کیاخزاں کی اداسی بھی خریدنا پڑے گی

Sabeen Ali aik Rozan
سبین علی، لکھاری

(سبین علی)

خزاں کے موسم اور اکتوبر نومبر کے مہینوں سے مجھے ایک لاشعوری انسیت ہے ــ یہ پت جھڑ کا موسم ہمیشہ اپنا فسوں کچھ اس طرح بکھیرتا ہے کہ بے خودی کی کیفیت میں نیم خنک اداسی گھل کر زرد پتوں کے ساتھ رقصاں ہو جاتی ہے ــ اس کے پتے پیغام رساں لگتے ہیں جو عدم کی راہوں میں نامعلوم منزلوں تک سندیسے پہنچاتے ہیں ــ میری کئی اداس اور حسین یادیں اس موسم سے وابستہ ہیں ــ اسی موسم میں بہت پیارے چہرے پت جھڑ کے پتوں کے ساتھ جھڑ کر ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے اسی موسم میں ہار سنگھار کے پھول بھی تو کھلنے لگتے ہیں جوں جوں سرما قریب آئے گا یہ چھتری جیسا درخت زرد پتوں کے سوز میں اپنے سفید اجلے پھولوں کو کیسری رنگ پہنانے لگ جائے گا ــ
جب میں نے پہلی بار برش تھامے کوئی منظر پینٹ کرنے کی کوشش کی تھی تب بھی یہی موسم تھا ــ ہمارے ارد گرد سوکھے پتوں کے ڈھیر تھے درختوں پر لال پیلے اودے اور سبز رنگ اس طرح بکھرے پڑے تھے جیسے فطرت رنگوں کا تہوار منا رہی ہو ــ
پہلے پہل میں سمجھا کرتی تھی کہ رنگ اور بہار لازم و ملزوم ہیں لیکن ایک دن احساس ہوا کہ بہار میں تو روئیدگی کا سبز پیراہن ہی سب سے نمایاں ہوتا ہے ـــ اگرچہ سبز رنگ مجھے بہت بھاتا ہے کہ اس میں زندگی ہے، جی اٹھنے کا حوصلہ ہے، پھول ہیں جو محبتوں کی علامت بنے خیر سگالی کا استعارہ بنے دکانوں پر بکتے ہیں دنیا بھر میں ایکسپورٹ کیے جاتے ہیں ــ لیکن خزاں کے یہ زرد پتے بڑے ہی انمول ہیں جو نیم خنک ہواؤں کے سنگ رقصاں نامعلوم منزلوں کی جانب خود ہی رواں رہتے ہیں یا پھر گزرگاہوں میں پلکیں بچھائے قدموں کے نیچے چرمرا کر کسی انسان کو چند لمحوں کے لیے ہی سہی سرخوشی یا پھر اداسی کی کیفیت سے ہمکنار کرتے ہیں ــ مگر انمول کے انمول یا بے وقعت کے بے وقعت ہی رہتے ہیں ــ
لیکن کل ایک خبر نظروں سے کیا گزری مجھے محسوس ہوا کہ خزاں کے یہ انمول پتے جنہیں بظاہر کبھی بے وقعت سمجھا جاتا تھا (موسم بھی بھلا کبھی بے وقعت ہوتے ہیں) اب انٹرنیٹ پر خزاں برائے فروخت کے لیبل سے بکنے کے لیے پیش کر دیے گئے ہیں ــ

خزاں کے پتوں کو اکٹھا کیا جاتا ہے ان میں سے صحیح سالم پتے الگ کئے جاتے ہیں انہیں امونیا گلیسرین اور پانی کے آمیزے میں چند دنوں تک بگھو کر محفوظ کیا جاتا ہے اور خوبصورت فریمز میں پیک کر کے دنیا کے دور دراز ممالک تک شپنگ کی سہولت کے ساتھ فروخت کے لیے پیش کر دیا جاتا یے ــ

نیو یارک کا خزاں دوہزار پندرہ برائے فروخت ـ ـ ـ ـ
نیو انگلینڈ کا خزاں برائے فروخت ـ ـ ـ ـ تین زرد پتوں کا ایک پیک صرف انیس ڈالر میں ـ ـ ـ ـ ـ

مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ خزاں کا موسم اپنی قیمت مقرر ہونے پر ملول ہو کر اور بھی اداس ہو گیا ہے ــ یہ تو بے وقعت کے پردے میں ان مول تھا ــ فنا کے پردے میں بے خودی کا راز تھا اور اداسی میں ملفوف رقصاں رنگوں کا تہوار تھا ــ
اب چوکھٹوں میں امونیا سے محفوظ کیے گئے یہ پتے کہاں پیغام رسانی کر پائیں گے؟
ان موسم کے تاجروں سے کیا بعید کہ کبھی نیم خنک شوریدہ سر ہوا بھی پولیتھین میں پیک کر کے مارکیٹینگ کے لیے پیش کر دیں ــ پھر سوچتی ہوں کہ یہ چند پتے جو کسی کی یادوں کا دریچہ ہونے کی بنا پر کئی ضرورت مند انسانوں کا روزگار بھی تو بنے ہوں گے مگر کیا لکھوں کہ فطرت کو عام رکھنے کی بجائے کارپوریٹ کردینے کا سلسلہ تو دنیا بھر میں جاری ہے ــ ساحلوں پر تعمیر شدہ ریسارٹ ہوں یا پہاڑی سلسلوں میں بنے تھیم پارک، جنگلوں میں بنی سیر گاہیں ہوں یا صحراؤں کے دامن میں بنے وائلڈ پارک اور شکار گاہیں ــ کیا حسن فطرت تک انسان کی رسائی اب مالی وسائل کی دستیابی سے مشروط ہو جائے گی ــ کیا بہار کے پھولوں کے علاوہ اب خزاں کی اداسی بھی خریدنا پڑے گی ــ

1 Comment

  1. اچھا تاثریہ ہے.. کاش میں میں کی تکرار کم ہوتی تو بڑے کینوس کی تحریر بن سکتی تھی

Comments are closed.