جنگ مسئلوں کا حل نہیں خود ایک مسئلہ ہے

(مصطفی کمال)
برسوں پھلے جب ما ر ٹن لوتھر کنگ نے اپنی مشہور زمانہ تقریر ‘میرا اک خواب ہے’ فرمایا اور عدم تشدد پہ مبنی سیاسی تحریک کا آغاز کیا تو شاید بہت کم لوگوں کو یقین ھو گا کہ عدم تشدد پہ مبنی کوئی تحریک کامیاب ھو سکتی ہے – مگر آج دنیا کنگ کی عظمت کو سلام پیش کرنے کے ساتھ اس کے آفاقی اصولوں کو اپنا رہی ہے
برسوں پھلے جب ہندوستان کے عظیم رہنما مہاتما گاندھی نے عدم تشدد کا اپنا فلسفہ پیش کیا تو بھی لوگ شش و پنچ میں پڑ گئے – مگر آج ‘گاندھی گیری’ نصاب کا حصہ ہے- اور دنیا بھر کے امن پسند گاندھی کے مقلد ہیں
بات جب بھی امن کی ہوتی ہے تو پھر کچھ رویےّ، کچھ عادتیں اور سوچ کے دھا رے تبدیل کرنے کی ضرورت وتی ہے- امن ایک ارتقائی عمل ہے جو کہ صبر اور برداشت کا متقاضی ہے- امن انقلابی عمل ہر گز نہیں ہے اور نہ کبھی رہی ہے

جنگ بدقسمتی سے ایک پیچیدہ حقیقت ہے- جنگ کے خاتمے کے لیے بہت سا رے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے- پہلا کام زبان اور اسکی استعمال سے متعلق ہے- ہمیں اپنے زبانوں سے ان الفاظ کا خاتمہ کرنا ھو گا جو کہ نفرت اور تشدد پھیلانے کا باعث بن جا تے ہیں- ‘خونی انقلاب’ اور ‘سرعام پھانسی ‘چڑھا نے جیسے الفاظ کا استعمال معاشرے میں اور بالخصوص جوانوں میں نفرت اور انتقام کا جذبہ ابھارتے ہیں
دوسرا قدم ان شخصیات اور تنظیموں کے خلاف اٹھانے کی ضرورت ہے جو صرف طاقت کو ہی اثاثہ سمجھتےہیں، اور صرف اس لیے طاقت کا حصول چاہتے ہیں تا کہ وہ اس طاقت کو استعمال کر کے دوسروں پر اپنا تسلط برقرار رکھ سکیں
انسانی نفسیات کے بہتر سماجی کردار کی نشوونما ایک ایسا میدان ہے جس پہ کا م کرنے کی شدید ضرورت ہے- ہمیں انسانی فطرت کے بارے میں لوگوں کا نقطہٴ نظر بدلنا ھو گا- انسان کے بارے میں یہ نقطۂ نظر ترک کرنا ھو گا کہ وہ صرف جنگ کی صورتحال پیدا کر سکتا ہے- جنگ کا حصہ بن جاتا ہے اور پھر جنگ کی غذا بن سکتا ہے- بلکہ انسان ایک بڑا موسیقار، ایک عظیم شاعر، ایک مصور، ساینسدان اور فلسفی بھی بن سکتا ہے، اور یہی انسانیت کی آخری منزل ہے اور ہونی چاہیے
لوگوں کے مابین باہمی رابطے بڑھانے کی جتنی اہمیت اب ہے، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا- ہمارے درمیان غلط فہمیاں ہمارے بیچ رابطوں کے فقدان کی وجہ سے بڑھ جاتے ہیں- بین المذاھب مکالمے اپس کے غلط فہمیوں کو دور کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں- تقلید کی بجاۓ تنقید کی روش کو اپنانا ھو گا- تقلید ہر اس شخص کی جو رنگ، نسل، زبان اور مذھب سے بالا تر ھو کر نسل انسانی کی فلاح کے لیے سوچے اور تنقید ہر اس شخص پہ جو اپنے خود ساختہ مقاصدکے حصول کی خاطر مذھب، رنگ، نسل اور زبان کی بیساکھی استمعال کریں- ایسی تمام شخصیات کو رد کرنے کی ضرورت ہے جو کہ ارض خدا پر بندگان خدا کے مابین فساد کا با عث بن جاتے ہیں
بدقسمتی سے مذہب کے اندر فلسفے کی حوصلہ شکنی کی گئی- منطق کی مخالفت نے فروھی اختلافات کو جنم دیا- تحریر سے مخالفت کا جواب دینے کی بجائے تلوار سے جواب دیا جانے لگا- یہاں مجھے رہ رہ کے مذہب کے دو بڑے علما کی بحث یاد آتی ہے جب ایک عالم دوسرے سے کہتا ہے “میں کہتا ہوں کہ اپنی بات ثا بت کر مگر تو جواب میں خنجر نکا ل لیتا ہے-” فلسفے کی تجدید وقت کا اہم تقاضہ ہے- نوجوانوں کو ان علوم اور شخصیات سے متعارف کرانے کی ضرورت ہے جنہوں نے فقی مسائل کی بجائے امن، برداشت اور حلیمی کے آفاقی تعلیمات کا درس دیا- مسخ شدہ تاریخ پڑھنے کی بجائے حقیقی تا ریخ کو کھنگالنا ھو گا اور فقہی علما کی بجائے ان علما کی جانب مڑنا ھو گا جنہیں آج تک ملحد سمجھا گیا اور جن کے تعلیمات کو بدقسمتی سے کسی بھی وقت نصاب میں شامل کرنے کی زحمت محسوس نہیں کی گئ جیسے کہ ابن رشد، ابن عربی، عمر خیام، ملا صدرہ، رومی اور اس قبیل کے دوسرے حضرات
“زمین سلامت بھچیکو ای وجہ ہایا- محترم انسان دنیاری کم نومہ بونی”- کھوار ادب کے مشہور صوفی شا عر کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ زمین سلامت رہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انسانیت کا درد رکھنے والے لوگ اب بھی کائینات میں موجود ہیں- سانحہ چیلاس میں وہ لوگ جنہوں نے اپنی جان داؤ پر لگا کر بے گناہ لوگوں کی جن بچائ، وہ انسانیت کا درد رکھنے والے عظیم لوگ تھے- اس طرح کے لوگ کسی بھی معا شرے کے روشن ستارے ھو تے ہیں جن کے وجود سے انسانیت اپنے وجود کا احساس چیخ چیخ کر دلا دیتی ہے- اور اس بات کا یقین بھی دلا تی ہے کہ ظلم و بر بر یت کے اندھیروں میں اب بھی روشنی کے کچھ چراغ ٹمٹماتے ہیں جو کہ پیروکاران امن اور محبت کو حقانیت اور سچائی کا راستہ دکھا لینگے- ایسے عظیم انسان دوست لوگوں کی قدر اور ان کی حوصلہ افزائی معاشرے کے ہر فرد پہ لازم ہے
امن ایک سادہ سا عمل نہیں ہے- یہ ہر اس شے کا متقاضی ہے جو ہما رے پاس ہے- مکمل طاقت، تمام خواب،تمام
توانائی، مکمل ترجیحات ، منظم منصوبہ بندی اور مسلسل کوشش