ذاتی زندگی پر پبلک کے حق کی برتری کی سرحدیں

Farooq Ahmed aik Rozan writer
فاروق احمد، صاحبِ تحریر

ذاتی زندگی پر پبلک کے حق کی برتری کی سرحدیں

از، فاروق احمد

ہماری بلا سے شادی کرے یا گندے میسج کرے۔ ذاتی زندگی سے غرض نہیں ہونی چاہیے لیکن صرف اس وقت جب کہ وہ اپنی ایسی بدبودار ذاتی زندگی کے ساتھ اپنی ذات کی کھال میں ہی لیٹا رہے، باہر نہ نکلے۔ ذاتی زندگی میں جیسا بھی لباس پہنے اور پہن کر بازاروں میں گھومے پھرے اس سے بھی غرض نہیں۔ غرض ذہنیت سے ہے۔

ذاتی زندگی کے پہلو فرد کی ذہنیت کے عکاس ہوتے ہیں۔ مسئلہ وہاں شروع ہوتا ہے جہاں فرد اپنی ذاتی زندگی کے انہی پہناوؤں اور پہلوؤں کے ساتھ پبلک پلیٹ فارم پر آتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے اپنی نمائندگی کا حق دو۔

اب یہاں سے دوسروں کا حق شروع ہو جاتا ہے کہ وہ اس کی ذاتی زندگی کو جانچیں اور پرکھیں سوال کریں انگلی اٹھائیں۔ لوگوں کا یہ حق چھینا نہیں جا سکتا کہ وہ بغیر ذاتی زندگی کی چھان پٹک کیے اور اس پر بغیر سوال اٹھائے اس کو اپنی نمائندگی کا حق تفویض کر دیں۔

پبلک فورم پر خود کو نمائندگی کے لیے پیش کرتے ہی فرد اپنی ذاتی زندگی کو بھی آڈٹ کے لیے پیش کر دیتا ہے۔ اسی لمحے اس کا کوئی معاملہ ذاتی نہیں رہتا۔ وہ یہ کہنے کا حق سرینڈر کر دیتا ہے کہ ”یہ میرا ذاتی معاملہ ہے۔“ پبلک کا جاننے کا حق فرد کے ”ذاتی معاملہ“ حق کو منسوخ کر دیتا ہے۔

ذاتی زندگی کے معاملات کو ہینڈل کرنے کی اس کی صلاحیت سے پبلک یہ جج کرتی ہے کہ وہ پبلک فورم پر معاملات کو کیسے ہینڈل کرے گا۔ پرسنل لائف میں اپنی ذاتی ذمے داریاں ادا کرنے میں ناکام رہا ہو تو پبلک فورم پر ذمے داریوں سے کس طور عہدہ براہ ہو گا۔
چور ہے تو پبلک فورم پر بھی چوری کرے گا۔ ذاتی زندگی میں جھوٹا، دوغلا، منافق، سازشی، کٹھ پتلا، نشئی، بدزبان، بداخلاق، اخلاق باختہ، سیکس مینئیک sex maniac ہو تو پبلک لائف میں کیونکر ان علتوں سے پرے رہ سکے گا۔

اسی طرح جب ایک شخص بار بار شادیاں کر رہا ہو تو اس فعل کو اپنی پرائیویٹ لائف قرار دے کر فرار نہیں ہو سکتا۔ سوال تو بنتا ہے۔ اور جہاں سوال بنتا ہے وہاں مذاق بھی۔ بار بار شادیاں کرنے والے شخص سے سوال بنتا ہے کہ جب تم اپنی پرسنل لائف میں مستحکم اور معاملہ فہم نہیں ہو۔

جب تم اپنے قریبی رشتوں سے بھی نباہ نہیں کر سکتے، جب تم اپنی بیٹی سے ہی مخلص نہیں ہو، جب تم کسی ایک کے ساتھ بھی نباہ نہیں کر سکتے تو پھر تم یا تو ذہنی خلفشار کا شکار ہو، کسی نفسیاتی مرض میں مبتلا ہو، معاملہ فہمی اور نباہ کی صلاحیت سے محروم ہو۔

لوگ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا سبب ہے تمہارا ایک چھوڑ دو سے نباہ نہیں ہو سکا۔ تمہاری شخصیت اور مزاج میں ایسی کون سی کجی ہے جو وہ تمہیں چھوڑ کر جا چکی ہیں۔ کیا سبب ہے کہ تم جنسی کج روی کا شکار ہو کہ بدترین قومی بحرانوں میں عورت، جنس اور شادی تمہاری توجہ کا محور بنے رہتے ہیں۔

یہ سوال بنتے ہیں۔ اس لیے اب بات صاف ہو جانی چاہیے سیاسی شخصیات کی  پرسنل لائف پر پبلک کے حق کی برتری کی سرحدیں کہاں کہاں تک پھیلی ہوئی ہیں۔