ادب ،مذہب، معاشرت اور غیر کا تصور

لکھاری کا نام
تالیف حیدر تالیف حیدر

(تالیف حیدر)

اس موضوع پر میں نے غالب اکیڈمی میں ہونے والے سیمینار سے پہلے کچھ نہیں پڑھا ،پڑھنا تو دور اس حوالے سے کسی طرح کی کوئی بات سنی بھی نہیں تھی۔ ڈاکٹرسرور الہدی کا میں اسی لیے احترام کرتا ہوں کیوں کہ انہوں نے ہماری یونیورسٹیز میں پائے جانے والے اردو کے پروفیسروں کے بالمقابل کافی کچھ چیزیں پڑھی ہیں، حالاںکہ مجھے پروفیسروں کی کم علمی کا رونا رونے میں کوئی خاص مزا نہیں آتا کیوں کہ اگر کوئی شخص بنا علم حاصل کیے کسی نہ کسی طرح ایک ایسے منصب پر پہنچ گیا ہے جہاں اسے دوسروں کو اپنے جانے اور سمجھے ہوئے سے فیضیاب کرنا ہے تو وہ یہ کام اس وقت تک زیادہ دیر تک کر ہی نہیں پائے گا جب تک وہ واقعی میں علم کے حصول کا صحیح معنی میں خواہش مند نہ ہو جائے ،لہذا وہ تگڑموں سے پروفیسر بن کے نہ صرف یہ کہ اپنی ذات پر ظلم کرتا ہے بلکہ اپنے اس حماقت آمیز عمل سے اپنی قریب پائے جانے والے لوگوں کو بھی پریشان رکھتا ہے، اس کی سیدھی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسا کام کر رہا ہے جس کے لیے وہ بنا ہی نہیں ہے۔ خیر میں سرور صاحب کی بات کر رہا تھا ،مجھے پہلی مرتبہ انہیں کے حوالے سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ناصر عباس نیر نے اردو ادب میں غیر کے تصور پر کافی کچھ لکھا ہے اور ہمارے یہاں اس موضوع پر سب سے بہتر ابھی تک انہیں نے لکھاہے۔ غیر کا تصور کیا ہے؟ اس حوالے سے ہم موضوعی نہ سہی استفہامی انداز میں تو سوچنے کے قائل رہے ہیں اور مذہبی اور ثقافتی بنیادوں پر کئی نتائج پر بھی پہنچے ہیں،لیکن باقاعدہ ایک لائحہ عمل کے تحت اس کی اجزائے ترکیبی کے ساتھ اس کو سوچنے اور سمجھنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا۔ وہ سیمینار جس کا میں نے اوپر ذکر کیا اس میں پہلی مرتبہ واضح طور پر اپروانند جھا کی تقریر سن کر میں نے اس حوالے سے ترکیب بند انداز میں سوچا۔ کیا غیریت سے ہم وہی کچھ مراد لیتے ہیں جو اس کے لفظی مفہوم کے تحت ہم تک پہنچتا ہےیا اس کے کچھ ایسے آفاقی معنی بھی ہیں جو بہت زیادہ Dimensional ہو سکتے ہیں ۔حالاں کہ اردو شاعری میں اس کی کئی جہات موجود ہیں ،مثلاً میر ،انیس ،غالب،حالی ،اقبال ، فیض ، جمال احسانی اور احمد مشتاق کے اشعار میں یا پریم چند،بیدی،منٹو، عصمت ، کرشن چند ، عینی، سید محمد اشرف،فاروق خالد اور موجودہ عہد کے دیگر افسانہ نگاروں کے یہاں غیریت کا جو تصور پایا جاتا ہے اس کو پڑھ کے محسوس ہوتا ہے کہ غیریت بطور استعارہ اردو میں کچھ اجنبی نہیں ۔اسی طرح مشرقی روایت کے تحت اس کو کھنگالا جائے تو اس کا چھور تلاش کرتے ہوئے انسان بہت دور تک جا سکتا ہے۔میں چونکہ آج کل سبط حسن کی ماضی کے مزار پڑھ رہا ہوں اس لیے مجھے تو قدیم مصر، بابل ونینوا،فراط اور دجلہ تک کے مذہبی اور ثقافتی متنون میں اس کی جھلک نظر آتی ہے۔ اس کی ایک خاص وجہ بھی ہے۔ دراصل یہ تصور ادبی اور مذہبی ان دونوں خانوں میں دو طرفہ انداز میں تشکیل پاتا معلوم ہوتا ہے۔ تصور کیجیے کہ وحدت ، ما قبل وحدت اورما بعد وحدت ان تنیوں ادوار میں غیریت کا جو تصور ہے وہ ایک دوسرے سے کتنا مختلف ہوگا، وحدت کے متعارف ہونے کا عہد اگر ابراہیم سے بھی شروع کیا جائے تو بھی مصر کا وہ جادوئی عہد جس میں فرعون جو کہ بادشاہ وقت تھا اوراس کو اپنی بیوی کو ایک رات کے لیے اپنے مذہبی رہنما کے ساتھ سونے کے لیے بھیجنا پڑتا تھا یا ابراہیم،اسحاق،موسی اور عیسی جنہوں نے اپنے معاشرے سے بغاوت کی ان کی بغاوت کے اسباب ان میں غیریت کا جو عنصر داخل کرتے ہیں یا عرب جہاں قران کی آیات اس موجودہ معاشرے کو اپنے کئی سو خداوں سے غیر کرنے میں کوشاں ہے۔ ان تمام تناظرات میں غیریت اپنے کتنے متنوع معنی کے ساتھ رائج نظر آتی ہے۔ اسی طرح وحدت سے پھوٹنے والی غیریت کا مکالمہ کتنا عجیب و غریب ہے ۔ حالاں کہ مجھ سے یہ بات خالد جاوید نے بس یوں ہی کہہ دی تھی کہ اگر ہم ہیں تو ہمارا وجود غیریت اور وحدیت کے تصور کو علحیدہ کرنے کاسب سے بڑا جواز پیدا کرتا ہے ، لیکن ا س کے پیچھے کتنے اسرار رموز کار فرما ہیں ،اس جانب جب نگاہ جاتی ہے تو اصل جھگڑے کا احساس ہوتا ہے۔ اسلامی ممالک میں تو معتزلی اور ماتریدی یہ جھگڑا کئی سو برس سے لڑتے چلے آئے ہیں ۔کیا وحدت الوجودی نظریہ کثیر غیریت کے معنی کو مترشح نہیں کرتا؟ اگر کوئی یہ سوال کرتا ہے کہ خدا ایک ہے تو اس کے راست معنی یہ ہوئے کہ بندے ایک سے زیادہ ہیں۔ بندے میں کوئی قید نہیں اس کو فزکس کے حساب سے سمجھیے تو اور واضح انداز میں سمجھ میں آتا ہے کہ مادہ اور غیرے مادہ یہ چیزیں بالکل سامنے کی ہیں ۔جو مادہ ہے وہ غیرے مادہ نہیں اور جو غیرے مادہ ہے وہ مادہ نہیں، لیکن ایک کی وحدت دوسرے کی وحدت کی نہ قائل ہے اور نہ اس کے وجود کو پوری طرح تسلیم کرتی ہے۔ Energy اگر وحدت کی اس خدا نمائی مثال کے تحت Assumeکی جائے جس کو مادہ کے متشکل وجود کی مانند تسلیم نہیں کیا جا سکتا پھر بھی اس کا اپنا وجود ہماری لاعلمی کے باوجود قائم بالذات ہے ۔ مادہ خدا نہیں ہو سکتا ، کیوں کہ ہماری مذہبی تعلیمات ہم کو یہ سیکھاتی پڑھاتی رہی ہیں کہ خدا کا ہاتھ ،پاوں ،منہ ،آنکھ ،ناک ، کان نہیں ہے ۔ اسی بنیاد پر وہ ہم سے غیر ٹھہرتا ہے یا Superior۔تو اس کے علاوہ وہ کیا ہے؟Energy۔تو فزکس تو یہ بتا تی ہے کہ Energy اور مادہ غیرمتبدل نہیں ہیں ۔ یہ قالب بدلتے ہیں، خواہ لاکھوں سال میں بدلیں ۔تو اس کے معنی کیا ہوئے بندہ خدا ہے اور خدا بندہ؟ یا پھر ایک چیز اور بچتی ہے جس کو ہم خلا کہتے ہیں۔ تو اس سے خدا کے احساس کو تقویت دی جائے؟تو یہ کیوں کر ممکن ہے؟ سید محمد کامل جو کہ شور ناڈر یونیورسٹی میں فزکس کے پروفیسر ہیں ان سے چند روز قبل میری خلا کے حوالے سے بات ہو رہی تھی تو انہوں بہت واضح انداز میں یہ کہا کہ جس کو ہم خلا متصور کیے ہوئے ہیں وہ اپنے آپ میں مخلوق ہے ۔ جس کی وحدت کا کوئی واضح سراغ ہمارے پاس نہیں ،کیوں کہ ہم نے یعنی فزکس نے اپنے قائدوں سے کائنات کی جتنی گتھیوں کو سلجھایا ہے اس سے خلا کے وجود پر ہی سوالہ نشان قائم ہوجاتا ہے کہ آیا جس کو ہم خلا سمجھ رہے ہیں کہیں وہ خود اپنے آپ میں جہان رنگ و بو تو نہیں ۔جو ہمارے حواس سے یک گنا دوری پر آباد ہے۔ تو ظاہر ہوتا ہے کہ غیریت جو اپنے اصل معنی میں وحدت کے بطن سے نکلتی ہوئی معلوم ہوتی ہے وہ در حقیقت اپنے پیٹ سے اس کو جنم دیتی ہے۔ اس کا حاصل تو یہ آیا کہ کثرت اصل حقیقت ہے اور وحدت ایک متھ۔

میں اکثر ان سب چیزوں کو جاننے کے لیے آئن سٹائن، اسٹیفن ہاکنگ، کال سیگن ،اور ایک جاپانی سائنٹسٹ جس کا نام میں اس وقت بھول رہا ہوں ان کے لکچرس سنتا ، دیکھتا اور پڑھتا رہتا ہوں۔ ابھی گذشتہ دنوں کارل سیگن کے کاسموس اور ٹائم تھیوری پر اسٹیفن ہاکنگ کے پروگرام سے بھی کائنات کی کافی گتھیاں سلجھتی نظر آئیں۔ یہ تصور کی  بات ہے۔ ہم جس طرح چیزوںکو Assumeکرتے ہیں اصل  میں وہ اس سے کچھ مختلف ہوتی ہیں۔ خیر غیریت کے تصور کے ساتھ مذہب سے معاشرت تک کا سفر بھی کافی دلچسپ ہے ۔ میں تو اس حوالے سے ان قدیم مذہبی کہانیوں کو بھی معاشرتی تناظر میں ہی دیکھتا ہوں جو اکثر مذہب کے ذیل میں گنی جاتی ہیں ۔ معاشرت میں مذہب کا روحانی پہلو ویسے بھی داخل نہیں ہوتا۔ مثلا ً اگر ہم اسلام کی بات کریں تو اس کے سیاسی نظام کے تحت یا تو آپ مسلمان ہویئے یا جنگ کیجیے یا جزیہ دیجیے۔ اس ایک اصول میں غیریت کے عجیب و غریب معنی پوشیدہ ہیں۔ مثلا ً اگر کوئی عقیدتا اسلام کے ساتھ ہے تو اس کا یہ ڈر ختم ہو جاتا ہے کہ وہ اس کی وحدت کو کسی طرح کا نقصان پہنچائے گا, جس سے اس کا سیاسی نظام منتشر ہو سکتا ہے،جبکہ اس کے بالمقابل اس کی روحانیت کا یہ تقاضہ ہے کہ لکم دینکم ولی الدین پہ عمل کیا جائے۔ یہ ایک اسلام کے ساتھ ہی نہیں کیوں کہ اس میں تو اپنائیت اور غیریت کی سطح پہ پھر کچھ اصولی ارتقا نظر آتا ہے۔اس کے بر عکس قدیم دنیا میںSumerians, Acadians, Ashurians, Babylonians, Mesopotamians Egyptians, Iranians, Aryans, اور Old Indiansکے یہاں تو زندہ خداوں کا جو تصور ہے، جس سے ان کا تہذیبی، معاشرتی اور سیاسی نظام بھی قائم ہوتا ہے ،وہ تو اس سے بھی زیادہ غیر اصولی ہے۔ ان کی کتھائیں بتاتی ہیں کہ انکی، انو،موتی، نابو، اشور،انیل، اییا،نیفتھس ،نیگھبت، نٹ،اوسریس،کنگو،مردک،ممو،ننتو،برہما ،وشنو، شیو اور لکشمی وغیرہ کس طرح معاشرے کے مختلف النوع اجزا سے بن کر ان کی خدائی کا دعوی کرتے ہیں ۔ وہ ایک دوسرے سے لڑتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کائنات کے اجزا کس طرح ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔

یہودیت، عیسایت اور اسلام نے پانی کے آگ سے، مٹی کے ہوا سے، پہاڑ کے ندی سے ،زمین کے آسمان سے اور چاند ،سورج اور ستاروں کےایک دوسرے سے لڑنے کے تصور کو مسترد کیا ہے۔ جب کہ ادبی نقطہ نظر سے ان قدیم دیواتوں کی کہانیوں کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ آسمانی اور زمینی جنگیں جو دیوتا ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں ان سے کس طرح کائنات کے عناصر کی مختلف المزاجی کا علم ہوتا ہے ۔ ان میں ایک خاص بات یہ بھی نظر آتی ہے کہ آگ کبھی پانی پر قابض ہے تو ہوا دھرتی پر، مٹی کبھی آسمان کو جھکا رہی ہے، تو سورج ستاروں کو ۔یہ کہانیاں اس طرح کی استعاراتی زبان میں ہیں جس سے غیریت کے ایک ایسے تصور کو جلا ملتی ہے جو مخلوقاتی تصادم کو مترشح کرتی ہے۔ اسلام جو خالق اور مخلوق یہ دو خانے بناتا ہے جس میں ایک طرف سب کچھ ہے اور دوسری طرف صرف وہ ذات واحد جس کو وہ رحمن و رحیم کہتا ہے تو یہ قدیم تہذیبیں اپنی اصل میں جزو جز وخدائی نوعیتوں کا تعین کر کے ان کی اقتداری حیثیت کو تبدیل کرتی رہتی ہیں۔اس سے ایک اور انیک کی بحث ہی ختم ہو جاتی ہے اگر کوئی ایک ہے تب ہی انیک کا جھگڑا ہے، لیکن جب انیک میں کوئی مقتدر ہے تو ایک کا جھگڑا ہی سرے خارج ہو جاتا ہے۔ لہذا اسلام اور اسلام متعلق مذاہب اور قدیم تہذیبی دنیا میں یہ ہی بعد نظر آتا ہے کہ جہاں اسلام نے یک مذہبی مع یک تہذیبی معاشرت کا تصور پیش کیا وہیں قدیم دنیا میں کثیر مذہبی اور کثیر معاشرتی نظام رائج تھا۔ دونوں کے اپنے اپنے مثبت اور منفی پہلو ہیں پر غیریت کے حوالے سے قدیم تہذیبی رواج زیادہ با معنی نظر آتا ہے۔

اسی طرح کی باتیں ہیں جس کی وجہ سے اپروانند جی نے اس سیمینار میں جب اپنی تقریر میں غیریت کو اپنائیت کے معنی میں داخل کرنے کے لیے یہ باتیں کہیں کہ” ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ایک ہندو اور مسلمان ،شیعہ ،سنی ،پنڈت اور ہری جن کس طرح اپنی غیریت کو اپنائیت سے تبدیل کر سکتے ہیں یا کون سی ایسی سطح ہو گی جہاں اس غیریت کے تصور کے کوئی معنی نہیں رہ جائیں گے۔ مثلاً ایک ہندو ایک مسلمان کو اس لیے نہ مارے کیوں کہ وہ مسلمان اس کی بیوی کے لیے ساڑی بناتا ہے یا ایک امیر غریب کو اس لیے ختم نہ کرے کہ وہ اس کے گھر کا سامان لاتا ہے۔تو ایسی اپنائیت سے بچ کر اپنائیت کے کچھ نئے اصول وضع کرنے کی ضرورت ہے ،جس سے ان دونوں کی دوری بھی مٹی رہے اور غیریت کے بالمقابل کاروباری سطح سے اٹھ اپنائیت اپنا وجود قائم کرے۔ “تو اس سیمینار کے اختتام پر میں نے ان سے یہ کہاکیا کہ آپ جب غیریت اور اپنائیت کے تصور کو اجاگر کرتے ہیں تو مثبت معنی تک ہی محدود ہو کر رہ جاتے ہیں ، جبکہ اس کے برعکس موجودہ دنیا کی بڑی حقیقت یہ ہے کہ ہم سب نے مختلف انداز میں اپنا اپنا ایک لائحہ عمل بنا لیا ہے ۔خواہ وہ مذہبی ، مسلکی اور ،تہذیبی ہو یا ملکی،معاشرتی یااقتصادی ۔اپنائیت سے ہم اس لیے نہیں گھبراتے کیوں کہ ہم کسی کو اپنانا نہیں چاہتے ہیں اس کے بر عکس غیریت کا تصور اس امر سے پیدا ہورہا ہے کہ ہم اپنے خود ساختہ لائحہ عمل کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔

جیسا کہ میں نے اوپر بھی اشارتاً کہا کہ ادب میں غیریت کے تصور کو کئی مختلف جہات سے دیکھا جاسکتا ہے۔ اس تناظر میں سرور صاحب نےکیا خوب بات اپنے پرچے میں کہی تھی کہ وہ انگریز جن کو ہم ایک عرصے سے غیر تصور کر رہے ہیں حالی نے اپنی نظم میں ان کے بالمقابل خود کو یا پوری مسلم قوم کو ہندوستانیت کے تناظر میں زیادہ غیر متصور کیا ہے اور اس کا اظہار بھی کیا ہے۔ انہوں نےحالی کی نظم شکوہ ہندکو غیریت کے تصور سے جوڑ کر دیکھتے ہوئے اس Colonial Periodکی وہ مختلف تعبیر پیش کی جس کو ہم گزشتہ ایک صدی سے اپنائیت کے معنی عطا کرتے چلے آرہے ہیں۔ ادب کا یہ ہی اصل مطلب ہے کہ وہ ہمیشہ سکے کا دوسرا رخ اجاگر کرتا ہے۔ اسی لیے زندگی کی ہر سطح پر اس سے زیادہ کام لیا جا سکتا ہے۔ پروشوتم جی نے بھی ادب کے متعلق یہ بات بڑی معرکہ کی کہی تھی کہ ادب صرف تجربات سے ایک فن پارہ تشکیل دینے کا نام نہیں ہے۔اس میں تنوع ہوتا ہے ،لہذا ایک ادیب ایسے غیر معلوم حالات کو بھی اپنی بصیرت کی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے جواس کے مشاہدات سے باہر ہوتے ہیں۔ عینی کے آگ کا دریا کی مثال دیتے ہوئے انہوں لکھنو کی معاشرت ،وہاں کی زبان ،گوتم نیلمبر کے کردار اور بودھ کے عہد سے بیسویں صدی کے ہند تک کی داستان کو عینی کاکا رنامہ اسی باعث قرار دیا کہ وہ صرف اپنے دائرہ علم میں رہ کر ہی بیان کی سطح پر نہیں اتر تیں ،بلکہ اپنے وجود سے باہر آکر فن کی بصیرت افروز دنیا میں داخل ہوتی ہیں۔ پریم چند کی مثال دیتے ہوئے انہوں عید گاہ اور کفن کے تعلق سے پریم چند کی اسی ادبی بصیرت کا تذکرہ کیا ۔جس کے تحت ان کے تئیں اگر ایک ادیب واستوک روپ میں پنڈت ہے تو بھی ہری جنوں کے تعلق سے لکھ سکتا ہے ،مرد ہے تو عورت کے مسائل بیان کر سکتا ہے، ہندوہے تو مسلمانوں کے المیہ کو ظاہر کر سکتا ہے یا سنی ہے شیعی جذبات کو سمجھ سکتا ہے۔ ان میں شرط صرف ادبی بصیرت کی موجودگی ہے۔ مجھے ان سے اتفاق ہے،لہذا یہاں بھی ادبی سطح پہ غیریت کے تصور کی ایک مختلف شکل نظر آتی ہے۔مثلاً ادیب کے لیے اپنی اصل میں کوئی غیر نہیں ،کیوں کہ اس کا دامن مذہبی پیشوا سے زیادہ کشادہ ہوتا ہے۔ اگر ایک ادیب غیریت کی بات کرتا ہے تو بھی اس میں اپنائیت کا پہلو ہی پوشیدہ ہوتا ہے ،کیوں کہ وہ مذہبی پیشوا کی طرح سفاک نہیں ہوتا۔ مثلا ً غالب کا ایک شعر ہے:

تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو

اس میں غیریت کا جو پرتو ہے اس پر ایک مولوی کا چیخ پڑنا فطری معلوم ہوتا ہے۔ وہ فوراً حرام کاری کا قدغن لگا کر محبوب کی گردن اڑا دے گا۔ لہذا نہ خود شیخ جی کا بھلا ہو نہ کسی اور کا ۔اس کے برعکس ادب ایک طرح کی کشادہ قلبی کو فروغ دیتا ہے جس کو عام معنی میں جیو اور جینو دو سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ادب میں لفظ غیر خود اپنی پچاسوں Dimensionsکے ساتھ رائج ہے۔ مثلاً وہ محبوب کو لعن طعن کرنے کے لیے بھی آتا ہے پر اس میں بھی اس نوع کا شکوہ ہوتا ہے جس سے محبوب کی محبوبیت مترشح ہوتی ہے۔ اگر کہیں غیر کا حریفانہ پہلو اجاگر ہوتا ہے تو اس میں بھی وہ غیر قابل گردن زدنی نہیں ٹھہرتا بلکہ اس پر عنایات ہی ہو رہی ہوتی ہیں۔ میر صاحب کا شعر ہے کہ:

غیر ہی مودر عنایت ہے
ہم بھی تو تم سے پیار رکھتے ہیں

ادیب کی اصل شناخت ہی اس کی حلمیت سے قائم ہوتی ہے۔ بفرض محال اگر کسی ادیب نے غیر کو اپنی لفظی کائنات میں خواہ سو صلواتیں ہی کیوں نہ سنائی ہوں پر اس کے ہاتھ میں تلوار دے دی جائے تو وہ اس کی گردن نہیں مار سکتا۔ کیوں کہ یہ حوصلہ تو صرف مولوی صاحب ہی لے کر پیدا ہوئے ہیں۔ ادیب کی فطرت میں اسے شامل نہیں کیا گیا۔ ادب میں غیر کے تصورکا کینوس وسیع ہے اور اس پر ہر طرح سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ناصر عباس نیر نے اس حوالے سے ایک اچھی ابتدا کی ہے اور ہند میں مجھے ابھی تک صرف ان کا ایک دوست ہی ایسا ملا ہے جو اردو ادب میں غیریت کے تصور پر کچھ اچھی باتیں کر رہا ہے۔