جاگتے رہنا، پارلیمنٹ پر نہ رہنا :وہی تکرار، وہی چالیں

13305229_10209026357072062_5366938990244504187_o 
 نعیم بیگ

کئی ایک دنوں سے کچھ لکھنے کی سعی لاحاصل میں مبتلا ہوں ، چند سطریں لکھتا ہوں ، دوبارہ پڑھتا ہوں اور غیر مطمئن ہو کر یک جنبشِ کِی بورڈ  ڈیلیٹ کر دیتا ہوں۔ ایک وقت تھا گھنٹوں دوستوں سے اس بات پر مباحث ہوتی تھی کہ اردو تحریر میں الفاظ و بیاں کی حرمت اور زباں کی پاکیزگی و شفافیت پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو سکتا اور اب یہ عالم ہے ’کہ ان فرنگی الفاظ کو شرحِ بیانیہ یا منطوق میں اگرممنوع کر دیں تو تفہیم کہیں دور سائبیریا کے میدانوں میں جا نکلے گی اور قاری کے نقطہِ نظر سے مشکل پسندی کے مرتکب پائے جائیں گے ، سو تقاضہِ وقت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس’ دقیانوسی آدابِ زباں‘ سے صرفِ نظر ہی کرنا بہتر ہے، ’تحاریر کو دیگر زبانوں کے الفاظ سے آلودہ کرکے کاک ٹیل کی طرح پیش کر نا موجودہ دور میں عین عبادت سمجھ لیا جائے ‘ ۔ وجہ صاف ظاہر ہے دیگرسماجی و ثقافتی و تمدنی آداب بھی تو اسی زوال کا حصہ ہیں ۔ ستیا ناس ہو اس ’عالمی گاؤں‘ کے پھیلتے ہوئے عفریت کا، جس نے سبھی عالمی زبانوں کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے جہاں انکے مشترکہ الفاظ استعمال کئے بغیر عصری بیانیوں کو رقم کرنا ایسے ہی جیسے آپ اکیسویں صدی میں رائٹ برادران کے لمبے پروں والے جہاز میں پرواز کا خمیازہ بھگتیں ۔

ازحد معذرت ، تمہید کہیں سے کہیں جا نکلی، عرضِ فہوالمراد یوں ہے ( یہ الفاظ ہیں کہ قلم سے خودبخود پھوٹتے ہیں راقم انہی لوگوں کی طرح ’بے قصور‘ ہے جن کا ذکر خیر اس مکالمہ میں ہے ) کہ سماجی سطح پر موضوعاتی تنوع اس قدر وسیع و عریض رقبے پر پھیلے ہوئے، دماغی نیورونز کو اتھل پتھل کئے رکھتے ہیں کہ ’لالچی طوطے کی طرح پیڑ کے ہر امرود کو ٹھونگنا اور اِسے ناقابلِ استعمال کرنا لازم ہو جاتا ہے‘۔ پھل کی بربادی اپنی جگہ، لیکن نوح انسانی کی نفسیاتی رویوں کو جس قدر نقصان یہ طوطا پہنچاتا ہے کوئی اور پرندہ اس لائق کہاں؟

آمدم بر سرِ مطلب ۔۔۔ وجہ تمہید صرف ایک تھی کہ’ موضوعات کی تکرار ، وہی بکھیڑے ، وہی سیاسی چالیں، وہی متشدد اور ظالمانہ طالبانی حملے اور سینکڑوں انسانی جانوں کا یوں بے دریغ اور وحشیانہ قتلِ عام ۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا گزشتہ کئی ایک ماہ کی ریاستی و حکومتی ’سعی لاحاصل ‘کے باوجود ‘۔ کہیں کہیں یہ خبر آجاتی ہے کہ کون بچائے کا پاکستان؟ پی ٹی آئی سے نون اور پھر متحدہ، لاتعلقی یا مضبوط رابطہ ؟ کسے خبر نہیں کی اخباروں کی سرخیاں اور اداریئے آپس میں کوئی ربط نہیں رکھتے؟

خودکشیوں پر مبنی میڈیا کی رپورٹنگ دن بہ دن تعداد میں اضافہ دکھا رہی ہے۔ افلاس، غربت ، تعلیمی کسمپرسی، جہالت اور ذہنی پسماندگی اپنی جگہ، لیکن زیادہ تر خودکشیوں کی وجہ مالی وسائل کی کمی سے بڑھتا ہوا نفسیاتی دباؤ اور بے غیرتی کی حد تک غیرت مند انسانوں کا یہ مخصوص ہجوم جو کسی طرح بھی نہ خود جیتا ہے اور نہ کسی اور کو جینے دیتا ہے۔

ایسے حالات میں جملہ اربابِ اختیار و اقتدار عوام کے سامنے اپنی کارکردگی کی نت نئی خوبصورت تصویریں کروڑوں کے اشتہاروں میں پیش کر رہے ہیں۔ اربوں اور کھربوں کا مال یوں ادھر سے ادُھر ہو رہا ہے جیسے وہ کسی پرہجوم انٹرنیشنل گودام میں بیٹھے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ملت و قوم کو انفرا سٹکچرمہیا کیا جا رہا ہے۔ چلیئے یہ بھی دیکھے لیتے ہیں۔ کب تک جھوٹ اور منافقت سے کاروبارِ مملکت چلا پائیں گے۔ یہ مصنوعی باندھے جانے والے بند ایک دن یوں دگرگوں حالات کی اٹھتی لہروں کے سامنے بھک سے اڑ جائیں گے کہ دیکھنے والے ششدر رہ جائیں گے۔ یہ بات میں نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ مملکت کی جمہوریت پر قائم اس اسمبلی کے چند ممبران کہہ رہے ہیں جسے ہم قومی اسمبلی کہتے ہیں۔

جمہوری اقدار کے رکھوالے ، پارلیمنٹ کی حرمت اور عزت کے پاسداران ممبران آدھے سے زائد تو اسمبلی میں سرے سے غائب رہتے ہیں اور جو حاضر ہوتے ہیں ان کی حالت کسی ایسے مونسپل کمیٹی کے ارکان جیسی ہوتی ہے جس کی کسی درخواست پر متعلقہ مجسٹریٹ کی منظوری اسکی قسمت بدل دیتی ہے۔

کبھی کبھی تو مجھے یوں لگتا ہے کہ غلام عباس کے افسانے ’’ انندی‘‘ کے فسوں میں ڈوبی اُس قصبہ کی اسمبلی کہیں مضبوط اور توانا تھی جسے طوائفوں کو قصبہ سے باہر نکالنا درکار تھا اور وہ بڑی آسانی سے اس میں کامیاب بھی ہو جاتی ہے۔ ہماری موجودہ اسمبلی ایک بھی ایسا بل سامنے لا کر دکھائے کہ ان بیسواؤں کی قسمت کا فیصلہ انکی مخصوص بستیوں میں ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان بستیوں کو بسائے کون؟ وہ بیسوائیں یا کوئی ملکی قانون؟
یہاں عالم یہ ہے کہ سی ۔ پیک ہو یا مشرقی اور مغربی سرحدوں کا معاملہ ، بابِ خیبر ہو یا بابِ چمن ، بین القوامی سرحدوں پر تجارت ہو کہ قومی ترقیاتی منصوبوں کا بنیادی سٹکریکچر ، کیا مجال کہ جمہور کے رکھوالے ان موضوعات کو شرف قبولیت گفتگو بخشیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اسمبلی بولنے کا حق

خود رکھتی ہے نہ کسی کو اجازت دیتی ہے؟ ۔ کوئی ممبر یہ کھڑے ہوکر نہیں پوچھتا کہ ہم نے جو کچھ پہلے کہا تھا وہ کیا ہوا؟

کیا یہی وہ جمہوریت کی شان ہے جسے حکمران سر سے اوپر ٹرافی کی طرح اٹھائے پوری دنیا کو دکھا رہے ہیں۔ ایک ادارے کے بل بوتے پر جو چاروں طرف تلوار لئے سرگردان ہے، کبھی مشرق، کبھی مغرب کبھی اندر کبھی باہر ، مسائل کی ایک طویل فہرست ان کے ہاتھ میں تھما دی گئی ہے تاکہ اِس کا رہا سہا ’ ساں ست‘ یونہی نکل جائے ۔ تو بہتر ہے۔ کورٹ چیخ رہی ہے مردم شماری میں انکا کیا کام؟ لیکن کیا مجال کہ کان پر جوں رینگے۔ یادش بخیر، اس مقتدرہ اور جمہوریت کی دلدادہ اسمبلی کے بارے میں میری رائے محمود خان اچکزائی کے اس بیان پر مزید تقویت آشنا ہوئی تھی جب انکے ایک بیان کی اشاعت پر جنگ نے ایک خوبصورت کارٹون پیش کیا گیاتھا ۔

اسمبلی سے اس خطاب میں انہوں نے جہاں اور بہت کچھ کہا تھا ایک بات انتہائی قابلِ غور کہی وہ یہ کہ ’’ جاگتے رہنا ۔ پارلیمنٹ پہ نہ رہنا ‘‘
دوسرے لفظوں میں حکومت کے کرتا دھرتا ممبران کی بے توقیری کے جو شاخسانے اور ڈانڈے کہیں دور جنگلوں میں چھپے بھیڑیئے نما وحشی جانوروں سے جا ملتے ہیں، وہیں اس میں کچھ ارکان کے اپنے تیز ناخن والے پنجے بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ اگر واقعتاً چند ایک دیگر عوامی نمائندے کسی ادارے کی حسابی غلطی سے یہاں آن پہنچے ہیں تو وہ بلامبالغہ اپنے سچ کو کہیں چھپا نہیں سکتے اور یہی وجہ ان کے اظہار میں ہے۔
اس بیان سے موجودہ اسمبلی کی حیثیت اور اسکی مقتدرہ قدرت و رتبہ کا آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اور اسکی صاف وجہ حکمران سیاسی پارٹی کی اپنی ’حرمت و عزت‘ ہے جس کے بنیادی سیاسی عزائم کسی سے پوشیدہ نہیں۔ انکا منتہٰی منشا صرف اقتدار اور انتقام ( جس سے فی الواقع انہوں نے ہاتھ روک لیا ہے ) اور اپنے ماضی میں ہونے والے کاروباری مالی نقصانات کو بمع سود وصول کرنا ہے۔ جسے وہ بہ احسن و خوبی سر انجام دے رہے ہیں۔

About نعیم بیگ 145 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔