نظریہ ضرورت سے عدالتی فعالیت تک

Malik Tanvir Ahmed
ملک تنویر احمد

نظریہ ضرورت سے عدالتی فعالیت تک

از، ملک تنویر احمد

معروف فرانسیسی مفکر روسو کا ایک فکر انگیز جملہ” to yield to force is an act of necessity, not of will یعنی کہ طاقت کے آگے سر تسلیم خم کرنا ضرورت کا تقاضا ہوتا ہے نہ کہ خواہش اور چاہت کا “شاید صدیوں پہلے ہماری حالت زار کو پیش نظر رکھ کر ہی اس روشن خیال فلسفی کے نخل فکر پر پھوٹا تھا۔ہم اس ضرورت کو پاکستان کی ملکی و سیاسی تاریخ کے تناظر میں ’’نظریہ ضرورت‘‘ کا جامہ بارہا پہنا چکے ہیں۔

اس نظریہ ضرورت کے سرخیل تو ہمارے لائق و فائق چیف جسٹس جناب محمد منیر تھے جنہوں نے پچاس کی دھائی میں اس نظریہ ضرورت کو اس وقت ایجاد کیا جب ایک طاقتور و طالع آزما حکمران کی طاقت اور اقتدار کے زعم سے جسٹس صاحب کچھ یوں سہمے کہ مولوی تمیز الدین حق پر ہونے کے باوجود باطل ٹھہرے اس لیے تو آئین ساز اسمبلی کو توڑنے کے اقدام کو نظریہ ضرورت کا نام نہاد معقول جواز جج صاحب کے نوک قلم سے پھوٹا۔

یہ طاقت کے سامنے عدلیہ کے سرنگوں ہونے کی داستان فقط جسٹس منیر تک ہی محدود نہ رہی اس کے بعد تو طاقت کے قانون کی انصاف کے قانون پر بالادستی ہماری سیاسی تاریخ کا ایک ایسا بدنما دھبا ہے کہ ماہ و سال کے گزرنے کے بعد یہ مزید کریہہ صورت اختیار کرتا گیا۔اب یہ طاقت جنرل ضیا ء کی چھڑی کے خوف سے کانپتی مولوی مشاق کی عدالت ہو یا پھر میاں نواز شریف کے پروردہ جسٹس قیوم کا کٹہرا ہے یا پھر جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء میں جنرل صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے جج صاحبان۔

یہ ایک طویل اندھیری رات تھی جس میں انصاف کے دیے کی لو کی طاقت کے منہ زور طو فانوں کے سامنے مدھم پڑتی رہی۔طاقت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے یہ جج صاحبان ہماری تاریخ میں کرداروں کی صورت میں تو زندہ رہے لیکن و ہ اپنے سر پر عزت و حرمت کے وہ تاج سجانے سے قاصر رہے جو ایک جج کے قلم سے حق و انصاف کا بول بالا کرنے والے فیصلوں سے تاریخ ان کے کھاتے میں ڈالتی ہے۔

اگر عدلیہ کی تاریخ میں ایسے ججوں کے ریوڑ گمنامی کے اندھے کنوئیں میں اتر گئے جو طاقت کے ہتھوڑے کے سامنے اپنے قلم کی حرمت کی پاسداری نہ کر سکے لیکن ایسا بھی نہیں کہ ہماری عدلیہ کی تاریخ ایسے درخشاں ناموں سے خالی ہے کہ جو منہ زور اور طالع آزما قوتوں کے سامنے ڈٹ نہ سکے۔ نمو نے کے طور پر جسٹس کارنیلیس، جسٹس کیانی جیسے دو نام ہی کافی ہیں کہ تاریخ میں طاقت کے سامنے سر جھکانے کے غول کے مقابلے میں چند ایک ایسے سرفروش ایسے بھی ہوتے ہیں جو طاقت کی تند و تیز ہواؤں میں بھی اپنے دامن کو بچا کر رکھتے ہیں۔

نو مارچ 2007کا دن ہماری عدلیہ کی تاریخ میں ایک نیا موڑ لایا۔ جسٹس افتخار چوہدری کے حرف انکار نے جہاں ان کے پی سی او پر حلف اٹھانے کے داغ کو دھو ڈالا تو اس وقت کے ساتھ ساتھ ہماری تاریخ میں عدالتی فعالیت (Judicial Activism) کی بھی نئی صورت گری کر گیا۔افتخار چوہدری کی عدالت نے عدالتی فعالیت کو کس طرح استعمال کیا وہ بھی ہماری تاریخ میں ایک انوکھی طرز کی داستان رقم کر گیا لیکن بہر حال طاقت و قوت سے سرشار عدلیہ نے ان معاملات پر بھی سو موٹو لیا جن کی طرف نگاہ دوڑانے کی جسارت بھی اس ملک میں بہت سوں کو پروں سمیت جلا ڈالتی تھی مثلاً مسنگ پرسنز کے معاملے کو ہی لے لیں کہ جہاں پر ہمارے حساس ادارے بہت حساسیت کا شکار ہیں لیکن عدالت نے بہرحال اس معاملے کو بھی زیر سماعت لایا۔

بدقسمتی سے یہ معاملہ اس طرح سے منطقی انجام تک نہ پہنچ سکا کہ جس میں مسنگ پرسنز کے خاندانوں کی کما حقہ ہو تشفی ہو سکے۔عدلیہ کی اس فعالیت میں ہماری سیاسی کلاس نے عدالت سے زیاد ہ حصہ ڈالا۔ اسے کسی مثبت انداز میں نہ لیجیے گا بلکہ یہ ایک منفی انداز فکر اور طرز سیاست تھی جس میں سیاسی حلیفوں کو عدالت میں گھسیٹنے کی رو ش نے پنپنا شروع کیا۔ گزشتہ پی پی پی کے دور اقتدار میں میمو گیٹ اسکینڈل نامی کیس اس کی ایک بری مثال کے طور پر لوح ایام پر نقش ثبت کر گیا۔ اس کی اپوزیشن پارٹی کے قائد میاں نواز شریف جب پی پی پی کے خلاف کالا کوٹ پہنے عدلیہ کی دہلیز پا ر کر رہے تھے تو ان کا منتہائے مقصود پی پی پی حکومت کو عدالت کے ذریعے ایک سخت آزمائش میں دھکیلنا تھا لیکن ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ اس نوع کے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ حاصل کرنے کے حربے انہیں خود ایک گڑھے میں دھکیل رہے ہیں۔

پانامہ کیس میں پارلیمان اور سیاسی کلاس کے پاس پورا پورا وقت تھا کہ وہ اس معاملے کو عدالت میں لے جانے سے پہلے اپنے تئیں اس کا کوئی ایسا حل نکال سکیں جو دونوں فریقین کو مطمئن کر سکے لیکن میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کا پارلیمان میں مسائل حل کرنے کا ٹریک ریکارڈ نہایت ہی برا ہے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ ایک ایسے کیس کو پارلیمان کے ذریعے حل کرا لیتے جس میں ان کا اور ان کے بچوں کا گلہ پھندے میں پھنسا ہوا ہے۔عمران خان نے عدالت کازنجیر ہلائی۔

پانامہ کیس میں میاں نواز شریف وزارت عظمیٰ سے نااہل ہو کر گھر رخصت ہوئے تو دوسری جانب عمران خان نا اہلی کی تلوار سے صاف بچ نکلے ۔عدالت نے جب میاں نواز شریف کے خلاف فیصلہ دے کر انہیں اقتدار سے رخصت کا تو یہ ہماری تاریخ میں میں کوئی زریں مثال نہیں ہے کہ جس پر انسان شاداں وفرحاں ہو لیکن کیا عدالتی فعالیت کی تیغ سے کٹ جانے والے میاں نواز شریف اب ان عدالتوں پر اس طرح حملہ آور ہوں کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو بولنا پڑ جائے کہ فیصلے آپ کے خلاف آئیں تو آپ جھوم اٹھیں اور خلاف آئے تو آپ اسے سازش اور دباؤ کا نتیجہ قرار دیں۔ میاں نواز شریف کا اپنے پہلے دو ادوار میں ایک نہایت ہی ڈھیلی ڈھالی اور کمزور عدلیہ سے واسطہ پڑا تھا اس لیے تو سپریم کورٹ کی عمارت پر حملہ آور ہونے کے بعد بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ ا جا سکا۔

میاں نواز شریف کو جسٹس قیوم اور جسٹس سعید الزماں صدیقی جیسے جج راس آتے ہیں جو ان کی ہدایا ت پر نا صرف مخالف سیاسی حریفوں کو جھوٹے کیسز میں سزادے ڈالیں یا پھر سپریم کورٹ کو فتح کرنے کے لیے ان کے ہم رکاب ٹھہریں۔میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کی عدلیہ پر تنقید فہم سے بالاتر ہے کیونکہ اسی عدلیہ کی بحالی کا کریڈٹ تو میاں نواز اپنے کھاتے میں ڈالتے ہوئے تھکتے نہ تھے کہ اس نے ایک آمر کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا ۔ اب اگر آپ اسے بھی اپنی جماعت کی طرح زرخرید لونڈی سمجھتے تھے تو اسے آپ کی سادہ لوحی پر محمول کریں یا آپ کی خود غرضی پر.