انٹرنیٹ اورسائبر جرائم

رافد اُویس بھٹ

جدید ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کی سہولیات نے انسان کی روز مرہ زندگی میں پیش آنے والے مسائل سے نپٹنے کے لیے بہت حد تک ساتھ دیا ہے اور دے رہی ہے۔ اس بات سے شاید ہی کسی کو انکار ہوگاہے کہ یہ متنوع جدید اختراعات ہماری زندگی میں اس قدر سرشت ہوئیں ہیں کہ ان کے سہارے کے بنا انسانی زندگی نامکمل دکھائی دینے لگتی ہے۔ موجودہ دور کا شاذ ہی کوئی کام ایسا ہو جس میں جدید ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کی کار فرمائی نہ ہو۔ کچھ ہی وقت کے لیے اگر انٹرنیٹ کسی کارن ٹھپ ہو جاتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ انسانی زندگی کی کوئی معنویت ہی نہیں ہے۔ سرکاری دفاتروں اور کمپنیوں کو چھوڑ کر ہم دیکھتے ہیں کہ آج کا معاشرہ خصوصاً نوجوان طبقہ انٹرنیٹ پر زیادہ اور کھانے پینے پر کم انحصار کرتا ہے۔ لیکن ایک طرف جہاں انٹرنیٹ کے مثبت سہولیات سے انسانی زندگی کو فائدہ پہنچا ہے وہیں دوسری طرف نقصان بھی بھگتنا پڑتاہے۔انٹرنیٹ کے نقصانات کی انتہایہ ہے کہ اس نے مجرموں تک کو پیدا کیا ہے،جنہیں ہم سائبر مجرم کہتے ہیں ۔ایسے مجرم انٹرنیٹ کے ذریعے سے جرائم کو انجام دیتے ہیں جسے سائبر جرائم(CYBER CRIMES)کہتے ہیں۔
سائبر جرم ایک ایسا جرم ہے جس میں کسی مقصد کے تحت کسی فرد یا افراد کو جدید ٹیلی کمیو نیکیشن نیٹ ورکس مثلاً: انٹرنیٹ، چیٹ رومز(Chat Rooms)، ای میلز اور موبائل فون کے ذریعے بھیجے جانے والے ایم۔ایم۔ایس یا ایس۔ایم۔ایس کے ذریعے سے اُن کی ساکھ یا عزت کو خطرہ پہنچانے کے لیے یا جسمانی یا ذہنی اذیت دینے کے لیے یا کسی بھی نوع کا نقصان پہنچانے کی غرض سے بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر انجام دیا جائے۔سائبر جرائم میں جو جرائم شامل ہیں اُن میں کریڈیٹ کارڈ کی دھوکہ دہی، بنک ڈکیتی، غیر قانونی ڈاؤن لوڈنگ، صنعتی جاسوسی، بچوں کی فحش نگاری،وائرس سپیم تخلیق یا تقسیم کرنا، چیٹ رومز کے ذریعے بچوں کا اغوا ہونا جیسے جرائم شامل ہیں جو کہ انٹرنیٹ کی مدد سے انجام دیئے جاتے ہیں۔
جہاں ایک طرف انٹرنیٹ کا ارتقاہوا ہے وہیں دوسری طرف سائبر جرائم کا بھی انقلاب برپا ہوا ہے،جس کے ذریعے سے سائبر مجرم جرائم کو بڑی آسانی سے انجام دیتے ہیں۔آج کل انٹرنیٹ صارفین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور فرد فرد تک انٹرنیٹ کی رسائی ہو رہی ہے اور نئے نئے صارفین نے انٹرنیٹ کے حوالے سے کافی معلومات حاصل کیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سائبر جرائم میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ انٹرنیٹ جرائم دن بہ دن بڑھتے ہی جارہے ہیں۔جن میں کچھ تو بے نقاب ہوتے ہیں اور کچھ مصروفِ عمل ہیں۔
Associated Chambers of Commerce & Industry of India(ASSOCHAM) کی رپورٹ کے مطابق سائبر جرائم کی تعداد 2015ء تک300000 سے تجاوز کر گئی ہے، جو کہ سال 2014 ء سے دو گنا ہے۔ASSOCHAM کے جنرل سکریٹری ڈی۔ ایس۔ راوت کے مطالعے کے مطابق سائبر جرائم کے آغاز کے طور پر جو ممالک سر فہرست ہیں اُن میں پاکستان،چین،بنگلہ دیش اور الجیریا شامل ہیں جنھوں نے بڑے پیمانے پر سائبر جرائم کو انجام دیا ہے۔ نیشنل کرائم رکارڈڈ بیرو(NCRB) کی رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں جن ممالک میں سائبر جرائم اب بھی بڑے پیمانے پر انجام دیئے جاتے ہیں اُن میں امریکہ، ترکی، چین، برازیل، پاکستان، الجیریا،یورپ اور یو۔اے۔ای شامل ہیں۔
اگر بھارت کی بات کریں تو ASSOCHAMسے موصول ہوئی رپوٹ کے موٹے اندازے کے مطابق سال 2011ء سے لے کر سال2014 ء تک سائبر جرائم کی تعداد256936 ہو گئی ہے جبکہ صرف سال 2015ء میں اس کی تعداد 300000 سے تجاوز کر گئی جس کی سالانہ شرح 107فی صد بتائی جا رہی ہے۔بھارت میں 20ریاستیں ایسی ہیں جو سائبر جرائم میں ملوث ہیں جن میں 10ریاستیں سر فہرست ہیں، اُن میں مہاراشٹرا،آندھرا پردیش، کرناٹکا،کیرلہ،اُتر پردیش جیسی ریاستوں میں سب سے زیادہ 6453سائبر جرائم درج کیے گئے ہیں۔ آن لائن بنک کاری اورانٹرنیٹ کی بڑھتی مانگ سے دوسرے ممالک کی طرح بھارت میں بھی سائبر مجرموں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا اور اس وقت بھارت سائبر جرائم سے متاثرہ چند اہم ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔جس کی وجہ ASSOCHAMکی ایک رپورٹ کے مطابق یہ ہے کہ بھارت میں بھی آن لائن مالیاتی لین دین میں مالوئرس(malwares) کا استعمال ہوتا ہے،جو کہ سائبر جرائم میں شامل ہے۔ اس طرح متاثرہ ممالک کی فہرست میں بھارت امریکہ اور جاپان کے بعد تیسرا ملک ہے جو آن لائن بنک کاری مالوئرس سے پوری طرح متاثر ہو چکا ہے۔
انٹرنیٹ اور جدید ٹکنالوجی سے جو بھی سہولیات ہمیں بہم پہنچتی ہیں اُس سے انکار نہیں ہے مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ موبائل فونز،اسمارٹ فونز، لیپ ٹاپس وغیرہ کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے اور ان کے استعمال میں بھی احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔خاص کر جب ہم آن لائن بنک کاری یا خریداری کریں کیوں کہ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال میں سائبر جرائم کے تحت دنیا بھر میں 373ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔جبکہ صرف ATMسے گزشتہ سال ایک ارب ڈالر سائبر جرائم کے ذریعے نکلوائے گئے ہیں۔یہ اعداد و شمار صرف 30ممالک کے 100بنکوں کی ہے۔ انٹرنیٹ اور آن لائن بنک کاری ، خریداری اور مالیاتی لین دین سے سائبر جرائم میں مزید تقویت ہوئی۔سائبر جرائم میں جو مجرم ملوث میں اُن کی عمر 18-30سال تک کی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ نوجوان طبقہ سائبر جرائم کا شکار ہوتے ہیں۔
سائبر جرائم کو اگر ختم نہیں مگر اس کی بڑھتی ہو ئی شرح کو بہت حد تک کم کیا جاسکتا ہے ۔لیکن اس کے لیے انٹرنیٹ صارفین کو احتیاطی تدابیر برتنے کی سخت ضرورت ہے۔انٹرنیٹ صارفین کو چاہئیے کہ وہ غیر محفوظ ویب سائٹس اور آن لائن بنک کاری و خریداری یا مالیاتی لین دین کے دوران ہوشیاری سے کام لیں اور اپنے آلات مثلاً لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر وغیرہ میں وائرس مخالف اور سپائی مخالف سافٹ ویئرس انسٹال کریں۔ مشتبہ ای میلز یا کسی پروگرام کو نامعلوم ذرائع سے کھولنے کی کوشش نا کریں۔
اگر ہم کسی ویب سائٹ پر آن لائن کام کر رہے ہوں گے تو اُس دوران ہمیں کئی اہم چیزوں کو خیال رکھنا ضروری ہے تاکہ سائبر جرائم کا شکار نہ بنیں۔
* اپنے سپیم فلٹر(Spam Filter) کو ہمیشہ آن رکھیں۔
* ہمیشہ بن مانگے ایڈ وٹائزنگ اور آفرس کے تعلق سے مشتبہ رہیں۔
* ای میل یا کسی بھی چیز کے مرسل سے با خبر رہیں۔
* ایک بات ہمیشہ ذہن نشین کر کے رکھیں کہ ایک قابل اعتماد ویب سائٹ آپ سے آن لائن ادائیگی پر اکاونٹ کی تفصیلات مثلاً: پاس ورڈ یا اکاونٹ نمبر جیسی معلومات فراہم کرنے کے لیے نہیں کہے گی۔
* مشتبہ سپیم(Spam) کو خارج کریں اور اٹیچمنٹ(Attatchment) کو کھولنے کی کوشش نا کریں۔
دوسرا خطرہ جہاں ہم سائبر جرائم کا شکار ہو سکتے ہیں ای میلز ہیں۔ جو ای میلز ہمیں موصول ہوتے ہیں اُن کے بارے میں جانکاری رکھنا لازم ہے کیوں کہ سائبر جرائم کو انجام دینے میں جعلسازی ای میلز کا بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں کئی باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
* ایک جعلسازی ای میل کسی بھی سرکاری تنظیمی پتے پر نہیں بلکہ ایک مفت یا جعلساز ویب میل ایڈرس سے موصول ہوتا ہے۔
* ایسے ای میلز آداب و عرض سے کھلتے ہیں اور آپ کے نام کے ساتھ مشخص نہیں ہوتے ہیں۔
* ایسے ای میلز میں ہمیشہ کسی نہ کسی خطرے کی خبر ہوتی ہے مثلاً آپ کا اکاونٹ محفوظ نہیں ہے یا آپ کا اکاونٹ بند کر دیا جائے گا وغیرہ۔اس سلسلے میں ایسے ای میل آپ سے نجی جانکاری مانگتے ہیں جیسے کہ User Name، پاس ورڈ،بنک اکاونٹ معلومات وغیرہ۔
* ایسے ای میلز میں ایک غیر سرکاری تنظیم کے ذریعے سے یو۔آر۔ایل(URL) ویب ایڈرس کی لنک بھی بھیج دیتے ہیں۔جو صارف کو بڑی آسانی سے سائبر جرم کا شکاربنا سکتی ہے۔
جہاں تک براوزنگ(Browsing) کا معاملہ ہے،تو اس سلسلے میں کسی ویب سائٹ پر کام کرنے سے قبل کئی اہم باتوں سے شناسا ہونا ضروری ہے۔ کیوں کہ براوزنگ کی لا علمی سے ہم سائبر جرائم کے شکنجے میں آسکتے ہیں۔ براونگ کے دوران مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
* براوزنگ کے ایڈرس بار میں یو ۔آر۔ایل(URL) کی جانچ کریں کہ ہجے کی غلطی نہ ہو یا غیر متوقعہ طور پر ناموں میں فرق نہ ہو، کیوں کہ ایسا کرنے سے آپ سائبر جرم کے شکنجے میں پھنس سکتے ہیں۔
* اگر کوئی بھی ویب سائٹ رابطے کی تفصیلات فراہم نہ کرے تو مشکوک و محتاط رہیں۔
* اپنی نجی جانکاری دینے سے قبل اس بات کی تصدیق کریں کہ آپ محفوظ لنک پر کام کر رہے ہیں۔
* HTTPSمیں ہمیشہ لفظ’’S‘‘ اور اس کے ساتھ تالا علامت کی جانچ ضرور کریں۔
سائبر جرائم کا شکار نہ بننے لے لیے ہمیں اپنے لیپ ٹاپس اور کمپیوٹرس کے ٹکنیکی مسائل سے آگہی حاصل کرنا ضروری ہے۔ سائبر جرائم کے ہتھ کنڈوں سے باخبر ہونے کے باوجود بھی ہم سائبر جرائم کا شکار ہو سکتے ہیں اگر ہم لیپ ٹاپس یا کمپیوٹرس کی پوری جانکاری نہ رکھ سکیں گے۔کئی اہم ٹکنیکی مسائل جن سے ہمارا ذہن آگاہ ہونا چاہئیے۔
* اپنے لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر کو وائرس یا ٹکنیکی مسائل سے آگاہ رہیں مثلاً فائر وال(Firewall)، وائرس مخالف سافٹ ویئر ،آپریٹنگ سسٹم(OS) کو سیکورٹی پیچس (Security Patches) اور بَگ(Bug) کی اصلاح کے لئے اپ ڈیٹ کریں۔
* اگر وایئرس نیٹ ورک ہے تو جانچیں کہ وہ مرموز(Encrypted) ہو ۔
* ہمیشہ ایسے براوزرس کا استعمال کریں جو براوزرس پاپ اپس(Browsers Pop ups) کو بلاک رکھ سکے اگر ایسا نا ہو تو کسی اور براوزر کا استعمال کریں۔
* ہمیشہ ایک مضبوط پاس ورڈ بنائیں، کم سے کم آٹھ حروف طویل اور بڑے اور چھوٹے نمبر، اوقاف کے نشانات یا علامات کا ایک مرکب شامل کریں۔
سائبر جرائم کا شکار بننے کا ایک اور ہتھ کنڈہ آن لائن بنک کاری ، ادائیگی یا خریداری ہے۔اکثر آج کل ہم آن لائن خریداری یا ادائیگی کے عادی ہو چکے ہیں۔ لیکن اگر اس معاملے میں بھی احتیاطی بدابیر نہ اپنائیں جائیں تو کسی بھی وقت ہم سائبر جرائم کا شکار ہو سکتے ہیں۔آن لائن خریداری یا بنک کاری اور ادائیگی کے وقت بنیادی باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
* اگر نیٹ ورک مناسب نہ ہو یا غیر محفوظ ہو تو آن لائن بنک کاری، خریداری، اپنے کریڈیٹ کارڈ کی تفصیلات دینے سے گریز کریں۔
* آن لائن ادائیگی کے دوران اپنے کریڈیٹ کارڈ کے سی۔وی۔وی(CVV) نمبر کی جہاں ضرورت ہو وہاں پہلے ویب سائٹ کی تصدیق کرنا نا بھولیں۔
* کسی بھی لاٹری مسیج یا ٹیلی فون کا جواب نہ دیں۔
* کسی بھی حال میں اپنے کریڈیٹ کارڈ کی دو طرفہ تصویر کسی کو نہ بھیجیں کیوں کہ کارڈ کے ایک طرف آپ کا سی۔ وی ۔وی(CVV) نمبر دیا ہو ہوتا ہے، کو ئی بھی اُس کا فائدہ اٹھا کر آپ کے کارڈ کا ناجائز فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
* کسی کو بھی فون پر اپنے کریڈیٹ کارڈ کی تفصیلات نہ دیں۔
انٹرنیٹ جہاں ہمیں ایک طرف مختلف سہولیات فراہم کرتاہے وہیں دوسری طرف ایسے خطرات اپنے ساتھ لاتا ہے جو ہمیں سائبر جرائم کی دنیا میں بلواسطہ یا بلا واسطہ طور پر آسانی سے دھکیل سکتا ہے۔ اب اگر ہم انٹرنیٹ کے جرائم سے نجات پانا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہئیے کہ انٹرنیٹ کا جب بھی استعمال کریں تو حفاظتی اقدامات کا بھی خاص خیال رکھیں۔ ہم انٹرنیٹ کو آج کے معاشرے سے الگ نہیں کرسکتے کیوں کہ معاشرہ پوری طرح سے انٹرنیٹ اور جدید ٹکنالوجی پر منحصر ہے، لہٰذاہم چاہ کر بھی انٹرنیٹ کو آج کے معاشرے سے الگ نہیں کر سکتے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ سائبر جرائم سے پوری طرح آگاہ رہیں ۔ ٹکنالوجی مسلسل آگے بڑھتی ہے اور بڑھتی رہے گی،ہم اس کی بڑھتی رفتار کو روک تو نہیں سکتے مگرجرائم کے معاملے میں احتیاط تو برت سکتے ہیں۔آج کل انٹرنیٹ کی دنیا میں نئی نئی چیزیں داخل ہوتی ہیں مگر سائبر مجرم بھی انٹرنیٹ کو شکار بنانے کے لیے مختلف ذرائع ڈھونڈنے میں لگے رہتے ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ وہ اپنے انٹرنیٹ کے صارفین خصوصاً نوجوان طبقے کو بھی ان جرائم کا شکار بناتے ہیں۔ایسا کرنے سے وہ سائبر مجرموں کی تعداد بھی بڑھاتے ہیں۔ہر انٹرنیٹ صارف کو چاہئیے کہ وہ سائبر جرائم سے پوری طرح آگاہ رہے اور اُن تمام احتیاطی تدابیر کو اپنائے جو اُسے ایسے جرائم سے دور رکھ سکتے ہیں۔خصوصاً نوجوان طبقے کو چاہیئے کہ وہ پوری آگہی کے ساتھ انٹرنیٹ کا استعمال کریں اور کسی بھی طریقے سے کسی ای میل،ایس۔ایم۔ایس، لاٹری،آفر اور ایڈواٹائز کے جھانسے میں نہ آئے کیوں بھول سے بھی چھوٹی سی چھوٹی غلطی اُن کے مستقبل کو برباد کرنے کے لیے کافی ہے۔لہٰذا ہر کسی کو انٹرنیٹ کی پوری جانکاری سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔