مسلم امہ کی حقیقت اور آج کا مسلمان

مسلم امہ کی حقیقت اور آج کا مسلمان

از، حرثقلین

ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ آج پورا عالم اسلام ہمہ گیر زوال کا شکار ہے۔ مسلمانوں کو ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کس حد تک یہ تاثر درست ہے۔ اس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ جو حالت مسلمانوں کی آج ہے اس کے کچھ وہ خود ذمہ دار ہیں اور باقی دشمنوں کا کیا دھرا ہے۔ اسلام دشمن قوتوں نے تو مسلم امہ کو کمزور کرنا ہی ہے مگر اب وہ اسلام کا مذاق بھی اڑانے لگے ہیں۔
مغرب جو عالمی معاشرہ تشکیل دینا چاہتاہے اس میں مسلمانوں کا کوئی کردار نہیں ہے اور دوسری طرف امریکہ اور مغرب کے نئے عالمی نظام میں مسلمان ہی سب سے بڑی روکاوٹ ہیں۔عالمی امن و سلامتی ،ترقی، خوشحالی اور اس دنیا کے تمام مسائل کا حل اسلام کے پاس موجود ہے اور اسی کی دنیا کو تلاش ہے۔ اگر مغرب یہ سمجھتاہے کہ وہ نیا عالمی معاشرہ مسلمانوں کے کردار کے بغیر تعمیر کر سکے گا تو یہ اس کی بھول ہے۔ آج کے مسلمان کی کمزور حالت کا سبب یہ ہے کہ وہ اسلام سے جدا ہو گیا ہے۔ جب تک ہم حقیقتاً اسلام سے وابستہ رہیں گے ہم پر زوال نہیں آسکتا ہے۔
قرآن میں یہ وعدہ کچھ یوں بیان ہوا ہے اگر تم باایمان رہوگے تو تم ہی سرفراز رہو گے۔ جب ہم نظریاتی اور عملی سطح سے اسلام سے دور ہوتے ہیں تو ہمیں زوال سے دوچار ہونا پڑتا ہے اگرچہ مسلمانوں نے ایک ہزار سال حکومت بھی کی ہے مگر اسلام کو صرف حکومت اور سیاست سے جوڑنا مناسب نہیں ہو گا۔ اسلام انفرادی زندگی، خانوادگی زندگی اور معاشرتی زندگی میں بھی ہمارا رہنما ہے۔ ہم حکومت کریں یا نہ کریں دونوں صورتوں میں ہم مسلمان رہ سکتے ہیں لیکن یہ تصور کر لینا کہ ہم حکومت نہیں کر رہے تو گویا ہم اسلام سے دور ہیں۔ یہ تصور عجیب لگتا ہے مسلمانوں نے جب تک خدمت اور اخلاق کے جذبے سے سرشار ہو کر حکومت کی وہ باعزت بھی رہے اور باکمال بھی۔ جب تک وہ خالص اسلامی اصولوں پر کاربند رہے کامیابیاں ملتی رہیں اور جب مسلمانوں نے اسلام کی تعلیمات کو چھوڑ کے ملوکیت کو اپنایا وہیں سے زوال نے انہیں آلیا۔اور وہ اس کا شکار ہوتے چلے گئے ۔
آج مسلمانوں کو قرآن کی طرف واپس پلٹنا ہو گا وہی ان کا رہنما ہے اسے پوری معنویت کے ساتھ قبول کرنا ہو گا یہ نہ ہو کہ اس کے ایک حصے کو مانیں اور ایک حصے سے صرف نگاہ کر جائیں بلکہ اسے بحثیت کل اختیار کریں۔ قرآن نے جو درس توحید دیا ہے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے اور اسے اختیار کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے۔ انسان فطرت توحید پر پیدا ہوا ہے۔ گویا توحید انسانی فطرت میں شامل ہے لوگوں کو خدائے واحد کی طرف بلانا فطرت کی طرف واپس بلانا ہے یہی اس وقت سب سے بڑی اساس ہے۔
حقیقت توحید سے آشنا ہو کر تمام عالم بشریت اپنے مسائل پر قابو پا سکتی ہے اگر ہم حقیقت توحید سے وابستہ ہو جائیں تو اقتصادی،سیاسی،اخلاقی،انفرادی اوراجتماعی مسائل سے نہ صرف چھٹکارا پاسکتے ہیں بلکہ امن و سکون اور عافیت کا سامان اس دنیا میں بھی مل سکتا ہے اور آخرت کی منزل بھی آسان ہو سکتی ہے قرآن کا مطالعہ کرنے کے بعد انسان سیرت سے بے نیاز ہو سکتا ہی نہیں ہے۔ ہر آیت سیرت سے جڑی ہوئی ہے یوں تو پوری سیرت پر عمل کرنا لازمی ہے مگر امت مسلمہ کو سیرت کا ایک ایسا پہلو ہے جسے فوراً اختیار کرنا چائیے۔
 آج کے حالات میں اس کی اہمیت وافادیت کافی بڑھ گئی ہے اور وہ ہے آپؐ کا عطا کیا ہوا تہذیبی رویہ۔ جو رواداری کا رویہ آپؐ نے عطا کیا ہے اس کی مثال پیش کرنا ممکن ہی نہیں ہے یعنی تم دوسروں کے باطل خداؤں کو بھی برا نہ کہو مبادا وہ تھمارے برحق خدا کو ناراضگی یا دشمنی کی بنیاد پر برا کہیں۔ یہ وہ عظیم الشان فکری بنیاد ہے جو فکری سطح پر تمام عالم انسانیت کو متحد کر سکتی ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ مسلمان امت قرآن و سنت کے عطا کردہ اس تہذیبی رویے پر فکری طور پر برقرار رہی ہے اسی لیے آپ چودہ سو برس میں کوئی ایک قابل ذکر مسلمان تہذیب و ثقافت سے ابھرنے والا ادیب،شاعریا مصنف ایسا پیش نہیں کر سکتے جس نے کسی دوسرے دین و مذہب کے رہنما کی تذلیل و توہین کے لیے قلم اٹھایا ہو۔
جبکہ اس کے برعکس دوسری طرف سے تحریروں اور خاکوں کے ذریعے گستاخیاں بھی کی گئی ہیں اور قرآن پاک کو جلایا بھی گیا ہے۔ مسلمانوں کی طرف سے کبھی ایسی حرکت سامنے نہیں آئی یہی ایک زندہ باوقار اور ترقی کرتی ہوئی قوم کا شیوہ ہے جس پر بلاشبہ ہم ناز کرتے ہیں اب بے حرمتی کرنے والی قوموں کی ذہنی پستی کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں رہا ہے۔ آج کل ایک تاثر یہ بھی پیش کیا جا رہا ہے کہ مسلمان گزشتہ پانچ سو برسوں میں دنیا کو کچھ نہیں دے سکے۔
 مگر یہ درست نہیں ہے اس دنیا کی اساس قانون ارتقاء پر ہے ایک ہمہ گیر، کامل وشامل اصول ارتقاء پر یہ کائنات قائم ہے اس لیے یہاں جو چیزیں بھی ہیں وہ اس ارتقائی عمل میں اپنا حصہ ضرور ڈال رہی ہیں۔ مسلمان امت نے بھی اپنا کردار ادا کیاہے چاہے اس کا کوئی اعتراف کرے یا نہ کرے مثال کے لیے امام خمینی کو پیش کیا جا سکتا ہے انہیں کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے وہ ایک فلسفی،عارف، صوفی اور عظیم رہنماء تھے۔ انہوں نے عالم بشریت کو ایک نیا نظام عطا کیا جس نے ایک جامد ملک کو فعال اور ترقی پذیر بنایا۔ اسے وہ رفتار ترقی عطا کی کہ وہ آج ترقی یافتہ ملکوں سے آنکھ ملا رہا ہے مغرب اور امریکہ کے اپنی پسند کے عالمی معاشرے کے قیام میں اس وقت ایران بڑی مخالف قوت ہے امریکہ کے توسیع پسندانہ عزائم کے مقابلے میں ایران کھڑا ہے انقلاب ایران نے دنیا میں آزادی کی تحریکوں کو ایک نئی تقویت دی ہے۔
اسلامی انقلاب نے دنیا کو بے چین اور بے قرار کیا ہے اس اضطراب کا پیدا ہونا ہمیں یہ بتاتا ہے کہ لوگ مسلمانوں کے افکار سے متاثر ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں کے موجودہ سیاسی کردار میں اصلاح کی ضرورت ہے آج مسلمانوں کو حکمرانوں اور سیاستدانوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ مسلمان کو توحید پرست ہونا چایئے۔ حقیقت توحید سے آشنائی میں ہی تمام مسائل کا حل ہے اسے صرف خدا کے بنائے ہوے اصولوں اور تعلیمات پر عمل کرنا ہو گا۔
مگر خرابی اس وقت پیدا ہوئی جب آج مسلمان شخصیت پرستی کی طرف راغب ہوا ہے موجودہ مسلمان لیڈروں کی اکثریت مغرب اور امریکہ نواز ہے اور ان کے پیروں کارہر وقت آنکھیں بند کیے ان کے اشاروں پر تیار اور مستعد رہتے ہیں اس طرز عمل سے دہشت گردی اور انتہاپسندی سمیت کئی ایک برائیاں جنم لے رہی ہیں مسلمانوں میں شدت پسندی ان ہی لیڈروں کی وجہ سے آئی ہے اسلام تو انسانی جان کی قدر و قیمت سے واقف ہے اس کا تہذیبی رویہ مثالی ہے اسی لیے بڑے بڑے علما نے شخصیت پرستی کو درست نہیں جانا ہے ایک مسلمان کو توحید پرست ہونا چاہیے توحید قرآن اور سیرت کے اصول ایک مسلمان کے لیے راہ عمل ہونے چاہیے جو لیڈر ان تینوں کے بتائے ہوئے اصولوں پر چلے اس کا ساتھ دیا جائے بصورت دیگر اس سے منہ موڑ لیا جائے اسی میں مسلمانوں کی بھلائی ،عزت اور ترقی ہے۔