سرفروشی کی تمنا ، کم ہمتی کی علامت ہے

ایک روزن لکھاری
ڈاکٹر عرفان شہزاد، صاحبِ مضمون

سرفروشی کی تمنا ، کم ہمتی کی علامت ہے

ڈاکٹر عرفان شہزاد

انسانی نفسیات ہے کہ ایک بار کسی کو اپنا لیڈر مان لے، کسی کو اتھارٹی تسلیم کر لے تو اپنی سوچنے سمجھنے کو اس شخصیت یا اتھارٹی کے تابع کر دیتا ہے۔ ییل یونیوسٹی کے پروفیسر اسٹینلے ملگرم نے انسانی نفسیات کے اس پہلو پر تجربات کیے اور پریشان کن تنائج اخذ کیے تھے۔ انہوں نے اپنی عرفی حیثیت کے بل بوتے پر لوگوں کو ایک تجربے میں شریک کیا۔ تجربے میں حصہ لینے والوں سے کہا گیا کہ دوسرے کمرے میں بیٹھے شخص سے  مائیک پر کچھ سوالات پوچھیں اور غلط جواب دینے پر اسے ایک ٹرمینل، جو ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک جاتا تھا، کے ذریعے مختلف سطحوں کے بجلی کے جھٹکے لگائیں۔ ہر غلط سوال کے بعد بجلی کے جھٹکوں کی قوت میں اضافہ کرتے چلے جانا تھا۔ تجربے میں دیکھا گیا کہ جواب دینے والا شخص بجلی کا کرنٹ لگنے کے بعد ایک مرحلے میں چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ اسے مزید کرنٹ نہ لگایا جائے، اسے ہارٹ اٹیک آتا محسوس ہو رہا ہے، اور ایک وقت آنے پر بجلی کے جھٹکے لگانے کے باوجود اس کی طرف مکمل خاموشی چھا جاتی ہے۔ لیکن سوال پوچھنے والے، اتھاریٹیز کے کہنے پر اسے مسلسل کرنٹ لگاتے چلے جاتے ہیں۔ وہ پریشان بھی ہوتے ہیں انہیں کیا کرنا پڑ رہا ہے، لیکن اکثریت نے آخری درجے کے بجلی کے جھٹکے دیئے۔ انٹر نیٹ پر پروفیسر ملگرم کے تجربات کی ویڈیوز دستیاب ہیں۔

[su_quote]ہم کہہ سکتے ہیں کہ دوسروں کا مقلد اور تابع ہو کر ان کے ادنٰی اشارے پر جان تک دے دینا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ ہم اسے فدا کاری کہہ سکتے ہیں لیکن اسے بہادری کہنا مشکل ہے۔ یہ اندھی تقلید ایک نشے کی طرح ہوتی ہے اور آدمی بغیر عقل استعمال کیے اور اپنے اقدام کو مکمل طور پر سمجھے بنا یہ سب کر گزرتا ہے۔ بلکہ یہ سب کرنے سے پہلے وہ اپنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو باقاعدہ معطل کرنے کا اہتمام کرتا ہے۔ مستزاد یہ کہ لیڈرز یا اتھارٹیز بھی پوری کوشش کے ساتھ اپنے پیروکاروں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو پنپنے نہیں دیتے۔ ایسا کرنا ان کے مفاد میں نہیں ہوتا۔ [/su_quote]

جنگوں میں تو بعض اوقات فوجیوں کو شراب اور دیگر نشہ آور ادویہ پلا کر آگے دھکیل دیا جاتا ہے۔ لیکن عام حالات میں اس طرح کا نشہ پیدا کرنے کے لیے ہیجان خیزی کا پیدا کیا جانا ضروری ہوتا ہے۔ چبانچہ اس کے لیے پرکشش  اور ہہجان خیز نعرے ایجاد ہوتے ہیں، لوگوں کی دکھتی رگیں تلاش کی جاتی ہیں، جذباتی بیانیے تشکیل دیے جاتے ہیں اور یوں پیروکار اپنی عقل کو معطل کر کے سرفروشی کے جنون میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

اپنے پیروکاروں میں لیدڑوں کی پیدا کردہ اس کیفیت کو قرآن کے الفاظ میں یوں کہا گیا ہے:

فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطَاعُوهُ  (سوورہ الزخرف، آیت 54)

پس اس طرح اس (فرعون) نے اپنی قوم کو بیوقوف بنا لیا اور انھوں نے اس کی بات مان لی۔

فرعون نے بھی یہی کیا۔ موسٰی علیہ السلام کی دعوت کے بدلے میں اس نے یہ نعرے ایجاد کیے تھے کہ یہ شخص مصریوں کو ان کے ملک سے نکال دینا چاہتا ہے۔ غلام قوم کا فرد ان کے کلچر کو بدل کر اپنا کلچر نافذ کرنا چاہتا ہے۔ حالانکہ موسٰی علیہ السلام کی دعوت میں دور دور تک ایسی کسی بات کا امکان نہ تھا۔ لیکن مصریوں کی قومی عصبیت کو اسی طرح کے نعروں سے بڑھکایا جا سکتا ہے۔

اس کے مقابلے میں اپنی عقل و فہم سے اپنا رستہ تلاش کرنا، ہیجان خیزی کا شکار نہ ہونا، حالات و اقعات کے چلتے دھارے کے رخ بہنے کی بجائے اپنے فہم کی روشنی میں الٹے دھارے تیرنے کو تیار ہو جانا، زیادہ کٹھن، زیاہ حوصلے اور بہادری کا اصل امتحان اور اصل کام ہے۔

انور مسعود نے کہا تھا

کتنا آسان ہے تائید کی خو کر لینا

کتنا دشوار ہے اپنی کوئی رائے رکھنا

اسی لیے آپ تاریخ اٹھا کر دیکھیے، دوسروں کے اشاروں پر جان دینے والوں کی تعداد کروڑوں بلکہ اربوں میں مل جائے گی، لیکن اپنی عقل کی روشنی میں راستہ تلاش کرنے کا حوصلہ کرنے والے تاریخ میں چند گنے چنے لوگ ہی ملیں گے۔

[su_quote]بڑا لیڈر وہ نہیں جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بے وقوف بنا لے، زیادہ بڑے طبقے کو جنون میں مبتلا کر دے، بڑا لیڈر وہ ہے جو لوگوں کو سوچنے سمجھنے پر لگا دے۔ پاکستان میں بد قسمتی سے ایسا کوئی لیڈر کبھی پیدا نہیں ہوا۔ جو بھی آیا اس نے ایک نیا جنون ایجاد کیا اور لوگوں کو اپنے پیچھے لگا کر اقتدار حاصل کرنے کی ٹھانی۔[/su_quote]

افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام اسی مقلدانہ ذہنیت کی آبیاری کرتا ہے، سوال کرنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، خود کی رائے رکھنے پر طالب علم کو باغی تصور کیا جاتا ہے۔ اسی لیے جنون پیدا کرنے کے لیے لیڈروں کو تیار مال معاشرے اور تعلیمی اداروں دونوں سے بآسانی دستیاب رہتا ہے۔ اب تک thinking skills ہمارے تعلیمی نصاب کا حصہ ہی نہیں بن سکیں۔ بن بھی جائے تو ہمارے ہاں  thinking skills کے نصاب کو زبانی یاد کرا کر بچوں کو امتحان میں اعلی نمبر دلوانے کے علاوہ کچھ مزید ہونے کی امید کم ہے۔

آخر میں بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ

جان دے دی اس کے پہلے ہی اشارے پر عدؔیم

میں نے دیکھا ہی نہیں اس کا اشارہ دوسرا