تعلیمی اداروں میں لائبریری کلچرکا زوال

(تبصرہ نگار: یاسر اقبال)

(یاسر اقبال) 

کتب خانہ وہ عمارت ہے جس میں قارئین کے لیے کتابی و غیر کتابی مواد منظم طور پر مہیا کیا جائے ۔ اس قسم کے کتب خانے زمانہ قدیم سے موجود ہیں۔جب فن طباعت کا رواج نہیں ہوا تھا ۔تو کتب کی فراہمی پر بے انداز روپیہ صرف ہوتا تھا۔کتب خانے ہر قوم کے عمرانی، libraryاقتصادی، سیاسی،مذہبی،لسانی،ادبی،سائنسی و فنی ارتقاء میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں،چونکہ ان کا مقصد محفوظ شدہ معلومات کی تحصیل ،حفاظت،ترتیب،تنظیم اور اسے جویان علم کی رسائل کے قابل بنانا ہے۔دنیا کا سب سے پہلا کتب خانہ کہاں قائم ہوا؟اس کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔تاہم یہ بات یقینی ہے کہ جس جگہ انسانی تہذیب نے سب سے پہلے جنم لیاوہیں پہلا کتب خانہ وجود میں آیا۔بعض مفکرین کے مطابق بنی نوع انسان نے پہلے پہل مصر اور عراق میں حقیقی تہذیب حاصل کی چنانچہ ان ہی علاقوں میں قوت کی تنظیم ہوئی اور دولت جمع کی گئی اور فنون میں مہارت پیدا کی گئی۔جب ہم تاریخ عالم پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہر ملک کی تاریخ کے ساتھ ساتھ اس ملک کے کتب خانوں کا بھی ایک مکمل تاریخی پس منظر ہمارے سامنے آتا ہے۔
بعض کتب خانے تو کئی مرتبہ تباہ ہوئے اور پھر آباد ہو گئے اور کچھ عالیشان کتب خانے اتنی بری طرح تباہ ہوئے کہ دوبارہ آباد نہ ہو سکے۔تاریخ کے مطالعہ سے کتب خانوں کی بنیاد ڈالنے اور انہیں زندہ رکھنے میں جو کردار مسلم اقوام کا تھا وہ کسی اور کا نہیں تھا۔ایک دور ایسا بھی آیا اور آکر گزر گیا جس میں سب سے بڑے کتب خانے مسلم اقوام کے پاس تھے۔یہ وہ دور تھا جب یورپی ممالک کے لوگ اندلس کی مسلم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے آیا کرتے تھے اور ان کے کتب خانوں سے مستفیدہوتے تھے۔آج یہ وقت آ گیا ہے کہ مسلمان نہ صرف دوسرے شعبوں میں بلکہ تعلیمی اعتبار سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں۔یورپی ممالک اور امریکہ کہ لوگ علوم و فنون کے میدان میں بہت آگے نکل چکے ہیں،چنانچہ آج یورپی ممالک اور امریکہ کے کتب خانے نہ صرف علمی بلکہ فنی اعتبار سے بھی قابلِ رشک مقام پر پہنچ گئے ہیں ۔ جب تک مسلم ممالک جو کسی دور میں علم کے اہم مراکز سمجھے جاتے تھے جہاں لوگ دور دراز کے ممالک سے آکر اپنی علمی پیاس بجھایا کرتے تھے۔ اب ان ممالک کے کتب خانوں کی حالت غیر تسلی بخش ہی نہیں بلکہ نا گفتہ بھی ہے۔پاکستان بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔پاکستان بلاشبہ ایک ترقی پذیر ملک ہے ۔جہاں صرف یونیورسٹی لائبریریوں اور چند پبلک کتب خانوں کو فنی لحاظ سے تسلی بخش کہا جا سکتا ہے لیکن ان کتب خانوں کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔
’’پاکستان کے تعلیمی اداروں میں لائبریری کلچرکا زوال‘‘ایک ایسا المیہ ہے جس کی کئی وجوہات ہیں ۔جن میں ایک اہم وجہ تربیت یافتہ لائبریرین کی کمی اور ضروری سازوسامان کی کمی کی وجہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قارئین ان کتب خانوں سے پوری طور پر استفادہ نہیں کر سکتے۔ثانوی مدراس میں اول سے آخر تک سو فیصد کتب خانوں کی حالت نا گفتہ بہ ہے۔
بالعموم ثانوی سکولوں میں معلم ہی بطور ناظم کتب خانہ کام کرتے ہیں،ایسے معلم ناظمین کتب خانہ جات عام طور پر کتابیں طلباء کو جاری کرنے سے اس لیے احتراز کرتے ہیں کہ گم ہونے کی صورت میں وہ نقصان کے ذمہ دار گردانے جائیں گے۔اس صورتحال کی وجہ سے کتب خانے اور قاری کے درمیان ہمیشہ کے لیے ایک نہ ختم ہونے والا فا صلہ رہ جاتا ہے۔ کیونکہ لائبریری کلچر تبھی فروغ پاتا ہے جب قاری اور کتاب کا تعلق جڑا رہے۔جب تک کتب خانوں کو کار آمد نہیں بنایا جائے گا تعلیمی ترقی میں ہم آگے نہیں جا سکتے۔ہمارے ہاں ایک اور خیال جو لائبریری کے حوالے سے فروغ پا رہا ہے وہ یہ ہے کہ انٹرنیٹ کی سہولت جب موجود ہے تو لائبریری میں کتاب جا کر پڑھنے کا کیا فائدہ؟
یہ بات کسی حد تک تو درست ہے لیکن انٹرنیٹ تک رسائی سب کے لیے ایک جیسی نہیں ہوتی دوسرا انٹرنیٹ کا استعمال کتاب کے استعمال سے زیادہ مہنگا ہوتا ہے ۔انٹرنیٹ کے استعمال میں توجہ ایک ہی موضوع پر مرکوز نہیں رہتی۔خصوصاََ نوجوان قارئین اکثر پروفیشنل طور پر انٹرنیٹ کا استعمال نہیں کررہا ہے۔لہٰذایہ بات کہنا درست نہیں کہ انٹرنیٹ کے وجود میں آنے سے لائبریری کلچر گر رہا ہے ۔کیونکہ آج اُن ممالک میں دنیا کہ سب سے بڑے کتب خانے موجود ہیں جہاں کمپیوٹر اور انٹر نیٹ جیسی ٹیکنالوجی نے سب سے زیادہ فروغ پایا۔امریکہ میں1801ء میں قائم ہونے والی دنیا کی سب سے بڑی لائبریری”لائبریری آف کانگرس”آج بھی قارئین کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔دوسرے نمبر پر برطانیہ کی لائبریری جسے برٹش میوزیم کہا جاتا ہے وہ آج بھی قارئین کی علمی پیاس بجھانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ ان ممالک کے قارئین میں ابھی تک ’’کیوں ہے؟کیاہے؟اورکون ہے؟‘‘جیسے سوالات جاننے کی جستجو باقی ہے اور دوسرا ان ممالک کے کتب خانوں کا عملہ تربیت یافتہ ہونے کی وجہ سے پروفیشنل تکنیکوں کا استعمال کر کے لائبریری کلچر کو فروغ دے رہا ہے اور ہمارے ہاں کتب خانوں کوکسی قدیم تہذیب کے کھنڈرات کے طور پر لیا جاتا ہے۔
جیسا کے لائبریری کو قارئین کے لئے کارآمد بنانے میں کتابوں کی کلاسیفکیشن اور کیٹلاگ سازی بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کیٹلاگ کاتصور بہت قدیمی ہے۔انسانی تہذیب کے قدیم ترین کتب خانوں میں بھی لائبریری کیٹلاگ کسی نہ کسی صورت میں موجود رہا ہے۔Catalogue دراصل یو نانی زبان کا لفظ ہے جوkataاورLogos کا مرکب ہے۔kata کے معنی”According”یا “by”جبکہ Logosسے مراد”Order” “Words”Arrangmentیا Reasonلیا جاتا ہے۔یعنی Catalogueکا مطلبAccording to order یا ترتیب کے مطابق لیا جاتا ہے۔عام طور پر کیٹلاگ کو کتابوں کی ایک فہرست تصور کیا جاتا ہے۔جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے لائبریری کیٹلاگ کا مفہوم سمجھنے کے لئے چند اہم تعریفیں درج ذیل ہیں۔
1: ’’لائبریری میں موجود ہر قسم کی ایسی باقاعدہ فہرست جس میں مواد کے کوائف،مندرجات کو ایک مخصوص نظام کے تحت ترتیب سے بیان اور مرتب کیا جائے۔جس کی مدد سے قارئین مواد کو دیکھے بغیر کیٹلاگ کارڈ کو دیکھ کر ہی اپنے مطلوبہ مواد کے بارے میں جان سکیں‘‘
Gean key gates
2:”A library Catalogue is a list of books which is arranged on some definite plan as distinguised from a bibliography, It is a list of books in some library or collectiion”
(C.A Cutter)
ماہرین علم کتب خانہ کی درجہ بالا تعریفوں کی روشنی میں ہم کیٹلاگ کی تعریف یوں کر سکتے ہیں۔
“A library catalogue is a list of books and other like material an the holding of library or a groupof libraries and arrangment in a systematic order”
چنانچہ کیٹلا گ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔تاریخ شاہد ہے کہ کتب خانہ اور کیٹلاگ ہمیشہ لازم و ملزوم رہے ہیں۔اس کا وجود ہزاروں سال قبل مسیح میں بھی پایا جاتا تھا۔اس وقت جب لکھنے کا مواد بہت کم تھا اس وقت دیواریں کیٹلاگ کا کام دیتی تھیں۔وقت کے ساتھ ساتھ کیٹلاگ کی شکل و صورت میں تبدیلی آ گئی۔اور آج پڑھنے والے کے لیے بہت سی سہولیات کا باعث ہے۔
کیٹلاگ کتب خانہ کی کلیدی حیثیت رکھتا ہے یعنی اس کے استعمال ہی سے کتب خانہ کا دروازہ کھل سکتا ہے۔جس طرح خزانہ مقفّل ہو اس کی چابی موجود نہ ہو تووہ خزانہ بیکار ہے اسی طرح وہ لائبریری بھی بیکار ہے جس میں کیٹلاگ موجود نہیں۔
موجودہ دور میں جبکہ کتابی اور غیر کتابی مواد کا ایک سیلاب امڈ رہا ہے اور کتب خانوں کا مقصد ہی عوام کی علمی اور تفریحی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔ دور حاضر میں کتب خانوں میں پڑھنے کیلئے بے شمار کتب و رسائل موجود ہیں لیکن مطلوبہ مواد تک قاری کو پہنچانے کے لیے اگر لائبریری میں کیٹلاگ کی سہولت نہیں تو قاری ایسی لائبریری سے اکتا جائے گا کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ لائبریری کی تمام کتب میں سے اپنی مطلوبہ کتاب ڈھونڈسکے۔اسے ایک ایسے وسیلے کی ضرورت ہوتی جس کا استعمال کر کے بغیر کسی مشکل کے اپنی کتاب حاصل کر سکے۔کیٹلاگ ہی قاری کو یہ سہولت فراہم کرتا ہے۔جس سے قاری کے نہ صرف وقت کی بچت ہوتی ہے بلکہ وہ تھوڑے وقت میں لائبریری میں موجود مواد کو پرکھ لیتا ہے۔کیٹلاگ کی مختلف اقسام جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:
Card-catalogue,Sheaf-catologue,Book form ,on Line catalogue,Microforms catalogue
لائبریری کے گرتے ہوئے کلچر کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ لائبریریوں میں کیٹلاگ سازی اور Classification کی عدم موجودگی بھی ہے۔کیونکہ لائبریری صرف کمرے کو کتابوں سے بھرنے کا نام نہیں۔دور حاصر میں قارئین پڑھنے کے لیے لائبریریز کی بجائے انٹرنیٹ سے رجوع کرتے ہیں کیوں کہ وہاں پر وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ قاری جلد ہی اپنے مطلوبہ مواد تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔لیکن انٹرنیٹ کا استعمال کتاب کے مقابلے میں زیادہ سہولت یافتہ اور دیر پا نہیں ۔تاریخ گواہ ہے کہ معاشروں کو تہذ یب بنانے میں کتب خانوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔آج انسان کا شعور پستی کی طرف اس لئے جا رہا ہے کہ معلومات حاصل کرنے کی جستجو ختم ہوتی جا رہی ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ ہمارے ہاں جو کتب خانے قارئین کی عدم دلچسپی کا شکار ہیں انھیں قارئین کی دلچسپی کا مرکز بنایا جائے۔ طلباء کے اندر نصابی کتب کے ساتھ ساتھ غیر نصابی کتب کو پڑھنے کا ذوق بھی پروان چڑھایا جائے۔تاکہ نظریاتی طور پر نہیں بلکہ عملی طور بھی ہم یہ ظاہر کر سکیں کہ کتب خانے کسی بھی ملک کی معاشرتی ،ثقافتی ضروریات کے ساتھ ساتھ تعلیمی ضروریات پوری کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں تاکہ ہم پھر سے اپناکھویا ہوالائبریری کلچر حاصل کر سکیں۔