انسانی اعضاء عطیہ کرنا نا جائز، پر خود کُش حملوں میں انہیں اُڑانا مناسب؟

انسانی اعضاء عطیہ کرنا نا جائز

انسانی اعضاء عطیہ کرنا نا جائز، پر خود کُش حملوں میں انہیں اُڑانا مناسب؟

از، مریم ثمر

ایدھی صاحب اس دنیا سے جاتے جاتے بھی انسانیت کے دو عظیم کام کرکے گئے ایک تو اپنی آنکھیں عطیہ کر دیں جو دو نابینا افراد کو لگا دی گئیں جس سے وہ اللہ کی بنائی کائنات کو دیکھنے کے قابل ہوگئے اور ضرور اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ادا کر رہے ہوں گے ۔ دوسرا نیکی کا کام یہ کیا کہ ان لوگوں میں تفریق کر گئے جو انسانیت کے دشمن ہیں جو انسانی جانوں سے کھیلنا جائز قرار دیتے ہیں، خود کش دھماکوں میں اڑنے والےا نسانی اعضاء ان کے نزدیک حرمت کا درجہ رکھتے ہیں۔ مذہب کے نام پر بار بار تلوار نکال لینا ان کا مسلک ہے مگر ۔۔۔۔۔ جب انسانی جان بچانے کی بات آتی ہے تو فوراً جاہلانہ منطق کے ساتھ اس بات کا واویلا کرتے نظر آتے ہیں کہ انسانی جان تو اللہ کی امانت ہے، اس میں خیانت نہیں کی جاسکتی ۔ اور اس سلسلہ میں وہ حدیث بھی پیش کی جاتی ہے جس میں مردے کی حرمت کا بیان ہے کہ جیسے ہی کوئی فوت ہو اس کی آنکھ بند کی جائے ہاتھ پاؤں باندھ دیئے جائیں وغیرہ وغیرہ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ احادیث جنگ کے دوران ان کافروں کے لئے تھی کہ جو مردہ جسم کا ناک کان، گلہ کاٹ دیا کرتے تھے اور لاشوں کی بے حرمتی کیا کرتے تھے، اس سے منع فرمایا ہے۔ ویسے تو پاکستان میں اس وقت یہ حدیث یاد نہیں آتی جب اقلیتوں کے قبرستانوں پر دھاوا بولا جاتا ہے یا مردہ جسم نکال کر اس کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔ اگر اس منطق کو تسلیم بھی کر لیا جائے کہ یہ حدیث ہر مردہ جسم کے لئے ہے کہ اس کی چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے تو میڈیکل سائنس کے بہت سے طالب علم سائنس کی تعلم حاصل کرنے سے محروم ہو جائیں گے۔ تھانے میں مجرم کو تلاش کرنے کے لئے پوسٹ مارٹم بھی اسی حدیث کی رو سے حرام قرار دیا جائے گا ۔ صرف جسم ہی نہیں وطن، جائیداد، روپیہ پیسہ سب اللہ کی امانت ہیں پھر ان میں خیانت کرکے کیون اس ملک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ اپنی جائیداد کی وصیت کیون کی جاتی ہے۔ اگر حرام ہے تو یہ کہ کسی کی جان نہ بچ جائے کسی کو آنکھوں کی روشنی نہ لوٹائی جائے ۔۔۔۔۔۔۔ صد حیف ایسی سوچ پر اگر رسول اللہ ﷺ اس زمانے میں ہوتے تو میرا یقین ہے کہ باوصف اپنے رحمت العٰلمین کے وہ اس بات سے خوش ہوتے کہ ایک انسانی جان بچانے کے لئے کیا کیا کوشش کی جارہی ہے۔ اور کبھی بھی اس چیز کو حرام نہ قراردیتے۔ اس لئے کہ یہ بھی اسلام کا ہی کہنا ہے کہ جس نے ایک انسان کو بچایا اس نے گویا پوری انسانیت کو بچایا۔ مرنے کے بعد اپنے اعضاء کسی انسانی جان کو بچانے کے لئے وصیت کرنا صدقہ جاریہ ہے۔