پانامہ فیصلہ اور سچ کا سفر

ملک تنویر احمد، Malik Tanvir Ahmed
ملک تنویر احمد، صاحبِ مضمون

پانامہ فیصلہ اور سچ کا سفر

(ملک تنویر احمد)

انیسویں صدی کے معروف فرانسیسی ناول نگار ایملی زولا نے ایک بار کہہ تھا “The Truth is on March and nothing will stop it” یعنی سچائی کا سفر جاری رہے گا اور کوئی بھی اس کی راہ میں مزاحم نہیں ہو سکتا۔سپریم کورٹ نے پانامہ کیس میں مزید تحقیقات کا فیصلہ سنا کر وزیر اعظم اور ان کے خاندان کومشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔گزشتہ برس پانامہ انکشافات نے جب ناجائز ذرائع آمدن سے بیرون ملک اثاثے بنانے میں ملوث افراد کو بے نقاب کیا تو اخلاقی دباؤ سے ضمیر پر لگنے والے کچوکے جہاں چند سربراہان حکومت اور وزراء کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا سبب بنے تو دوسری جانب قانون کے تادیب و تعزیر کے ہتھوڑوں نے بہت سوں کو بوریا بستر لپیٹنے پر مجبور کر ڈالا۔

اس کرہ ارض پر اس پاک سرزمین کو ہی یہ اعزاز حاصل رہا کہ اخلاقی جواز کھونے کے باوجود بھی ڈھٹائی اور بے شرمی سے یہاں کے حکمران اقتدار سے جونک کی طرح چمٹے رہے ۔ ہماری سیاست میں با لعموم اور نواز لیگی صفوں میں با لخصوص اخلاقیات ایک قطعی طور پر عنقا جنس ہے اس لئے تو ماڈل ٹاؤن جیسی خونچکاں بربریت پر سربراہ حکومت اور پنجاب کے خادم اعلیٰ تو کجا کسی درباری وزیر کی مونچھ کا بال بھی ٹیڑھا نہ ہوا۔اخلاقی طور پر تہی دست نواز لیگی حکومت کو جب قانون کے کٹہرے میں گھسیٹا گیا تو اس کا سہرا مکمل طور پر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے سر پر بندھتا ہے جو اپنے مخالفین کی جانب سے اڑائی گئی تنقید اور استہزاء کی گرد میں ثابت قدم رہے۔

نواز لیگی جو مخالفین کی ذاتیات پر کیچڑ اچھالنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں اور ان کی اس مہارت کے سامنے ماضی میں پیپلز پارٹی بھی بے بس دکھائی دیتی تھی تاہم اس بار اسے عمران خان کی صورت میں ایک ایسے فرد سے واسطہ پڑا جسے وہ بد زبانی، بد کلامی اور ذات پر رکیک حملوں سے مرعوب نہ کر سکے۔ سپریم کورٹ نے پانامہ کیس پر جو سماعت کی وہ عمران خان کی محنت شاقہ کا ہی ثمر تھی جس پر اسے کریڈٹ نہ دینا صریحاً نا انصافی ہو گی۔سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان نے پانامہ کیس کا فیصلہ سنا کر اسے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے حوالے کر دیا تاہم وزیر اعظم نواز شریف کی بطور وزیر اعظم اہلیت دو کے مقابلے میں تین جج صاحبا ن کی رائے کی وجہ سے بر قرار رہی۔

عدالتی فیصلے کے مطابق اس تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے دو صاحبزادے پیش ہو کر بیرون ملک اپنی جائیدادوں اور اثاثو ں کی خریدار ی کے بارے میں حقائق پیش کریں جو معز ز عدالت کے نزدیک ابھی تک پیش نہیں کئے جا سکے۔عدالتی فیصلے پر نواز لیگی بز ر جمہروں کی خوشی اس حد تک تو دیدنی ہے کہ عدالت عظمیٰ نے اس طرح نواز شریف کو گھر روانہ نہیں کیا جو ماضی میں یو سف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے کیس میں بھگتنا پڑا تاہم نواز شریف اور ان کے خاندان کی بیرون ملک جائیداد کے بارے میں معزز جج صاحبان نے جو بھی مشاہدات اور معروضات اپنے فیصلے میں قلم بند کئے ہیں اس نے میاں نواز شریف کے اس حق حکمرانی کو بر ی طرح مجروح کیا ہے جو آئینی اور قانونی کے ساتھ ساتھ اخلاقی ستونوں پر استوار ہوتا ہے۔

پانامہ انکشافات نے میاں نواز شریف کی اخلاقی ساکھ کو روز اول سے مجروح کیا تھا اور اب عدالتی فیصلے نے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے ۔ ریاست کے سب سے اعلیٰ حکومتی عہدے پر براجمان فرد اگر اخلاقی ساکھ جیسا جوہر کھو بیٹھے تو اس کے بعد اس پورے نظام حکومت کی افادیت، فعالیت اور قبولیت پر بھی شکوک و شبہات کے ایسے بد نما نقوش ثبت ہو جاتے ہیں جو ووٹ کے ذریعے منتخب ہونے کے قانونی جواز پر بھی کالک مل دیتے ہیں۔میاں نواز شریف کو پی پی پی کے وزرائے اعظم کی طرح عدالتوں سے اقتدار شکن فیصلوں کو سامنا نہیں کرنا پڑا جسے ہم ان کی خوش بختی کہہ لیں یا پھر ایک پنجابی وزیر اعظم کو حاصل وہ خصوصی رعایت جو سندھی اور سرائیکی وزرائے اعظم کے نصیب میں نہ تھی۔

معزز جج صاحبان کے فیصلے پر سر تسلیم خم لیکن وسطی پنجاب کے میدانوں سے دور سرائیکی، سندھی اور بلوچ خطوں میں ایسی سوچ بہت گہری میں ذہنوں میں پیوست ہے کہ دار و رسن اور نااہلی کے پھندے فقط سندھی اور سرائیکی وزرائے اعظم کے مقدر میں لکھا ہوا ہے جب کہ پنجابی وزیر اعظم اپنی حکومت سے ہاتھ دھونے کے بعد بھی بحالی کے جام نوش کر تا ہے اور پانامہ جیسے اسکینڈل میں بھی اناہلی کے پھندے سے بچ نکلتا ہے۔عدالت کے فیصلے کے بعد نواز لیگی رہنما اور کارکنان جس طرح فر ط مسرت سے مغلوب ہو کر مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں ایسا مناظر شاید چشم فلک نے آج تک نہ دیکھے ہوں گے۔ایک وزیر اعظم اور اس کا خاندان تحقیقات کے چکی میں پسنے کے لئے ڈالا جا رہا ہے اور نواز لیگی صفوں میں ایسی خوشی اور مسرت ۔

چہ معنی دارد۔۔پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے نے ایک سمت کا تعین کر دیا ہے جسے اب سچائی کی منزل پر جا کر اختتام پذیر ہونا چاہئے۔عدالت عظمیٰ نے فقط اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ جس مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کے سپرد انہوں نے وزیر اعظم اور ان کے صاحبزادوں کی جائیداد اور اثاثوں کا فریضہ سونپا ہے وہ غیر جانبداری اور حکومتی اثر و نفوذ سے آزاد ہو کر اس ٹاسک کو تکمیل تک پہنچا سکے۔پانامہ کیس آسمانی قوتوں کا نازل کردہ قہر لگتا ہے جس نے ان عناصر کی بد عنوانی کو زبان زد عام کیا جو بظاہر شرافت اور دیانت کا پیکر بنے ہوئے تھے۔

عشروں سے نام نہاد ایمانداری اور دیانتداری کا لبادہ اوڑھے ہوئے اس حکمران خاندان کو جب پانامہ انکشافات نے بے نقاب کیا تو وکٹر ہو گیو کے عظیم ناول ’’لامزر ایبلز‘‘ کا کردار ولجین یا د آیا۔ولجین ایک جرائم پیشہ شخص ہے۔انسپکٹر جیورٹ برسوں اس کے تعاقب میں رہتا ہے کہ اس مجرم کو جیل میں ڈال سکے۔ایک روز انسپکٹر جیورٹ ولجین کے گھر جا پہنچتا ہے ۔ وہ اسے گرفتار کرنے کی بجائے افراد خانہ کے ہاتھ میں ایک خط تھما دیتا ہے جس میں تحریر ہوتا ہے ’’مسٹر ولجین!میں تمہیں کسی بھی وقت گرفتار کر سکتا ہوں‘‘۔عدالت عظمیٰ نے پانامہ کیس میں بین السطور میں یہ کہہ دیا ہے ’’مسٹر پرائم منسٹر! ۔۔۔۔۔۔۔‘‘ آپ سمجھ تو گئے ہوں گے۔