عدلیہ کی توقیر و اعتماد کی بحالی کے لیے اقدامات

Anwar Abbas Anwar, aik Rozan writer
انور عباس انور، صاحبِ مضمون

U

انور عباس انور

چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے مقدمات کی پیروی کے لیے مناسب وقت نہ دینے کو انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ کیس کی مناسب پیروی کے وقت نہ دینا بہترین انصاف نہیں، ہم ملک میں قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں ججزکے فیصلوں میں واضح طور پر معیار برقرار رہنا چاہیے، اورجلدی میں انصاف کرنا اسے دفن کرنے کے مترادف ہے اور ججز فیصلہ کرتے وقت قانون کو مدنظر رکھنے کے پابند ہیں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ کوئی بھی جج اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ جب تک عدلیہ مضبوط نہیں ہوگی پاکستان ترقی نہیں کرسکتا، ججز فیصلہ کرتے وقت کسی دباؤ یا خوف کو ذہن میں نہ لائیں، جہاں صنفی تفریق ہوتی ہے وہاں انصاف ممکن نہیں، ترقی کے لیے بلا امتیاز انصاف ضروری ہے ۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ دوسری خواتین ججز کانفرنس کے افتتاحی جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان کانفرنس کے اختتامی اجلاس سے خطاب کررہے تھے، چیف جسٹس نے خواتین ججز کو ہدایت کی کہ وہ انصاف کی حکمرانی قائم کرنے میں کردار ادا کریں۔

چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ کی جانب سے فوری انصاف کے حصول کے لیے کیے گئے اقدامات اور فیصلوں کو سراہا اور اور کہا کہ مقدمات کا غیر ضروری التواء ایک بیماری ہے، انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت تمام شہری یکساں ہیں آئین میں مردوں اور خواتین کے حقوق تحریر ہیں۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ لائق تحسین ہیں کہ جب سے انہوں نے چیف جسٹس کے منصب کا حلف اٹھا یا ہے عدلیہ کی توقیر کی بحالی ا ور عوام کو فوری اور شفاف انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جا رہا ہے اور اس مقصد کے لیے گزشتہ ایک سال میں ضلعی عدلیہ کو فعال کرنے کے ساتھ ساتھ ججز کو بااختیار بنانے پر بھی کام ہوا ہے، جوڈیشل آفیسرز خصوصا خواتین ججز کو مناسب سہولتیں فراہم کرنے کے سلسلے میں بھی اقدامات اٹھائے ہیں سید منصور علی شاہ عدلیہ میں زیر التواء مقدمات کی کثیر تعداد کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور اس درینہ مسئلہ سے نمٹنے کے لیے ماڈل کورٹس، مصالحتی مراکز اور خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں ہیں، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ کی کوششوں سے مصالحتی مراکز نے5446 مقدمات میں سے جن میں سے 3651 نمٹائے جبکہ ماڈل کورٹس نے 11 ہزار 113 مقدمات اور کریمنل ماڈل کورٹس میں 4274 مقدمات کے فیصلے کرکے چیف جسٹس کے عزم و حوصلے کو مضبوط کیا۔

کانفرنس میں جتنی بھی تقاریر ہوئیں اور مقررین نے جو بھی اظہار خیال کیا وہ سب اعلی بلکہ بہت ہی اعلٰی ہیں، سید منصور علی شاہ کے ویژن اور عزم پُر وقار کی راہوں میں وکلا گردی کے نمائندوں نے روڑے اٹکانے کی کوششیں کیں اور عزت ماب سید منصور علی شاہ کو دباؤ میں لانے کی متعدد سازشیں بھی ہوئیں لیکن اس مرد درویش کے پایہ استقلال میں لغرزش نہیں ٓائی ،مافیاز نے ان کے اجلے کردار پر الزامات کے دھبے لگانے کی بھی سعی لاحاصل کی لیکن ’’چاند پر تھوکا ہوا پلٹ کر تھوکنے والوں کے منہ پر آتا ہے، ایسا ہی مافیاز کے ساتھ ہوا۔

چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ ماتحت عدالیہ کو فیصلوں میں معیار اور قانون کی پابندی کو ملحوظ خاطر رکھنے کا پابند بنا رہے ہیں اور اگرمقدمات کو جلد نمٹانے کے لیے ججز کو ایک مدت کے اندر مقدمات کا فیصلہ کرنے کا پابند بنا دیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا ، یعنی مقدمات کی نوعیت کے اعتبار سے ججز کو پابند بنایا جائے کہ ایک سال یا دو سال یا اس سے بھی زیادہ کی مدت جوبھی متعین کی جائے اس کے اندر اندر فیصلے کیے جائیں، اگر ایسا بندوبست ہوجائے تو پھر اداکارہ عتیقہ اوڈھو سے برآمد ہونے والی دو بوتل شراب کا کیس ابھی تک عدلیہ میں زیر سماعت نہ ہوتا، اور نہ ہی ہماری ماتحت عدلیہ میں سائلین نسل درنسل دربدر نہ پھریں۔

عتیقہ اڈھو اسلام آباد ایئرپورٹ پر شراب برآمد ہونے پر گرفتار ہوئی اندراج مقدمہ کا عمل تکمیل کو پہنچا ،سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودہری نے از خود نوٹس لیتے ہوئے محترمہ عتیقہ اوڈھو کو ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات جاری کیے اور ملزمہ کو پولیس تحویل سے آزاد کردیا گیا، یہ کیس بھی عدالت میں زیر سماعت ہے 12اپریل 2017 کو سول جج وقار منصور نے عتیقہ اوڈھو کی درخواست برائے بربریت خارج کردی تھی ، کس مرحلے پر ہے کوئی خبر نہیں۔

قندیل بلوچ کو 15 جولائی 2016 کوموت کے گھاٹ اتاراگیا، مقدمہ درج ہوا، پولیس نے فوری اس کے بھائی وسیم کو گرفت میں لیا اور اس نے اعتراف جرم بھی کیا، ، تفتیشی ادارے قاتل کا کھوج لگانے میں کامیاب ہوئے ہیں ، میڈیا پر بیٹھ پر قانون و آئین کی پاسداری کی باتیں کرنے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے والوں کو عبرتناک انجام سے دوچار کرنے کی باتیں کرنے والے مفتی عبدالقوی نے ضمانت خارج ہوتے ہی عدالت سے فرار کی راہ اختیار کی لیکن ناکام رہا اور پولیس نے دھر لیا اور گرفتار ہوتے ہی ایک رات میں اسے چار دل کے دورے پڑگئے اور اب ہسپتال میں ہے ۔

چیف جسٹس آف پاکستان اور لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے علم میں یقینا یہ دونوں کیس ہوں گے اور ممکن ہے کہ ان کو مانیٹر بھی کیا جاتا ہوگا لیکن اگر دو بوتل شراب کا کیس 2011 سے اب تک اپنے انجام کو نہیں پہنچ پایا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچنے کے لیے مزید کتنا وقت درکا ہوگا؟ اور قندیل بلوچ جیسی نہ جانے کتنی قندیلیں جو قتل ہونے سے تو بچ گئیں ہیں لیکن انصاف میں تاخیر کے باعث عدالتوں میں بھٹک رہی ہیں، نا جانے کب تک بھٹکتی رہیں گی۔

عزت ماب دونوں چیف جسٹس صاحبان ماتحت عدلیہ سے کرپشن کے خاتمے کے علاوہ مقدمات کے غیر ضروی التواء کی بیماری جو کہ کینسر بنتی جارہی ہے کے تدارک اقدمات اور فیصلے کریں تو نسل در نسل عدالتوں میں خوار ہونے والے سائلین کی تعداد میں معقول کمی لائی جا سکتی ہے، سید منصور علی شاہ کو عدلیہ میں بہتری لانے، عدلیہ کی عزت و وقار اور عدلیہ پر عوام کے اعتماد کی بحالی اور مقدمات کے جلد تصفیے کے لیے جرات مندانہ فیصلوں پر عمل درآمد کے حوالے سے جو رکاوٹیں اور سازشیں درپیش ہیں چیف جسٹس آپ پاکستان اور بارکونسلوں کو منصور علی شاہ کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ عدلیہ کو یہ ثابت کرنے کے لیے کہ واقعی پاکستان کی عدلیہ آزاد ہے، اور یہ ہر قسم کے خوف سے کوسوں دور ہے، بلوچستان سمیت ملک کے دیگر حصوں سے لاپتہ ہونے   والے سیاسی کارکنان کی بازیابی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

پچھلے دنوں جو دو صحافی اور اینکرز کئی سالوں کی گمشدگی کے بعد منظر عام پر آئے ہیں انہوں نے قانون اور آئین کی حکمرانی اور بالا دستی کے دعوؤں کو سخت دھچکا پہنچایا ہے۔