان کہلایا۔جو بعد میں یہاں کے ہندو راجہ دیوان ساون مل کے بیٹے دیوان مول راج کی نسبت سے مول استھان بن گیا۔اور dsc00422اٹھارہ سو چھیالیس میں انگریزوں نے اسے (مول ٹھان) کہا۔اور مقامی لوگوں نے ( مولتھان) اور بعد میں مولتان اور پھر مُلتان میں رواج دیا۔اور اب کسی سے بن نہیں پڑتا کہ اسے دوبارہ کونسا نام دیا جائے۔کیونکہ اب یہ لفظ بظاہر مفہوم سے خالی ہے۔ ہمیں ازسرِنو یہ دیکھنا ہوگا کہ پاکستان اور بھارت میں بُہترے جگہوں اور شہروں کے نام ہیں جو مفہوم سے خالی ہیں۔ سابقہ ریاست بہاولپور میں زیادہ انگریزی سرکار کا عمل خل تھا یہی وجہ ہے کہ وہاں اکثر و بیشتر جگہوں اور علاقوں کے نام غلط العام ہیں۔جیسا کہ قلعہ دراوڑ ہی کی مثال سامنے ہے جسکے نام کو سن کر شبہ ہوتا ہے کہ آیا کہیں اسکا تعلق برصغیر پاک و ہند کی قدیم مقامی باشندوں دراوڑوں سے جُرا ہوا تو نہیں ہے۔؟ جبکہ ایسا ہر گز نہیں۔یہ قلعہ جسے ہم سرائیکی مقامی زُبان میں کوٹ ڈیراول کہتے ہیں آٹھ سو چونتیس عیسوی میں جسیلمیر کے حکمران راجہ دیو راول سنگھ بھاٹیہ نے تعمیر کیا۔بہاول پور گزٹ کے مطابق راول سنگھ بھاٹیہ کی پچیس نسلیں اس پر حکومت کرتی رہیں۔سترہ سو پچاس عیسوی میں بہاولپور کے عباسی حکمران نواب صادق محمد خان نے راول راے سنگھ بھاٹیہ المعروف راجہ آگھی سنگھ سے ایک جنگ کے دوران حاصل کیا۔ اور اسکی تعمیر کرائی۔تاہم چولستان روہی کے قدیم باشندے آج بھی اس قلعے کو اسی نام سے یاد کرتے اور پکارتے ہیں جو اسکا اصل نام تھا یعنی ( ڈیراول) ۔ جبکہ یہ ڈیرہ راول روانی سےپکارنے کے نتیجے میں (ڈیراول) بنا جسے انگریز نے انگلیسی لہجے کی بدولت مزید (ڈراور) کر دیا۔دوسری تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے چونکہ یہ علاقہ اپنی ثقافتی ، معاشرتی اور سیاسی اعتبار پر سندھ سے منسلک رہا ہے تاہم سندھیوں نے اسے اپنے مخصوص لب و لہجے میں ڈیراوڑ کہا۔
مگر سرایئکی اسے ڈیراور ہی پکارتے ہیں نا کہ (دراوڑ) یا ڈراور۔ مگر ہم تاریخ کی گواہی کو ایک لمہے کے لیے پسِ پشت ڈال دیں تو اتنا کافی ہے کہ مقامی روہیلا اسے ڈیراول ہی پُکارتا ہے یعنی کوٹ ڈیراول جو اسکا اصل نام ہے۔اب پیشاور ، پُشپا پورتھا یا خان بیلا ،خان البیلا ۔مگر ہمیں پہلے ہر لحاط سے معربی یلغار کا سامنا ہے۔ہماری ٹرمنالوجیز تک ناپید اور متروک ہوں گئی ہیں کم از کم اتنا تو ضروری ہے کے ہم اپنی جگہوں اور علاقوں کے قدیم ناموں کو جنہیں ہمارے اجداد نے پکارا ہو بحال کریں۔ شاید اس طرح ہم دوبارہ اپنی جنم بھومی اور اپنی تہذیب و ثقافت کی جانب لوٹ آئیں۔