برصغیر میں ریلوے کی ہڑتالیں

برصغیر میں ریلوے کی ہڑتالیں

برصغیر میں ریلوے کی ہڑتالیں

ڈاکٹر لال خان

ایک حد تک سماجی جمود کے باوجود محنت کش طبقات کی جدوجہد جاری ہے۔ یہ جدوجہد وقتاً فوقتاً پھٹ کر منظر عام پر آتی ہے اور مخصوص اوقات پر فریب کے آہنی پردوںکو فاش کر دیتی ہے۔ اس کی شدت کی وجہ سے میڈیا انہیں دکھانے اور چھاپنے پر مجبور ہوتا ہے۔ نان ایشوز کی جگہ سارے سماج کی توجہ ان پر مبذول ہو جاتی ہے۔

گزشتہ دنوں ریلوے کے ڈرائیوروں نے ہڑتال کر دی تھی‘ جس سے ریل کا پورا نظام جام ہو گیا۔ ہفتہ 22 جولائی کی رات بارہ بجے ریلوے ڈرائیوروں نے پورے ملک میں ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ ساری رات ریل گاڑیاں کھڑی رہیں۔ اس ہڑتال سے ریل کا سارا نظام مفلوج ہو گیا اور تیز گام، قراقرم، ایکسپریس، فرید ایکسپریس، خیبر میل، علامہ اقبال، ملت ایکسپریس اور پاکستان ایکسپریس روہڑی، مہراب پور، خیر پور اور دوسرے سٹیشنوں پر رکی رہیں۔ شالیمار ایکسپریس، کراچی ایکسپریس، نائٹ کوچ اور دوسری کئی گاڑیاں لاہور سٹیشن پر کھڑی تھیں۔ کراچی اور روہڑی سٹیشنوں پر طویل انتظار کرنے والے برہم مسافر ریلوے حکام کو اس کا ذمہ دار قرار دے رہے تھے۔

سکھر ڈویژن میں بھی درجنوں گاڑیاں رکی ہوئی تھیں۔ پاکستان ریلوے کے کئی سو ہڑتالی ڈرائیور پے سکیل میں اضافے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ دیگر مطالبات میں مائلیج الاؤنس، ان کے معطل ساتھیوں کی بحالی اور اجرتوں میں اضافہ شامل ہیں۔ ایسوسی ایشن نے مطالبات تسلیم نہ ہونے تک پیچھے نہ ہٹنے کا اعلان کیا۔ حکام ڈرائیوروں کی اس جرات پر بہت غضب ناک تھے۔ انہوں نے ہڑتال میں شریک ڈرائیوروں کے خلاف شدید اقدامات کی اعلان کیا۔ پہلے دن ہی راولپنڈی سے چھ اور کراچی سے آٹھ ڈرائیوروں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ہڑتالی قائدین اور انتظامیہ کے درمیان ابتدائی مذاکرات ناکام ہو گئے۔ وزارتِ ریلوے اور ریلوے کے مختلف محکموں کے حکام نے ہڑتال کو توڑنے کی خاطر کنٹریکٹ پر ڈرائیوروں کی بھرتیاں شروع کر دیں۔ اگرچہ بعد ازاں ابتدائی بات چیت کے بعد کچھ گاڑیاں چل پڑیں لیکن یہ اس مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے۔

آئیے برصغیر میں ریلوے کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ برصغیر میں تاریخی طور پر ریل مزدور محنت کشوں کی جہدوجہد میں پیش پیش رہے ہیں۔ ہندوستان میں محنت کشوں کی سب سے پہلی ہڑتال انڈین ریلوے کے قیام کے محض نو برس بعد مارچ 1862ء میں ہوئی تھی‘ جب ہاوڑہ سٹیشن پر 1200 مزدوروں نے آٹھ گھنٹے یومیہ کے مطالبے کے لیے ہڑتال کی تھی۔ ریل مزدوروں کی جدوجہد کی ایک اور بڑی مثال 1928ء میں ساؤتھ انڈین ریلوے ورکرز یونین کی 3100 مزدوروں کو برطرف کرنے کے خلاف عام ہڑتال تھی۔ 29 جون سے 2 اگست تک ہڑتال جاری رہی اور جنوبی ہندوستان میں مال اور مسافروں کی آمد و رفت مفلوج ہو کر رہ گئی۔ مدراس حکومت اور ساؤتھ انڈین ریلوے نے مزدوروں پر کریک ڈاؤن کر دیا۔ اکثر قائدین گرفتار کر لیے گئے اور یونین کی حیثیت ختم کر دی گئی۔ مایاورام میں 5000 مزدروں نے پٹڑیوں پر لیٹ کر ریل کا نظام روک دیا تھا۔ مسافروں کو آنے جانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ہندوستان کے بٹوارے کے بعد پاکستان میں زیادہ تر ریل مزدور مضبوط اور لڑاکا یونینز میں منظم تھے۔ یکم فروری 1967ء کی ریلوے ہڑتال ملک کی تاریخ کی بڑی ہڑتالوں میں سے ایک ہے‘ جس میں پاکستان ویسٹرن ریلوے مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔ زیادہ تر گاڑیاں کینسل کر دی گئیں، جو راستے میں تھیں‘ وہیں رک گئیں۔ اس وقت سامان کی نقل و حمل کا سب سے بڑا ذ ریعہ ریلوے تھا۔ ہڑتالی محنت کشوں نے اناج، تیل اور کچھ دیگر ضروری اشیا کے علاوہ ہر چیز کی نقل و حمل روک دی اور ریلوے سٹیشنوں پر غیر استعمال شدہ ٹکٹوں کی واپسی کے لیے مسافروں کی لمبی قطاریں دیکھی جا سکتی تھیں۔ راستے میں کھڑی گاڑیوں کے ہزاروں مسافروں کو کئی روز تک دن رات وہیں گزارنے پڑے اور شہری دفاع کے محکمے کے ذریعے انہیں کھانا پہنچایا گیا۔

وہ ہڑتال صبح نو بجے شروع ہوئی تھی۔ ہڑتالیوں میں کیبن مین، پوائنٹ مین، فائر مین، کلینر اور ریلوے کے ہر ڈیپارٹمنٹ کے لوگ شامل تھے۔ مغل پورہ ورکشاپ کے مزدور 30 جنوری 1967ء کی دوپہر ہڑتال میں شامل ہوئے۔ ان کے بعد لوکو شاپ کے مزدور تھے۔ باقی کلاس فور محنت کش اگلے ہی دن ساتھ شامل ہو گئے۔ خیبر میل صبح نو بجے سے کچھ دیر پہلے پشاور سے لاہور پہنچی لیکن کراچی کے لیے روانہ نہ ہو سکی۔ کراچی سے آنے والی تیز گام چھانگا مانگا میں روک دی گئی اور راول پنڈی سے آنے والی تیز گام لالہ موسیٰ میں کھڑی تھی جبکہ سرگودھا سے آنے والی ایک ایکسپریس گاڑی بادامی باغ میں رک گئی۔

عوامی ایکسپریس لاہور کے مرکزی سٹیشن تک نہ پہنچ پائی اور لاہور کینٹ سٹیشن پر روک دی گئی۔ لاہور سٹیشن پر ہزاروں مزدور نعرہ بازی کر رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ صرف تحریری ضمانت پر ہی وہ کام پر لوٹیں گے۔ کراچی سے چلنے والی بڑی ایکسپریس گاڑیوں میں صرف لاہور کے لیے کراچی ایکسپریس روانہ ہو سکی۔ گیارہ بجے کے بعد روانہ ہونے والی تمام گاڑیاں کینسل کر دی گئیں اور بلیک بورڈ پر لکھ دیا گیا کہ ”تمام گاڑیاں غیر معینہ مدت کے لیے موخر ہو چکی ہیں‘‘۔ 1967ء میں ہونے والی یہ 13 روزہ ہڑتال نومبر 1968ء کی انقلابی تحریک کا پیش خیمہ تھی۔ اس ریڈیکل عوامی تحریک میں سوشلسٹ انقلاب ایک حقیقی امکان بن چکا تھا‘ اور اس میں شامل محنت کش اور نوجوان اسے محسوس کر رہے تھے۔

حالیہ کچھ عرصے میں آئل ٹینکر، ڈاکٹر، ٹیچر، نرسیں اور ریلوے ڈرائیور ہڑتال کر چکے ہیں۔ سماج کی سطح کے بالکل نیچے محنت کش طبقات اور محکوم عوام کی اس استحصالی اور جابر نظام کے خلاف بغاوت اور نفرت پک رہی ہے۔ وقتاً فوقتاً معیشت اور سیاست کے مختلف شعبوں میں ہونے والی ہڑتالیں آنے والی کہیں بڑی عوام بغاوت کا پیغام دے رہی ہیں۔ اس عوامی تحریک سے انتہائی ہوشیار تجزیہ کار بھی حیران و پریشان ہو کر رہ جائیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ ہڑتالیں وقفے وقفے سے ابھر رہی ہیں اور ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہیں جس سے حکمران طبقہ اور ریاست نسبتاً باآسانی انہیں دبانے اور زائل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اس لیے آج معیشت کے مختلف شعبوں کے محنت کشوں اور قیادت کو اتحاد کی ضرورت ہے۔ صنعت کے ہر شعبے میں صرف ایک متحد یونین کا قیام اور مضبوطی‘ دونوں چیزیں بہت اہم ہو چکی ہیں۔ بائیں بازو کے سیاسی کارکنان اور دیانت دار لڑاکا ٹریڈ یونینسٹوں کی کوششوں کے علاوہ نیچے سے بھی ایسا دباؤ بن سکتا ہے جس کے تحت لیڈر متحد ہونے کی طرف جا سکتے ہیں اور ایسا نہ کرنے والی قیادت محنت کشوں کی تحریک میں بہہ کر ختم ہو سکتی ہے۔

حکمران طبقہ نجکاری، ڈاؤن سائزنگ، ری سٹرکچرنگ اور ٹھیکے داری جیسی ظالمانہ اور مزدور دشمن پالیسیاں نافذ کر رہا ہے۔ محنت کشوں کی برداشت کا پیمانہ لبریز ہونے کو ہے۔ تمام بڑی سیاسی پارٹیاں سرمایہ داری کے آگے جھک چکی ہیں۔ میڈیا میں محنت کشوں کی آواز نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن تحریک کے پھٹنے پر معروضی حالات بہت بدل جائیں گے۔ ایسی صورتحال میں محنت کشوں اور نوجوانوں کو آخری منزل تک جانا ہو گا۔ سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے اصلاحات اور ترقی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ محکوم عوام کی نجات کے لیے اس نظام کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ایسی کوئی صورتحال پیدا ہونے سے پہلے ہی حکمران ہوش کے ناخن لیں اور محنت کش طبقے کی بہبود اور بہتری کے لیے ان کے وقتاً فوقتاً پیش کردہ مطالبات پر ہمدردی اور سنجیدگی سے غور کریں۔ محنت کش طبقہ آج کے جدید دور میں بھی معاشرے کے پسے ہوئے طبقات میں شمار ہوتا ہے۔ اسے معاشرے کا خوشحال طبقہ بنانے کے لیے کام ہونا چاہیے۔ یہ ان کا حق ہے۔

بشکریہ: روزنامہ دنیا