وادی صحافت میں پر خطر شب و روز

ملک تنویر احمد، Malik Tanvir Ahmed
ملک تنویر احمد، صاحبِ مضمون

وادی صحافت میں پر خطر شب و روز

ملک تنویر احمد

صحافت کی پر خار وادی اس کے مکینوں کے لیے بھی پہلے کم خطر نہ تھی لیکن اب تو اس میں جینے کے لیے ’’لے سانس بھی آہستہ کہ ’’پر خطر ‘‘ہے بہت کام‘‘ کی سی صورت حال دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔پاکستانی سماج میں روز اول سے اہل صحافت کے لیے کچھ سرخ لکیریں متعین کر دی گئی تھیں جن کو پامال کرنے کی جسارت کرنے والوں سے کوڑوں، ٹکٹکی پر باندھنے، پس زنداں اور سولی پر لٹکانے جیسے تعزیراتی و تادیبی حربوں سے نمٹا جاتا تھا ۔ اس سماج میں بہت سوں نے سرکار کے قصیدہ خوان بننے میں عافیت جانی تو بہت سوں نے ضمیر خاموشی سادھ کر اپنی جان بخشی کروائی لیکن سرپھروں سے کوئی بھی سماج خالی نہیں تو پھر اس کرہ ارض پر بسنے والا پاکستانی سماج کس طرح ان دیوانوں ا ور جنونیوں سے پاک ہو سکتا تھا جنہوں نے سر ہتھیلی پر رکھ کر روایات، رسومات، ظل الہی اور مہابلی کرداروں کے سامنے کلمہ حق ذرا سے توقف کے بغیر کہا اور بلند بانگ کہا کہ جس نے جبر پر مشتمل بوسیدہ اور ازکار رفتہ نظام میں دارڑیں ڈال دی تھیں شاید ان کے لیے ہی حبیب جالب کہہ گزرے تھے ع

سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا

رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا

پاکستانی ریاست میں اہل صحافت کو اگر ریاست کے مقتدر اور طاقت ور حلقوں کی جانب سے خطرات لاحق رہتے ہیں تو دوسری جانب غیر ریاستی عناصر ان کی جان کے درپے رہتے ہیں۔اب اس سماج میں اگر آپ نے کسی مذہبی یا مسلکی جماعت کے صاحبان اختیار کے بارے میں لب کشائی کی تو لازماً ان کے ترکش سے نکلنے والے فتوؤں کے تیر آپ کے وجود کو چھلنی کر ڈالیں گے اور اگر اس سے بھی کسی ناخلف اہل قلم کی گوشمالی نہ ہو سکے تو اسے زندیق اور گستاخ کر کے موت کے گھاٹ اتارنے کا اختیار تو ہاتھ میں رکھا ہوتا ہے۔ پاکستان میں مذہب کے نام پر برپا ہونے والی دہشت گردی اور انتہا پسندی کتنے اہل صحافت کو ہڑپ گئی اس کی فہرست بناتے ہوئے آپ کے ہاتھ تو تھک ہی جائیں گے لیکن اس کے ساتھ ساتھ آنسوآپ کی پلکوں کو بوجھل کر ڈالیں گے۔فاٹا اور خیبر پختونخواہ کے خطوں میں بسنے والے اہل صحافت کی صفوں میں سے ایسے کئی نام صفحہ ہستی سے مٹ گئے جو کبھی ان خطوں میں اپنے خاندانوں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزارتے تھے ۔ مذہب کے نام پر دہشت گردی سے کوئی بچ پائے تو لسانیت کے نام پر قیامت برپا کرنے والا عفریت آپ کے دامن گیر ہو جاتا ہے۔فقط کراچی کو ہی ٹیسٹ کیس لے لیں جہاں ایک لسانیت جماعت نے باغی آوازوں کو دبانے کے لیے ظلم و جبر کے کون کون سے ہتھکنڈے نہ آزمائے۔اب اس لسانی جماعت پر آنے والے پر آشوب دور میں جب وہ صحافیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی پر صدائے احتجاج بلند کرتی ہے تو نیرنگی دوراں پر حیر ت بھی ہوتی ہے اور ان کی بے شرمی اور ڈھٹائی پر غصہ بھی لیکن کیا کیا جائے اس معاشرے میں ڈھیٹ پن کے ایسے مظاہرے فقط اس لسانی جماعت تک ہی تو محدود نہیں کہ فقط انہیں کو سا جائے۔اب بلوچستان کو دیکھتے ہیں یہاں کے اہل صحافت آگے کھائی پیچھے کنویں والی صورتحال میں جینے پر مجبور ہیں۔طاقت ور ریاستی اداروں کے مزاج برہم ہوں اور نہ بلوچ جنگجو سیخ پا ہوں یہاں کے اہل صحافت کو ایسا توازن قائم رکھنے کے لیے روز ایک نئی سعی لاحاصل کرنی ہوتی ہے۔گزشتہ چند روز سے بلوچستان میں اخبارات کی ترسیل معطل ہے اور تادم تحریر یہ بندش برقرار ہے۔ اخبارات کی ترسیل میں یہ تعطل بلوچستا ن میں سرگرم جنگجو ؤں کی جانب سے دھمکیوں کے باعث آیا ہے ۔بلوچستان کے شہر، دیہات اور گاؤں کئی روز سے اخبارات کی فراہمی سے محروم ہیں۔ بجا طور پر بلوچستان کے عوام کو معلومات کی فراہمی سے محروم رکھنا انتہائی زیادتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ ریاسٹ کی رٹ پر بھی سوالیہ نشان ثبت کر رہی ہے جس کے اداروں کے بقول بلوچستان میں امن بحال ہو چکا ہے۔یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ جہاں وہ لوگوں کے جان و مال کی ذمہ دار ہے تو اس کے ساتھ ساتھ وہ صوبے میں اظہا ر ائے کی آزادی کو یقینی بنائے ۔بلوچستان کے صحافیوں کو آزادی پسندعناصر کی جانب سے دھمکیاں اور اخبارات کی ترسیل کی بندش بہت سے سوالات کو جنم دے رہی ہے جو صوبے میں مکمل طور پر امن کی بحالی پر سوالیہ نشان چھوڑ رہے ہیں۔اسلام آباد کے با رونق علاقے میں اگر ایک انگریزی اخبار کے صحافی پر حملہ ہو تا ہے اور حملہ آور دن دیہاڑے اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں چھپ ہو جاتے ہیں تو پھر دور افتادہ بلوچستان میں صحافت کی آزادی کو کیسے ممکن بنایا جائے گا۔اسلام آباد میں مجروح ہونے والا صحافی کی تحریریں کبھی بھی متاثرہ کن نہیں رہیں اور اس میں جھلکنے والا تعصب کا ایک خاص رنگ اس کی غیر جانبداریت کو دھندلا جاتا ہے لیکن اس کا ہر گز مطلب کسی انسانی جان کو اس طرح مجروح کرنا نہیں بنتا کہ اسے جان کے لالے پڑ جائیں۔اخبار میں چھپنے والی تحریر کا جواب تحریر کے ذریعے ہی صائب ٹھہرتا ہے اگر کچھ حلقے اس کی تحریروں سے زچ ہوتے ہیں تو انہیں اس توڑ بھی کسی مہذ ب اور شائستہ انداز میں دینا چاہیے ۔اکیسیویں صدی میں قرون وسطیٰ اور جبرو استبدا د پر چلنے والے معاشروں کی طرح بزور بازو کسی کی زبان بندی کرنا ممکن نہیں۔پاکستانی صحافت بلاشبہ ایک پر آشوب دور سے گزر رہی ہے جہاں غیر جانبدار رہنا بھی کسی بلائے جان سے کم نہیں۔آپ کا ہر روز معاشرے اور ریاست کے اداروں، سیاسی و مذہبی جماعتوں، لسانی و انتہا پسندوں گروہوں اور مقتدر حلقوں کے بارودی سرنگوں سے گزر کر اپنی ذمہ دار یاں ادا کرنا ہوتی ہیں۔اس مرحلے کے طے کرتے ہوئے آپ کسی نہ کسی ناراضگی کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں اب یہ آپ کی قسمت پر منحصر ہے کہ آپ زخمی ہو کر دوبارہ زندگی کی طرف واپس آجائیں یا پھر موت کے اندھے کنوئیں میں گر کر عالم بالا کی طرف کوچ کر جائیں۔یہ کچھ عجب نہیں کیونکہ سچ لکھنے کا ہر جانہ تو دینا پڑتا ہے لیکن شاعر کہہ گزر ا ہے ع

دینا پڑے کچھ ہی ہرجانہ سچ ہی لکھتے جانا

مت گھبرانا مت ڈر جانا سچ ہی لکھتے جانا

باطل کی منہ زور ہوا سے جو نہ کبھی بجھ پائیں

وہ شمعیں روشن کر جانا سچ ہی لکھتے جانا