کھلونے دے کر بہلانے والوں کے لیے بری خبر

نصرت جاوید

کھلونے دے کر بہلانے والوں کے لیے بری خبر

از، نصرت جاوید

چمکتی دمکتی شہ سرخیوں اور ”ماہرین بین الاقوامی قوانین“ کی معاونت سے ہمارے میڈیا کا ایک بڑا حصہ ایک بار پھر لوگوں کو یہ امید دلانا شروع ہو گیا ہے کہ پاکستان کے ”چور لٹیرے“ سیاست دانوں نے ”قومی خزانے کو لوٹ کر“ غیرملکوں میں جو قیمتی جائیدادیں خریدرکھی ہیں، ان کے گرفت میں آنے کے امکانات پیدا ہورہے ہیں۔ ایسا ہوگیا تو شاید حکومتِ پاکستان ان جائیدادوں کی فروخت سے آئی رقوم میں سے اپنا حصہ طلب کرنے کا قانونی حق بھی حاصل کرلے گی۔ ذرا محنت اور لگن سے ہماری سرکار نے وہ حصہ وصول کرلیا تو مجھے اور آپ کو شاید کوئی ٹیکس ادا کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ ناقابلِ برداشت غیر ملکی قرضوں کی یکمشت ادائیگی بھی اس کے بعد بہت آسان ہوجائے گی اور ہم بیٹھے بٹھائے بغیر کچھ کیے ایک خود مختار اور خوش حال ملک بن جائیں گے۔

کھلونے دے کر بہلانے والی یہ کہانی ہمارے ہاں اس وقت بھی بہت مقبول ہوئی تھی جب عدلیہ بحالی کی تحریک کے نام پر چیف جسٹس کے منصب پر لوٹے افتخار چودھری نے وزیر اعظم گیلانی کو مجبور کرنا شروع کردیا کہ وہ سوئس حکومت کو ایک سرکاری چٹھی لکھیں۔ مطلوبہ چٹھی کے ذریعے پاکستان کے وزیر اعظم کو ایک غیر ملک سے اس شبے کا اظہار کرنا تھا کہ اس کی اپنی جماعت کا سربراہ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صدر وہاں کے بینکوں میں ”حرام کی دولت ‘ چھپائے ہوئے ہے۔ یہ دولت مبینہ طورپر 60 کروڑ ڈالر کے قریب تصور کی گئی تھی۔

یوسف رضا گیلانی نے وہ خط لکھنے سے انکار کر دیا۔ موصوف کی نظر میں پاکستان کا آئین انہیں اپنے ہی منتخب صدر کے خلاف کسی غیر ملک کو ایسا خط لکھنے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ افتخار چودھری نے مگر اصرار کیا کہ آئین کی توجیہ فقط عدلیہ کا حق ہے۔
ہمارے میڈیا میں کرپشن کے خلاف جہاد میں مصروف حق گو افراد یکسو ہو کر سپریم کورٹ کی حمایت میں کھڑے ہوگئے۔ گیلانی مگر ٹس سے مس نہ ہوئے۔ بالآخر توہینِ عدالت کے مرتکب ٹھہرا کر اپنے عہدے سے فارغ کردیے گئے۔ بعد ازاں راجہ پرویز اشرف ان کے خالی کردہ منصب پر فائز ہوئے۔ تھوڑی پس و پیش کے بعد انہوں نے مطلوبہ چٹھی بھی لکھ ڈالی۔ سوئس بینکوں میں آصف علی زرداری نے کتنی رقوم جمع کررکھی تھیں ان کے بارے میں کوئی مصدقہ اطلاع سرکاری دستاویزات کی بدولت ہمارے پاس آج تک نہیں آئی۔ مذکورہ رقوم کا قومی خزانے میں لوٹنا تو بہت دور کی بات ہے۔

اس بار جو امید باندھی جارہی ہے اس کا تعلق شریف خاندان کی لندن میں موجود جائیدادوں سے ہے۔ گزشتہ ماہ کے آخری روز برطانوی حکومت نے ایک قانون متعارف کروایا ہے۔ اسے Unexplained Wealth Order کہا گیا ہے۔ UWO اس کا مخفف ہے۔ اس قانون کے تحت برطانوی حکومت کو یہ اختیار مل گیا ہے کہ وہ 50ہزار پاﺅنڈ سے زائد مالیت کی حامل کسی بھی جائیداد کو خریدنے والے غیر ملکی سے ٹھوس شواہد کے ساتھ یہ معلومات حاصل کرے کہ اس نے سرمایہ کاری کے  لیے خرچ ہوئی رقم کیسے حاصل کی۔ مذکورہ قانون کے اطلاق کے  لیے کوئی timeline طے نہیں کی گئی ہے۔ گزشتہ کئی عشروں میں کسی بھی وقت خریدی کسی بھی جائیداد کے بارے میں ایسے سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں۔ باور کیا جارہا ہے کہ شریف خاندان نے لندن والی جائیدادیں 90 کی دھائی کے آغاز میں خریدی تھیں۔ نظر بظاہر یہ ”حالیہ“ خریداری بنتی ہے۔ اس کے بارے میں سوالات اٹھانے لہذا ضروری ہوجائیں گے۔

شریف خاندان کی لندن میں خریدی جائیدادوں کے بارے میں ممکنہ سوالات کی امید اس  لیے بھی جاگی ہے کہ وہاں کی Transparency International تنظیم نے بھی ان جائیدادوں کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں۔ یہ سوالات اٹھاتے ہوئے اس نے پانامہ دستاویزات کے انکشاف کے بعد سے پاکستان میں شریف خاندان کے خلاف چلائے مقدمات کا حوالہ بھی دیا۔

میں معاشی معاملات کے بارے میں قطعاََ جاہل ہوں۔ منی لانڈرنگ کا لفظ کئی بار سنا ہے۔ اس کے بارے میں لیکن صرف اتنا جانتا ہوں کہ یہ وہ رقم ہوتی ہے جو کسی ملک کا شہری اپنی حکومت سے چھپاتا ہے۔ اسے کسی نہ کسی طرح غیر ملک منتقل کرتا ہے اور پھر اس رقم کو سرمایہ کاری کے عمل سے گزار کر Whiteیا جائز کروا لیتا ہے۔یہ سارا عمل کیسے سرانجام دیا جاتا ہے اس کے بارے میں ککھ پتہ نہیں۔

اس کے بارے میں تحقیق کرنا چاہی تو اتنی خبر ضرور ملی کہ برطانیہ جیسے نام نہاد ”مہذب“ ملکوں ہی نے منی لانڈرنگ کے بے تحاشہ طریقے متعارف کروائے تھے۔ 70 کی دہائی میں یہ دھندا بلکہ بہت چمکا۔ اس عشرے میں عرب-اسرائیل جنگ ہوئی تھی۔ عربوں نے اس کے دوران تیل کے ہتھیار کو استعمال کیا۔ تیل کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے برطانیہ سمیت یورپ میں شدید مندی کا موسم آیا۔بے تحاشہ بیروزگاری پھیلی۔ تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک کے ہاں دولت کے انبار لگ گئے۔ انہیں سمجھ ہی نہ آئی کہ وہ اچانک بارش کی طرح برسی اس دولت کو کیسے استعمال کریں۔

اسی دولت کو واپس یورپ میں لانے کے  لیے ”آف شور کمپنیاں“ متعارف ہوئیں۔عربوں کو لندن جیسے شہروں میں جائیدادیں خریدنے کی ترغیب دی گئی۔ گوروں نے دھڑا دھڑ اپنی دوکانیں اور جائیدادیں فروخت کرکے قصبوں میں قائم فارم ہاﺅسز منتقلی شروع کردی۔ Real   Estate سب سے پر رونق دھندا شمار ہونا شروع ہوگیا۔ یہ سارا دھندا منی لانڈرنگ اور speculation جسے سٹہ یا جوا بھی کہا جاسکتا ہے کی بنیاد پرپروان چڑھا۔

منی لانڈرنگ اور آف شور کمپنیوں کے بارے میں اصل پریشانی اس قت لاحق ہوئی جب منشیات فروشوں کے مافیاز نے بھی ان سہولتوں کو استعمال کرنا شروع کردیا۔ منشیات فروشوں کی نقالی میں دہشت گرد تنظیمیں بھی انہیں استعمال کرنا شروع ہوگئیں اور بالاخر نائن الیون بھی ہوگیا۔

بینکوں کے ذریعے رقومات کی ایک سے دوسرے ملک منتقلی پر نگاہ رکھنے کا کڑا انتظام نائن الیون کے بعد ہی سے شروع ہوا ہے۔ اس نگہبانی کا ہدف مگر آف شورکمپنیوں کی حوصلہ شکنی ہرگز نہیں ہے۔ امریکہ کی کئی طاقت ور کمپنیاں جن میں Apple جیسی اجارہ دار فون اور کمپیوٹر سازکمپنی شامل ہے، آج بھی امریکی ٹیکسوں سے بچنے کے  لیے آف شور کمپنیوں کی بدولت ہی غیر ملکوں ہی میں نہیں بلکہ امریکہ میں بھی سرمایہ کاری جاری رکھے ہوئے ہیں۔

برطانیہ میں لاگو ہوئے UWO کا اصل ہدف ان روسی اور چینی افراد کو نشانہ بناناہے جنہوں نے ا پنے اختیارات کی بدولت بے تحاشہ دولت جمع کی۔ اسے ڈالروں میں تبدیل کیا اور ان ڈالروں کو کسی بینک کے ذریعے ا ستعمال کرنے کے بجائے cash payments کے ذریعے لندن جیسے شہروں میں جائیدادیں خریدیں۔ شریف خاندان کی جائیدادیں، نظربظاہر،بینکاری کے ریگولر نظام کے تحت خریدی گئی ہیں۔ ویسی ہی سہولتوں سے شاید جہانگیر ترین جیسے افراد نے بھی فائدہ اٹھایا تھا۔

کھلونے دے کر بہلائے دلوں کے  لیے بُری خبر مگر میری نظر میں یہ ہے کہ UWO کے تحت برطانوی حکومت کی ہتھیائی جائیدادیں جب کھلی مارکیٹ میں فروخت ہوں گی تو ان سے حاصل ہوئی رقوم برطانوی خزانے ہی میں جائیں گی۔ برطانوی حکومت نے عہد کیا ہے کہ وہ ایسی رقوم کو اپنے ملک میں امن وامان کے اداروں کو مزید مو¿ثر بنانے کے  لیے استعمال کرے گی۔ شریف خاندان کی جائیدادیں لہذا UWO کے تحت ہتھیا بھی لی گئیں تو ہمارے خزانے میں ایک دھیلا بھی نہیں آئے گا۔ اس ضمن میں ”ساہنوں کی“ والا رویہ اختیار کرنا ہی مناسب ہوگا۔

بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت