پین دی سری کا مغز : علامتی کہانی از، آدم شیر

پین دی سری کا مغز

پین دی سری کا مغز

علامتی کہانی از، آدم شیر

اگلے وقتوں کی بات ہے کہ دُور پار کے ایک ملک، وہ ملک کہ جس کے خزانے بھرے ہوئے تھے، جس کی دھرتی سونا اُگلتی تھی، پہاڑوں سے چشمے پھوٹتے تھے، صحراؤں میں نخلستان لبھاتے تھے، میدانوں میں شریر بچے اور کھلنڈرے بزرگ کنکوے اڑاتے، پتے گھماتے تھے، جس کے بازاروں کی چہل پہل کی چاپ دُور دیسوں تک جاتی تھی اورجس کے جوان زمین کا سینہ چیر کر یمنی لعل نکالتے تھے، فولاد ڈھالتے تھے اورشام ڈھلے پیڑوں کی چھاؤں میں گیت گاتے تھے، بانسری کی تانیں لگاتے تھے، مٹیاریں چوڑیاں کھنکاتی تھیں اور مائیں دانت بجاتی تھیں، اُس ملک پر ایک بادشاہ ، وہ

بادشاہ کہ جس کا چہرہ مہرہ انسانوں جیسا، آواز بھی انسانوں جیسی لیکن کوئی حرکت انسانوں جیسی نہ تھی، نازل ہو گیا۔

بادشاہ نے نزول کے بعد ایک خبط پالا کہ وہ بادشاہوں کا بادشاہ کہلائے مگر جہاں گیری کا حوصلہ اس میں نہ تھا سو اُس نے عجب راستہ نکالا کہ عالی شان محلات بنائے جنہیں دیکھنے دُور دُور دیسوں کے بادشاہ آتے اور منھ میں انگلیاں داب لیتے۔ اُس بادشاہ نے ایسی سپاہ تیار کی کہ ویسی دُور دُور کے دیسوں میں کہیں نہ تھی اور اُس کے پاس ایسے ایسے آلاتِ حرب تھے کہ سبھوں کو خوف آتا تھا۔

اُس بادشاہ نے دربار سے وابستہ وزیروں، مشیروں کو یوں نوازا کہ بادشاہوں کو شرم آتی جب وہ اُن کے سامنے جاتے اور اپنے بادشاہ کے قصیدے سناتے۔ درباری کارندوں کو بھی خُوب خُوب دیا کہ وفا دار رہیں اور احکام کی بجا آوری میں کبھی غفلت نہ کریں کہ ایسی نوازشیں اور کون کر سکے گا۔

بادشاہ کی بادشاہی بہت بہت قائم رہی لیکن ایک صورت خرابی کی یہ نکلی کہ سپاہ طاقتور اور وزیر مشیر مال دار اور عملدار تو خوشحال ہو گئے مگر رعایا کنگال ہو گئی اور بادشاہ کے محل اتنے اتنے بڑے تھے کہ رعایا کی آواز غلام گردشوں میں گم ہو جاتی اور بادشاہ تک جو پہنچ بھی جاتی تو بادشاہ کی جوتی کو پروا ہوتی کہ وہ تو بادشاہ تھا اور اُس کی بادشاہی قائم تھی مگر بُرا یہ ہوا کہ جس طرح وہ نازل ہوا تھا ، اسی طرح قحط بھی اتر آیا۔

اب جو آس پاس کے بادشاہوں کو خبر ہوئی تو وہ پہلے ہی جلے بیٹھے تھے سو وہ مل بیٹھ کر طے کر بیٹھے کہ اُس بادشاہ کی بادشاہی میں سے حصہ وصولنے کا وقت آن پہنچا۔ بادشاہ کو بھی بھنک پڑ گئی مگر وہ تو بادشاہ تھا کہ بڑی طاقتور سپاہ، ذہین فطین مال دار وزیر مشیر، اور جان ہتھیلی پر لیے کھڑے کارندے سو وہ کیوں ڈرتا۔

پھر کیا ہوا کہ حملہ ہو گیااورکنگال رعایا نے طاقتور سپاہ کے پیچھے کھڑے ہونے کے بجائے حملہ آوروں کو خوش آمدید کہہ دیا۔

پہاڑوں میں مرحبا کی بازگشت، صحراؤں میں مرحبا کی سرسراہٹ، جنگلوں میں مرحبا کی سائیں سائیں، بازاروں میں مرحبا کی گونج، میدانوں میں مرحبا کی ہوائیں اور کھیتوں، کھلیانوں، باغوں میں مرحبا کے پھل پھول ملے یہاں تک کہ بانسری کی تانیں بھی مرحبا مرحبا۔

اور وہ بادشاہوں کا بادشاہ اور وہ زور آور سپاہ اور وہ شاہوں سے وزیر مشیر اور وہ نواب کارندے معلوم نہیں کیا ہوئے۔ شنید ہے کہ اُن کی پین دی سری ہو گئی۔ مجھے ایک روز کھجلی ہوئی کہ اُس بادشاہ کا مدفن ڈھونڈنے نکل پڑا، نہیں ملا۔