انگریزی ، اُردو زبان پر ابھی تک حملہ آور ہے

کلیم احسان بٹ

اردو زبان کے ارتقا کے متعلق لکھی جانے والی اکثر کتابوں میں زیادہ زور اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں نظریات کی تحقیق پر دیا جاتا ہے۔ہندوی، ہندوستانی ،ریختہ یا اردوئے معلی کا سفر طویل تاریخی تناظر میں طے کرنے کے بعد مصنف کا قلم تھک جاتا ہے اور موجودہ عہد

Author: Kaleem Ehsan Butt

میں اردو زبان کے مسائل کے حوالے سے زیادہ بات نہیں کی جاسکتی ۔ پاکستان میں اردو کو جس طرح قومی زبان کا درجہ دیا گیااس کے نتیجے میں اس کی حفاظت اور فروغ کی ذمہ داری حکومت کے کندھوں پر تھی مگر اردو کو اس کی اصل اہمیت نہ دی گئی۔ قومی زبان اور دفتری زبان کے فرق کو برقرار رکھ کر اردو کا کردار قومی زندگی میں محدود کر دیا گیا ۔
۱۹۷۳ کے آئین میں یہ ضمانت دی گئی تھی کہ پندرہ سال کے اندر اندر پاکستان کی دفتری و سرکاری زبان بھی اردو کر دی جائے گی۔مگر یہ وعدہ ابھی تک وفا نہیں ہوا اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی مؤثر احتجاج دیکھنے کو ملتا ہے ۔اس کا نتیجہ یہ ہواہے کہ انگریزی اپنی برتر اور حکمران زبان کی حیثیت سے پاکستان میںبدستور رائج ہے اور اردو زبان پر اثر انداز ہو رہی ہے ۔
اردو پر انگریزی زبان کے اثرات انگریزوں کی ہندوستان آمد اور باہمی میل جول سے شروع ہو گئے ہوں گے۔ میں نے ایک دفعہ غالب کی نثر میں انگریزی الفاظ کا مطالعہ کیا تویہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ ان کے خطوط میں بے شمار انگریزی الفاظ موجود ہیں ۔ان کے خطوط میں پارسل ، رجسٹری،پیڈ، ڈاک ، ٹکٹ، پیکٹ، پوسٹ ماسٹر اورسٹیمپ پیڈ جیسے الفاظ کثرت سے استعمال ہوئے ہیں(۱)ریل، ہسپتال اور بنک وغیرہ کا ذکر غالب کے خطوط میں ملتاہے۔ (۲)ڈگری ، اپیل ، سیشن جج ، کورٹ ، جیل ، ریڈر ، رپورٹ، کونسل ، بورڈ ، سرٹیفیکیٹ ،کمیٹی ، اگریمنٹ وغیرہ جبکہ انگریزی مہینوں کے نام بھی غالب کے خطوط میں موجود ہیں۔ (۳) مگر شعوری سطح پر انگریزی سے مغلوبیت کا عہد علی گڑھ تحریک سے شروع ہوتا ہے۔سرسید نے اپنی نثر میں موقع بے موقع کثرت کے ساتھ انگریزی الفاظ کا استعمال کیااور ان کے ساتھیوں نے بھی ان کے تتبع میں اردو نثر میں انگریزی کا بے جا استعمال جاری رکھا۔
اردواس لحاظ سے خوش قسمت زبان ہے کہ اس میںدوسری زبانوں کے الفاظ کو قبول کرنے کا مادہ بہت زیادہ ہے ۔اس سے پہلے اس کے بنیادی ڈھانچے میں عربی اور فارسی کے بے شمار الفاظ داخل ہو چکے تھے مگر اس کی خوبی اور کمال میں اضافہ ہی ہواتھا کوئی خرابی پیدا نہیں ہوئی تھی ۔اس لیے جب ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے اردو لسانیات لکھی تو اردو زبان میں انگریزی زبان کے بڑھتے ہوئے اثر کے بارے میں لکھا ۔
”فارسی اور عربی کا مقروض ہونا تو خیر اس زمانہ کے سیاسی حالات کے لحاظ سے اس کی سرشت میں داخل ہو گیا مگر وہ اب انگریزی کی اس قدر شرمندہ احسان ہوتی جارہی ہے کہ نہ معلوم آئندہ نسل کے لسانیاتی معاملات اس کے مقروض الفاظ کاکیا تناسب نکالیں ”(۴)
یہی بات ڈاکٹر مولوی عبدالحق بھی قواعد اردو کے دیباچے میںکہہ چکے تھے ۔مگر ان کے خیال میں اس سے اردو کے بنیادی ڈھانچے میں کوئی فرق نہیں آسکتا ۔
”بعض غیر زبانوں کے اسمائے صفات کے اضافے سے اس کے ہندی ہونے میں مطلق فرق نہیں آ سکتا۔مثلاًآج کل بہت سے انگریزی لفظ داخل ہوتے جاتے ہیں۔لیکن اس سے زبان کی اصلیت و ماہیت پر کچھ اثر نہیں پڑ سکتا ”(۵)
رام بابو سکسینہ کی رائے زیادہ جچی تلی معلوم ہوتی ہے ۔انہوںنے تاریخ ادب اردو میں انگریزی کے اثرات کے ذکر کے بعد رائے دی    ”اردومیںانگریزی الفاظ بکثرت داخل کرنے میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے ۔اسی طرح وہ انگریزی الفاظ جواردو میں داخل اور مستحکم ہو گئے ہیں خارج کرنا بھی اندیشہ سے خالی نہیں ”(۶)
مگر افسوس کہ ان بزرگوں کے اس اندیشے کو خاطر میں نہ لایا گیا ۔اور رفتہ رفتہ انگریزی زبان کے اثرات اردو زبان پر پھیلتے چلے گئے ۔آج اگر آپ کسی چھوٹے سے چھوٹے شہر کے بازار میں نکل جائیں اور دکانوں کے اشتہاری بورڈ پڑھنا شروع کردیں تو آپ کو مشکل سے اردو کا کوئی بورڈ نظر آئے گا ۔حجام ہیئر ڈریسر ، بزازکلاتھ مرچنٹ،بساطی جنرل سٹوراوردھوبی ڈرائی کلینرکے بورڈ لگا کر بیٹھے ہیں ۔ باٹا شوز ، سروس شوز، اٹالین شوز ، سٹائلو شوز، ای سی ایس اوربور جان جوتوں کی دکانیں ہیں۔جگہ جگہ گارمینٹس کی دکانیں۔کے ایف سی ، اے ایف سی ، میکڈونلڈ ،ہوٹل اور موٹل کھانے پینے کے مراکز ، سرائے کی بجائے جگہ جگہ ریسٹورنٹ کھلے ہیں ۔ نانبائیوں کی جگہ بیکرز نے لے لی ہے ۔ایک ہوٹل کا مینو ملاحظہ فرمائیں برگر، پزا ہٹ، شوارما،ڈونٹ ،محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی ۔
ہم کرکٹ، فٹ بال ، ہاکی ، گولف ،ٹینس،بیڈمنٹن ، ٹیبل ٹینس، بلیئرڈ،سنوکر اور ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں ۔ ہم جین ، سکرٹ، ہاف سلیو، سلیولیس، ٹرائوزر،جیکٹ ، سویٹر، کوٹ، پینٹ،نکٹائی اور شارٹس پہنتے ہیں ۔ہم کالونیوں اور اسکیموںمیں رہتے ہیں۔ ہمارے گلی محلے سیکٹر اور سٹریٹ میں بدل چکے ہیں۔ہمارے ماموں، چچا ، تایا ، خالو ، پھوپھا سب انکل ہو گئے ممانی ، چچی ، تائی ، خالہ ، پھوپھی آنٹی ہوئیں اور چچیرے ، خالیرے ، پھپھیرے ، ممیرے سب کزن بن گئے۔ ہم مدر ڈے، ویلنٹائن ڈے،ٹیچرزڈے،لیبرڈے اور سانتا کلاز ڈے مناتے ہیں۔ہم فرینڈشپ کرتے ہیں ۔گرل فرینڈ رکھتے ہیں ،لوگوں کو ڈی فرینڈ کرتے ہیں ۔ہم موبائل ،سم کارڈ، میموری کارڈ، کمپیوٹر،اسیسسریز،ڈی وی ڈی اور سی ڈی کے عہد میں سانس لے رہے ہیں ۔ہم ایف سکسٹین خریدتے ہیں۔میزائل بناتے ہیں ،ڈرون ہم پر حملہ کرتے ہیں ۔ہمارے سیاستدان ہارس ٹریڈنگ کرتے ہیں ،فلور کراسنگ کرتے ہیں ،کرپشن کرتے ہیں ،لانگ مارچ کرتے ہیں ۔سفارتکار بیک ڈور ڈپلومیسی کرتے ہیں ،ڈیموکریسی سب سے بہتر انتقام ہے ۔کچھ ایسا ہے جو ہم کرتے ہوں اور اس میں انگریزی کے اثرات نہ ہوتے ہوں۔
ہماری فصلوںکوامریکن سنڈ ی تباہ کرتی ہے ۔ ہم کھیتوں میں نائٹروفاسٹ ڈالتے ہیں اور ٹریکٹر چلاتے ہیں ۔ تھریشرسے دانے اور بھوسہ الگ کرتے ہیں ۔ہم بیمار ہوں تو ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں ۔ سپیشلسٹ ہوتو بہتر ہے ۔ ہم اسپرو، ڈسپرین ، پیرا سٹا مول ،بروفین ، پان سٹان کھاتے ہیں ۔ ہمیں بخار بھی ڈینگی ہوتا ہے ۔ شوگر، بلڈ پریشر، ہارٹ اٹیک، ہیپاٹائٹس، ایڈز او ر کینسر ہماری بیماریاں ہیں ۔اور بقول اکبر الہ آبادی :
ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا
کٹی عمر ہوٹلوں میں ، مرے ہسپتال جا کر
یہ اثرات عامۃ الناس پر ہی نہیں خواص پربھی ہیں۔ بلکہ خواص پر زیادہ ہیں۔ عوام تو ان کی بھونڈی نقل اتارتے ہیں ۔مگرحدیہ ہے کہ جب کسی قوم کا نابغہ بھی اثرات کے دریا میں تنکے کی طرح بہہ جائے ۔ہمارے دانشور نے علمی ترقی کا راستہ یہ نکالا ہے کہ پرائمری کی سطح سے ہی اسے انگریزی تعلیم دینا شروع کر دی جائے ۔ایسی آیا ت کو خارج از نصاب کردیا جائے جو دہشت گردی کا سبب بنتی ہیں۔اپنی شناخت کو برقرار اور محفوظ رکھنے کی بجائے گلوبلائزیشن کے عمل میںشریک ہوا جائے ۔ ثقافت اور اس کے مباحث درکارنہیں۔ ادب وقت کا زیاں ہے ۔فنون لطیفہ بے کار لوگوں کے مشاغل ہیں ۔
اس صورت حال کے اثرات ادب پربھی مرتب ہوئے ۔ادب لفظ کو سند اور بات کو اعتبار دیتاہے ۔جب لفظ تخلیق میں شامل ہوجائے تواس کو زبان سے خارج کرنا اتنا آسان نہیں رہتا ۔ہمارے شاعر اور ادیب اس امر سے لا پروا جدیدیت کی دوڑ میںایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میںمصروف ہیں۔
پروین شاکر کی ”انکار ” اٹھاکردیکھئے۔صفحہ ۸ پر نثری نظموں کی فہرست ہے ۔ نظموں کے نام ملاحظہ فرمائیں:
ایکU.D.C.کی ڈائری ۱۵۶
ٹماٹو کیچپ ۱۵۹
اسٹیل مل کا ایک خصوصی مزدور۱۶۲
san francisco۱۷۱
ایک سوشل ورکر خاتون کا مسئلہ۱۷۵
کلفٹن کے پل پر ۱۷۸
I will miss you۱۸۳
ہم سب ایک طرح سے ڈاکٹر فاسٹس ہیں۱۹۲
یہ نظموں کے نام ہیں ایک نظم کا مطالعہ بھی فرما لیں :
کلفٹن کے پل پر ۔۔۔۔۔۔
کلفٹن کے پل پر
جس سے شہر کی الیٹ گزرتی ہے
اور سو گز کی حد میں
ٹریفک پولیس کے چاق و چوبند جوان
ہمہ وقت ڈیوٹی دیتے ہیں
چھ سات سادہ لباس والے بھی ہوں گے
ارد گرد کوئی غیر متعلق پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا
میں نے اسے دیکھا
گہر ے نارنجی سوٹ میں ملبوس
جس پر بنا ہوا تلے کا کام
مناسب مقامات سے مسکا ہوا تھا
اس کی لپ اسٹک اتنی گہری تھی
کہ نظر یں لتھڑ گئی تھیں
وسط مئی کے دھوپ میں ،بہتا ہوا فائونڈیشن
یہ کہہ رہا تھا
کہ عمارت بھی کبھی حسین نہیں تھی
سستی سی نیل پالش میں ڈوبی ہوئی انگلیوں میں
ایک سگرٹ پھنسا تھا
جسے دھواں دار پی رہی تھی
اس کی تمام حرکات وسکنات
دفعہ ۲۹۴ کے تحت قابل دست اندازی پولیس تھیں
ٹریفک سگنل پر رکے ہوئے میں نے سوچا
منٹو کی اس ہیروئن کا یہ سپاہی
ابھی دھڑن تختہ کردے گا
وہ اس کی طر ف بڑھا بھی
لیکن اس سے قبل
کہ وہ اپنی نوٹ بک نکالتا
گہر ے نیلے نمبر پلیٹ کی ایک کار
اس کے پاس رکی
وہ اپنی دفعہ ۲۹۴ کے اشاروں سمیت
کار میں غائب ہوگئی
سفید کپڑوں والے سپاہی کی دونوں ایڑیاں
جڑی کی جڑی رہ گئیں(۷)
اس نظم میں انگریزی الفاظ الگ کریں ۔
کلفٹن ، الیٹ، ٹریفک پولیس،ڈیوٹی ، سوٹ،لپ اسٹک،فائونڈیشن،نیل پالش ، سگرٹ،ٹریفک سگنل ، ہیروئن،نوٹ بک ، نمبر پلیٹ۔ ایک چھوٹی سی نظم میںانگریزی الفاظ کا تناسب یہ ہے اگر ان کی شاعری میںانگریزی الفاظ کے تناسب کی تحقیق کی جائے تو تنائج کیا ہوں گے۔
مبارک احمد کی ایک نظم کا عنوان ہے بلیک بیوٹی۔نظم طویل ہے اس لیے درج نہیں کر رہا صرف اس میں موجود انگریزی الفاظ ڈیزی پام ، نیوآن سائنز،نٹیلازائن،نک نیم ،سائیکل ، کاردرج کر رہاہوں تاکہ انگریزی زبان کی اردو ادب کے اندر عمل دخل کی نشان دہی ہو سکے ۔(۸)
اب کچھ نثری مثالیں دیکھتے ہیں۔ ”آگ کا دریا” قرۃ العین حیدر کا مقبول ومعروف ناول ہے ۔اس میں کس طرح انگریزی زبان کا استعمال ہوا ہے ۔ادھر ادھر سے کچھ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں۔انگریزی کے الفاظ کو خط کشیدہ کر دیا گیا ہے ۔
”یونیورسٹی کا سار ا فاصلہ طے کرتے کواڈ رینگل میں سے گزرتے وہ اس سڑک پر پہنچ گئے جو یونیورسٹی روڈ کے متوازن چلتی ہوئی موتی محل برج پر جا نکلتی تھی۔ اس کے سرے پر رجسٹرار آفس تھا ۔سامنے کبوتر والی کوٹھی تھی جس میں وائس چانسلر رہتا تھا ۔”(۹)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”کیلاش ہوسٹل میں سالانہ ڈرامہ تھا ۔لڑکیاں ہفتوں سے تیاری میں جٹی تھیں ،۔ شام کو ہال میں یا گھاس پر ریہرسلیں کی جاتیں۔
موسیقی کمپوز ہوتی ۔ ناچ کی مشق کی جاتی ۔ کوسٹیومزکے ڈیزائن تیار ہوتے ۔سٹیج کے ڈیکور پر بحث ہوتی”(۱۰)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طلعت نے دفعتا کہا۔۔۔لوئی مک نیس کی وہ نظم سنائو
کون نظم؟
وہی جو خزاں نامے میں شامل ہے
کملا آتش دان کے مصنوعی انگاروں کو دیکھتی رہی پھر آہستہ آہستہ کہا
“I loved my love, with a platform Ticket
A HANDBAG, a pair of stockings of Paris and I loved her long
I loved her between the lines and against the clock
Not until death
But life did us part
I loved her with peacock’s eyes and the wares of Carthage
With blasphemy camaraderie and bravado and lots of other stuff
I loved her with my office hours with flowers and Sirens
With my budget , my latchkey and my daily bread
And so to London and down the ever moving Stairs”(۱۱)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”میں ان کا واحد تن تنہا آڈینس ہوں ۔ یہ پتھر میرے دوست رہیں گے ۔ کمال خدارا یہ نہ کہنا کہ میں ایک اور مغربی یورپین برطانوی ڈی جنریٹ ڈیکیڈنٹ انٹلیکچئول بن گیا ہوں” (۱۲)
کئی چاند تھے سر آسماں شمس الرحمن فاروقی کا ناول ہے ۔ اس کا پلاٹ ۱۸۵۷ء کے ارد گرد واقعات پر مشتمل ہے ۔اس میںانگریزافسروں اور عہدوں کے نام اور انگریزی کے دوسرے الفاظ کثرت سے استعمال ہوئے ہیں۔مثال میں دو ایک اقتباسات پیش خدمت ہیں;
”ٹنڈل بھائی کٹر نصرانی تھی ۔وہ بھی کیلوین(calvin)کے ماننے والے پرو ٹسٹنٹ۔”(۱۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”دل میں یہ فیصلہ کرتے ہی مارسٹن بلیک نے ان پرعمل درآمد شروع کردیا ۔سب سے پہلے تو اس نے کمپنی کے ڈائریکٹرمیجر ڈنلڈ(Theobald Mac.Donald)کو بلوا کر صورتحال سے مختصرآگاہ کیا اور دو انگریز سارجنٹوں کے ساتھ چھ بدیسی لیکن غیر مقامی سپاہیوںکی ٹکڑی کے ساتھ محل میں داخل ہونے کا پروانہ راہداری لکھ کر اسی وقت روانہ کردیا ۔یوں تو فوجی منصب کے اعتبار سے میجر ڈاکٹر میک ڈونلڈ کا عہدہ مارسٹن بلیک سے اونچا تھا کہ بلیک ابھی صرف کپتان ہی تھا لیکن ریذیڈنٹی کے انتظامی امور میں فوجی ڈاکٹر کو ریزیڈنٹ کے تابع رہنا پڑتاتھا”(۱۴)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نثر میں جن ادیبوں کی مثالیں دی گئی ہیں ان کی مادری زبان اردو ہے ۔اور ہماری طرح شایدانہیں کسی لفظ کے لیے دوسرے کا شرمندہ احسان ہونے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی ہوگی مگر جب انگریز ملک میں سوسال حکومت کرے گا تو وہ اپنی اولادوں کے ساتھ اپنے بہت سے الفاظ بھی محکوموں میں چھوڑ کر جائے گا ۔مگر آزادی حاصل کر لینے کے بعد بھی ہم انگریز کے اسی طرح غلام ہیں ۔تو انگریزی الفاظ ہماری زبان میں ضرور داخل ہوں گے کیونکہ قاعدہ و دستور یہی ہے کہ غالب قوم کی ثقافت اور مذہب اور زبان مغلوب قوموں کے مذہب ، ثقافت اور زبان کو ہمیشہ متاثر کرتے آئے ہیں۔
اے ساقی گل فام برا ہو تر ا ، تو نے
باتوں میں لبھا کر ہمیں و ہ جام پلایا
یہ حال ہے سو سال غلامی میں بسر کی
اور ہوش ہمیں ا ب بھی مکمل نہیں آیا
حوالہ جات:

۱۔    کلیم احسان بٹ۔تفہیم و تحسین ۔ روزن پبلشرز گجرات ۔سن اشاعت ۲۰۰۸۔ص۶۴
۲۔    ایضا ۔ص۶۴
۳    ۔ایضا۔ص۶۵
۴۔    محی الدین زور ڈاکٹر سید ۔ہندوستانی لسانیات ۔مکتبہ معین الادب لاہور۔جنوری۱۹۶۱ ،طبع سوم ۔ص۵۶
۵۔    عبدالحق مولوی ڈاکٹر۔ قواعد اردو ۔لاہور اکیڈمی لاہور ۔۱۹۵۸ طبع جدید ۔ص۸
۶۔    تاریخ ادب اردو ۔رام بابو سیکسینہ (مترجمہ مرزا محمد عسکری)۔نول کشور پریس لکھنؤ۔۱۹۵۲ چوتھی بار۔ص۹
۷۔    پروین شاکر ۔انکار۔جہانگیربک ڈپو لاہور۔س ن۔ص۔۱۷۸۔۱۷۹
۸۔    مبارک احمد ۔ کلیات مبارک۔مبارک پبلشرز۔لاہور،جنوری ۱۹۹۹۔ص۷۸
۹۔    قرۃ العین حیدر ۔آگ کا دریا ۔سنگ میل پبلی کیشنزلاہور۔ ۲۰۱۰، ص:۲۵۲
۱۰۔    ایضاً: ص۲۶۰
۱۱۔ ایضا ً:ص۳۵۷
۱۲۔    ایضاً:۴۴۶
۱۳۔    شمس الرحمن فاروقی ۔کئی چاند تھے سر آسماں۔شہر زاد کراچی۔اشاعت اوّل جنوری۲۰۰۶۔ص ۱۸۹
۱۴۔    ایضاً: ۲۰۵
٭٭٭٭