ایک خط بحضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم 

مسلمانان وقت کا نوحہ

مصنف کی تصویر
سھل شعیب ابراہیم

(سھل شعیب ابراھیم)

پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم!

ربیع الاول کی خوش کن ساعتیں ظہور پذیر ہو چکی ہیں۔مرحبا مرحبا کی صدائیں گونج رہی ہیں۔کچھ عرصہ پہلے تو بارہ ربیع الاول کے مقررہ یوم ہی عید میلاد النبی کے جلوس برآمد ہوتے تھے مگر اس سال تو آمد ربیع الاول کے استقبالیہ جلوس بھی برآمد ہوۓ ہیں۔تقویم کے ایک مختلف پڑاؤ  پر ایک اور مکتب فکر کے جلوس بھی بکثرت برآمد ہوتے ہیں۔اگر ان برآمدات کا گوشوارہ مرتب کیا جاۓ تو مذہبی اقتصادیات دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتی نظر آتی ھے۔

پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم!

میں خط لکھ رہا ہوں کہ یہ بھی آپ کی سنت کریمہ ھے۔میں آپ سے تخاطب کی جسارت کر رہا ہوں کیوںکہ  آپ غم کے ماروں کی بات سنتے ہیں۔آّ پ سے ذرا کھل کے بات ہو سکتی ھے کہ آپ نے صحابہ کرام کو سوال اٹھانے سے کبھی نہیں ٹوکا اور مکالمہ کو رواج دیا۔اگرچہ اب “امت شہ لو لاک” سے خوف ضرور آتا ھے کہ سماعتوں میں رواداری مفقود ھے اور مکالمہ میں تحمل عنقا ۔آپ کے اسم پاک کی حرمت  پہ میری جان و مال فدا،خدا لگتی عرض کرتا ہوں کہ آپ کے نام لیواؤ  نے آپ کے اسوہ کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کر لیا ھے۔ کسی نے توحید ،کسی نے جہاد،کسی نے تصوف ،کسی نے عشق ،کسی نے قرآن ،کسی نے حدیث  اور کسی نے قیام خلافت کے نام پر دکان چمکائ۔ہاں توجہ نہیں دی تو صرف “صادق اور امین” کے پہلو پر ۔یہاں جس نے بھی جہاد کی چھابڑی لگا‏ ‏ئ۔ازحد سرخرو ہوا ھے۔اگرچہ لعین و مردود امریکہ کی بے وفائ اور آنکھیں  پھیر لینے سے یہ کاروبار  زیادہ منافع بخش نہیں رہا ۔جہاد تو عمر بھر کی مساعی جمیلہ سے عبارت ھے۔آپ کی مثالی  زندگی  تو عظمت کا راز منظم فکری اور عملی جدوجہد میں بتاتی ھے مگر کچھ سہل طلب  تفکر سے جان چھڑاتے ہو ۓ جہاد سے متعلقہ ارشادات سے سطحی نتائج اخذ کرتے ہیں اور اس پر گرما گرم خطابت کا دیسی تڑکا لگاتے ہیں جو اس قدر جذبات انگیز ہوتا ھے کہ نئ نسل آؤ دیکھتی ھے نہ تاؤ،اپنے اندر محمد بن قاسم اور طارق بن زیاد کی روح سمو لیتی ھے۔”مومن ھے تو بے تیغ بھی لڑتا ھے سپاہی” پر عمل کرتے ہوۓ تلوار نہیں اٹھاتے ،کسر نفسی سے کام لیتے ہوۓ خودکش جیکپ پہن لیتے ہیں۔ہاں البتہ ان کے ہاں مساوات کی روش قابل رشک ھےکہ مسجد ہو یا کلیسا،دینی مدرسہ ہو یا انگریزی سکول،خانقاہ ہو یا بازار،پلے گراؤنڈ ہو یا جنازہ گاہ،سول دفاتر ہوں یا آرمی ہیڈ کورارٹرز،یہ سب کو بلا امتیاز ٹارگٹ بناتے ہیں اور جہنم رسید کرتے ہیں۔

پیارے آقا۔۔۔۔۔آّپ کا اعجاز تو یہ ھے کہ آپ نے استحصالی (فرعونی ،ہامانی،قارونی)  قوتوں  سے پاک معاشرہ کا تصور دیا ۔سود خور سرمایہ دار کی معاشی جبریت و معاشی ارتکاز پر کاری ضرب لگائ۔آپ نے ایسے خطہ زمین پر جہاں نراج یعنی لا حکومتی کی حالت رہتی تھی،ایک مرکز کا تصور دیا۔ایک قبلہ کی صورت روحانی مرکز اور مدینہ منورہ میں معاشرتی و سیاسی مرکز قائم کیا۔حیرت کی بلندی آپ کی ذات گرامی میں  اوصاف حمیدہ اور کمالات حسنہ کا اجتماع ھے جو آپ کو بیک وقت بے مثل و بے نظیر مفکر و حکیم،ہادی و راہنما،مصلح و معلم،مدبر و سپہ سالار،ماہر معاشیات و اخلاقیات  کے طور پر سامنے لاتے ہیں۔ آج کی نسل اگر حاضر و ناظر،علم غیب،نور و بشر کی مباحث سے نکل کر اردو سیرت نگاری کے اہم ستون سید سلیمان ندوی کے “خطبات مدراس”کو کشادہ ظرفی سے پڑھ سکے تو ہمارے علمی رویوں میں موجزن جہل کا کچھ مداوا ہو سکتا ھے۔

مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ آپ کو کس منہ سے لکھوں کہ ہمارے کرتوتوں کی وجہ سے عالم مغرب میں اسلام کا چہرہ مسخ ہوا ھے۔جہاں کہیں سے دہشت گردی کی خبر آتی ھے ،کھٹکا لگتا ھے کہ اس کا سہرا کسی نہ کسی اہل ایمان کے سر سجے گا اور پھر ایسا ہی ہوتا ھے۔دوسری طرف  خوش فہم صالحین اس بات پر خوش ہو جاتے ہیں کہ مغرب کی ترقی ان کتب خانوں کا ثمر ھے جو اندلس میں مسلمانوں نے قائم کیۓ تھے یا پھر مغرب نے سوشل ویلفیئر اسٹیٹ کا تصور حضرت عمر فاروق سے لیا ھے اور پھر اسی اثنا میں کوئ واعظ اٹھتا ھے اور کہتا ھے کہ اسلام مغرب کا سب سے زیادہ پھلتا پھولتا مذہب ھے۔اب یہ کثرت اولاد کی کاوشوں کا ثمر ھے یا مبلغین کی مساعی کا نتیجہ۔۔۔۔۔کچھ واضح نہیں

پیارے آقا۔۔۔ آپ کی سیرت پڑھتے ہوۓ آپ کا عظیم اخلاق ہمارے لیۓ مشعل راہ بنتا ھے۔حسن خلق کی غیر معمولی اہمیت کا اندازہ اس حدیث مبارکہ سے لگا یا جا سکتا ہے کہ”ایمان میں کامل وہ ہیں جن کے اخلاق زیادہ حسین ہیں”۔اخلاقی اقدار در اصل جمالیاتی اقدار ہیں ۔یہ ارشاد کہ خدب حسین ھے اور حسن سے محبت رکھتا ھے ،انہی جمالیاتی اقدار کا سرچشمہ ھے۔رحمان و رحیم کی صفات حسنہ کو اپنے اندر پیدا کرنا ہی اخلاق کی معراج ھے  ۔آپ نے حسن اخلاق کو بھلائ و نیکوکاری کا معیار قرار دیا ھے۔  کیا میرے آقا ۔۔۔۔۔۔پیغمبر اور امت ایک پیج پر آسکتے ہیں؟

آخر میں ایک التجا کہ روز محشر جب آپ شفایت فرما رہے ہوں گے تو مجھے شرمساری سے بچا لیجیۓ گا ۔پر تقصیر و بندہ حاجات کسی خوش بیان واعظ کی آتش بیانی کی لپیٹ میں نہیں آسکا اور ان سعادتوں سے محروم رہا جو ما بعد نائن الیون سکہ رائج الوقت ٹھریں۔میرے دامن میں حضوری کی خواہش کے سوا کچھ نہیں ۔اشارہ ہو تو سفر کا سارا اسباب ہو جاۓ۔کب تک شہر گرد و گورستان کی خاک چھاننا ھے اور کب حاضری کا پروانہ ملنا ھے۔۔۔انتظار اور بے حد انتظار

نجات کا طالب

سھل شعیب ابراھیم