ملکی سیاست کی موجودہ صورت حال اور پی پی پی کا کردار

قاسم یعقوب ، ایک روزن لکھاری
قاسم یعقوب ، صاحب مضمون

ملکی سیاست کی موجودہ صورت حال اور پی پی پی کا کردار
(قاسم یعقوب)

اگر موجودہ منظر نامہ کا مطالعہ کریں تو تین بڑی جماعتوں کے ووٹرز تین مختلف سطحوں کا مظاہرہ پیش کر رہے ہیں۔ پی پی پی سب سے پرانی جماعت اب سندھ تک محدود ہو گئی ہے مگر یہ سیاسی سطح پر نہیں ہُوا۔ سیاسی سطح پر سب سے زیادہ نقصان شاید پی پی کو ہی ہُوا ہے اور وہ نقصان ہے پی پی کے نظریے کا مر جانا۔ پی پی پی کا ووٹرز شدید پریشان ہے وہ دو سطحوں میں تقسیم ہے ایک وہ بی بی یا بھٹو سے اپنا عشقِ ناتمام واپس نہیں لے رہا (یہ المیہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب سیاسی شخصیات سیاست سے زیادہ اہمیت اختیار کر جائیں) دوسرا وہ اپنے روایتی حریفوں کو لتاڑ رہا ہے اور پس منظر میں اپنے عشقِ ناتمام کی تجدید کر رہا ہے۔

پی پی پی کا ووٹر اپنی پارٹی سے سخت نالاں ہے مگر وہ بھٹو ازم کے جذبۂ لازوال کے ہاتھوں مجبور بھی ہے کہ پی پی کو خیر باد کہہ نہیں سکتا۔ پی پی کا ووٹر پس منظر میں چلا گیا ہے یا اپنے مخالف دھڑے میں جانے سے ہچکچا رہا ہے۔ خاص طور پر وہ نون لیگ کے سخت خلاف ہے۔ چوںکہ نون لیگ کے خلاف ہونا موجودہ طاقتوں کا فیصلہ بھی ہے اس لیے ایسے تمام پی پی ورکرز اور ووٹرز عمران خانی کیمپ میں چلے گئے ہیں بظاہروہ پی ٹی آئی کے ووٹرز بھی بنے ہوئے ہیں مگر پی ٹی آئی کی کسی حماقت پر کھل کر مخالفت بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جب پی پی اور پی ٹی آئی آمنے سامنے آ جائیں تو وہ پی پی کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔

یہ ووٹرز اور حمایت یافتگان اپنی اصل پی پی کو نہیں بھول رہے بلکہ پی پی کی سیاسی شراکت میں عدم شرکت پر سیخ پا بھی ہیں۔ مگر وہ اپنی جماعت سے زیادہ اپنی جماعت کے مخالفین پرغصہ نکال رہے ہیں۔

دوسری طرف نون لیگی ووٹرزاپنی قیادت پر پے در پے کرپشن اور دھاندلی الزامات کی وجہ سے پسپائی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ عموماً نون لیگ کا ووٹر صرف ووٹر ہی ہوتا ہے حمایتی کم نظر آتا ہے کیوں کہ نون لیگی قیادت میں اپنی بھٹو ازم اور عمران خان جیسی شخصیت کا کرشماتی رنگ پیدا نہیں ہو سکا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت نون لیگ کا ووٹرکسی دفاعی صورتِ حال کا شکار نہیں۔ نون لیگی ووٹرز نون لیگ کے وعدوں سے بھی سخت پریشان ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ قوم سے کئے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنایا جائے۔

خاص طور پر انرجی کرائسس کو کسی طور حل کیا جائے۔ نون لیگ اپنے مرکزی ایجنڈے انفراسٹرکچر کی بحالی و ترقی کے ساتھ انرجی کرائسس کو مرکزی مسئلہ بنائے ہوئے ہے۔ نون لیگی قیادت کو اس بات کا بہت اچھا شعور ہے کہ اگر وہ یہ وعدہ پورا نہ کر سکی تو اگلے الیکشن میں نون لیگ کا صفایا بھی ہو سکتا۔ فی الحال نون لیگ الزامات کی سیاست میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے جس سے فوری نکلنا دکھائی نہیں دے رہا۔
پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے اس حوالے سے اپنی پالیسی بہت واضح رکھی ہے۔ وہ نون لیگ کی قیادت کو مسلسل ہٹ کر رہے ہیں تاکہ پنجاب میں ان کے لیے راہ ہموار ہو۔ عمران خان نے دھاندلی، نیٹو سپلائی، پانامہ لیکس اور اب ڈان لیکس وغیرہ کے معاملے میں حکومت کو ٹف ٹائم دیا ہے۔ مگر دوسری سمت عمران خان پر کھلنے والے کیس میں حکومت کی پُر زور کوشش ہے کہ عمران خان کو جتنا گندا کیا جا سکے وہ کر دیا جائے۔ نون لیگی قیادت اس سلسلے میں پوری طرح آگاہ ہے کہ عمران خان پر ڈالے گئے الزامات اُس کی شخصیت کے کرشماتی پہلوؤں کو کم نہیں کر سکتے مگر وہ اس عمل میں یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کچھ اسی قسم کی بے بسی نون لیگی قیادت کو بھی پیش آئی ہے جس منی ٹریل یا دیگر ثبوتوں کی عدم دستیابی سے اب عمران خان کو پیش آ رہی ہے۔ گویا وہ اس کیس میں قوم کے سامنے ایک تقابلی تصویر رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے اُن پر الزامات کا شور کچھ کم ہو سکے۔
ڈان لیکس پر حالیہ فوجی اور سول اشرافیہ میں اتفاق پر بہت گفتگو ہو رہی ہے۔ اصل میں اس ساری صورتِ حال کو ٹھنڈا کرنے میں آرمی چیف کا بہت ہاتھ ہے وہ بنیادی طور پر جمہوری رویوں کے حامی ہیں۔ مگر پوری طرح وہ بھی کسی فیصلے میں با اختیار نہیں ، بہر حال پوری ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو ایک ساتھ لے کے چلنا ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں اسی لیے تاخیر ہوئی۔
ڈان لیکس کے معاملے میں پی پی پی کے کردار نے بہت سے سوال کھڑے کر دیئے ہیں۔ بی بی اور نواز شریف کا میثاق تو ہوا ہو چکا مگر پی پی کی اینٹی اسٹیبلشمنٹ پالیسی کہاں گئی! یہ وہی زرداری ہیں جو فوج کو للکار کے دبئی روانہ ہو گئے تھے اور پھر اپنی قیمت پر واپس آئے مگر سمجھوتہ نہیں کیا۔ شریف دشمنی (جو کہ اصل میں الیکشن مہم بھی ہے) میں وہ فوجی کیبن میں چلے گئے ہیں۔

ڈان لیک اصل میں فوجی بیان تھا جسے پی پی پی والے بھی با آوازِ بلند ورد کرتے رہے۔ پی ٹی آئی والے تو خیر اسی کیبن کے آس پاس گھوم رہے ہیں ان سے کیا گلہ۔ مگر پی پی نے اس سلسلے میں بہت مایوس کیا۔ وہ یہ سب جانتے بھی تھے کہ اس سے فوجی کیبن مضبوط ہوگا اور حاصل کچھ بھی نہیں ہوگا مگر انھوں نے ہر حال میں اینٹی حکومت پالیسی کو جاری رکھنے کی سیاسی حکمت عملی اپنائی۔
اب جب کہ ڈان لیک اپنے انجام تک پہنچ چکی ہے۔ میرے خیال میں اس وقت سب سے زیادہ نقصان پی پی پی کو ہُوا ہے۔

البتہ عمران خان نے اس ایشو پر بھی فائدہ اٹھایا ہے۔ عمران خان کی اینٹی حکومت پالیسی پی ٹی آئی کی مرکزی سیاست کو مضبوط کر رہی ہے۔ایک عرصے تک عمران خان کو معصوم اور بچکانہ سیاست کا طعنے دینے والی حکومت اب عمران خان کے سیاسی سٹنٹ سے پوری طرح دباؤ کا شکار ہے۔ پی ٹی آئی کی کوشش ہوگی کہ کسی طرح جے آئی ٹی پر مزید حکومت کو لتاڑا جائے مگر جے آئی ٹی کی تفتیش بند کمرے میں ہونے سے وہ اس کیس کو زیادہ اچھال نہیں پائیں گے۔ جی آئی ٹی کی کھلی تفتیش کا تقاضا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے تاکہ شریف خاندان زیادہ سے زیادہ ایکسپوز ہو۔
سیاست میں کوئی چیز حرف اول یا آخر نہیں ہوتی۔ سیاست صورتِ حال کو جیتنے کا نام ہے۔ ووٹرز کی بڑی تعداد نظریاتی نہیں ہوتی بلکہ اپنے مفاد یا سیاسی پنڈتوں کے کہنے میں آجاتی ہے۔ کمپین یا رابطہ کاری ، جس کا محرکِ اول و آخر ہتھیار ہے۔ اب کمپین کی باگ ڈور پی ٹی آئی کے ہاتھ میں ہے۔ یہ باگ ڈور نکیلوں کی طرح ہے جسے سیاست کا رخش کسی طرف بھی موڑا جا سکتا ہے۔

About قاسم یعقوب 69 Articles
قاسم یعقوب نے اُردو ادب اور لسانیات میں جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے ماسٹرز کیا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل کے لیے ’’اُردو شاعری پہ جنگوں کے اثرات‘‘ کے عنوان سے مقالہ لکھا۔ آج کل پی ایچ ڈی کے لیے ادبی تھیوری پر مقالہ لکھ رہے ہیں۔۔ اکادمی ادبیات پاکستان اور مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد کے لیے بھی کام کرتے رہے ہیں۔ قاسم یعقوب ایک ادبی مجلے ’’نقاط‘‘ کے مدیر ہیں۔ قاسم یعقوب اسلام آباد کے ایک کالج سے بطور استاد منسلک ہیں۔اس کے علاوہ وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے وزٹنگ فیکلٹی کے طور پر بھی وابستہ ہیں۔