غامدی صاحب اور ریاست کے نظریے کی بحث

ڈاکٹر عرفان شہزاد

غامدی صاحب اور ریاست کے نظریے کی بحث

از، ڈاکٹر عرفان شہزاد

ریاست کا کوئی مذہب اور نظریہ نہیں ہوتا، افراد کا ہوتا ہے۔ ریاست ایک غیر شخصی وُجود ہے اسے نظریاتی، یا مذہبی بنانا درست نہیں۔ جاوید احمد غامدی صاحب کے سیاسی مؤقف کا یہ بنیادی مقدمہ ہے۔

راقم کے علم میں نہیں کہ کسی ایک جگہ بھی ان کی طرف سے یہ کہا گیا ہو کہ ریاست کا نظریہ جمہوریت ہونا چاہیے۔ یہ بھی وہ افراد سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ سیاست میں انھیں جمہوری اقدار اختیار کرنی چاہییں۔ اس لیے یہ تنقید بے مَحَل ہے کہ وہ ریاست کے لیے جمہوری نظریہ کے قائل ہیں۔ ریاست اس کی اہلیت ہی نہیں رکھتی کہ اس کا کوئی نظریہ ہو۔

نظریہ یا عقیدہ زندہ افراد کا ہوتا ہے جب کہ ریاست ایک غیر شخصی وُجود ہے۔ اس کے با وُجود ریاست کے ماتھے پر جب کسی عقیدے یا نظریے کا ٹیکا لگا دیا جاتا تو کیا ہوتا ہے، اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ریاست پر پہلے سے لاگو کسی مذہبی و غیر مذہبی اِزم کے معاہدے کے تحت افراد کو حکومت میں شامل کرنا جمہوری اقدار کے خلاف ہے۔ یہ اس لیے کہ ایک قومی ریاست مختلفُ الخیال شہریوں کی حامل ہوتی ہے۔ کسی اکثریت کو جیسے یہ حق نہیں کہ وہ اپنی اکثریت کے بَل بُوتے پر ریاست کو مذہب کے نام پر رجسٹرڈ کرا لے، اسی طرح سیکولرازم کی حامل اکثریت کو بھی یہ حق نہیں کہ اپنے سماج کی اقلیت کی مرضی کے علی الرغم ریاست کے نظریے کے بارے میں ایسا مستقل بند و بست بنانے کی کوشش کرے جس میں تمام باشندوں کی مرضی شامل نہ ہو۔

یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک بے ملکیت کے سرائے، جس میں مختلف لوگ مل کر رہتے ہوں، کوئی ایک خاندان اپنی طاقت کے بَل پر اپنے نام کرا لے۔ اس سرائے کو مسجد قرار دینے کی گنجائش ہے نہ مندر، اسے لبرلز کی اقامت گاہ کا نام دیا جا سکتا ہے اور نہ سیکولرازم کا آشیانہ۔ اسے جمہوریت کا گھر بھی نہیں کہا جا سکتا۔

یہ سرائے ان نظریات کے حامل سب لوگوں کی رہائش گاہ ہے۔ اس کا نظام کیسے چلے گا یہ افراد طے کریں گے۔

افراد کی اکثریت جس نظام پر متفق ہو جائے گی اسی پر اس کا انتظام چلایا جائے، لیکن کسی رائے پر اکٹھا ہو جانے والے افراد کی اکثریت کو یہ حق عدل و انصاف کے کسی اصول سے حاصل نہیں وہ اس پر اپنے مخصوص عقیدے یا نظریے کی تختی آویزاں کر دیں، جس سے اس کے رہائشی تمام لوگوں کے نظریات کے تنوُّع کی نمائندگی نہ ہو سکتی ہو۔

یہ ممکن ہےکہ نظام چلانے کے لیے مقرر کردہ اصول مذہبی نوعیت کے ہوں، یا سیکولر نوعیت کے، مگر نظام کے مذہبی یا غیر مذہبی ہونے کو سرائے کے مذہبی یا غیر مذہبی کے مترادف سمجھ لینا غلط ہے۔

اکثریتی اور اقلیتی آراء کی رَزم گاہ حکومت اور پارلمینٹ کو ہونا چاہیے۔

وہاں بھی یہ ممکن ہے کہ اکثریت کوئی استبداد قائم کر لے۔ مگر اب یہ معاملہ افراد کے درمیان ہو گا، جسے انسانی بنیادوں پر طے کیا جائے گا، اصلاح کی کوشش کی جائے گی۔ قانون کو آواز دی جائے گی۔ قانون میں کمی یا کجی ہے تو اسے دُرُست کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ پھر یہ ہے کہ جیسے ہی اس اکثریت کی حکومت رخصت ہو گی استبداد کے رخصت ہو جانے کا امکان بھی ہو گا۔

لیکن اگر آپ ریاست کے مالک بن کر ریاست کے نظریّے کی وصیت کر جائیں گے تو آنے والوں کو طوہاً و کرہاً اس پر عمل کرنا ہو گا اور یہ آزادیِ اظہار و عمل کے خلاف ہے جو بنیادی جمہوری قدر ہے۔ یہ وہی خدا کی آزادی انتخاب کی سکیم ہے۔

سیکولرازم یہ لازم قرار دیتا ہے سیاسی معاملات میں مذہب کو دخیل نہیں ہونے دیا جائے گا چاہے جمہور اس کے بَر عکس رائے رکھتے ہوں۔ یہ استبداد ہے۔ یہ فیصلہ جمہور کو کرنا ہے کہ نظامِ حکومت کیا ہونا چاہیے۔ وہ اگر بالفرض مُلّائیت کو ہی چاہتے ہیں تو اسے ہی آنے دینا ہو گا۔ ڈر کس چیز کا ہوتا ہے؟ ڈر فاشسٹ روَیّے کا ہوتا ہے جو اہلِ مذہب میں بھی پایا جاتا ہے اور دنیا طویل عرصے تک اس کا تجربہ کرنے کے بعد اس کا حل سیکولرازم میں ڈھونڈ لینے کی مدعی ہے۔

جب کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ فاشسٹ رویے سیکولرازم، بَل کہ جمہوری ملکوں میں بھی موجود رہے۔ تو مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ فرد ہے۔ وہ کسی بھی مذہبی یا غیر مذہبی ازم کا حامی ہو کر فاشسٹ بھی ہو سکتا اور جمہوریت پسند بھی۔

کرنے کا کام یہ ہے کہ استبدادی روَیّوں کو قابو میں لانے کے لیے قانون کی بالا دستی کو یقینی بنایا جائے۔ سماج کو انسانی حُقوق سے بارے میں آگاہی سے انھیں ان کے لیے حساس بنایا جائے۔

نظامِ سیاست کی یہ ساری بحث افراد اور حکومت سے متعلق رہنی چاہیے۔ جمہور کی نمائندہ حکومتی جماعت اگر سیکوازم کے نظریے کے تحت چلنا چاہتی ہے تو اسے اس کا حق ہے۔ یہی حق ایک مذہبی جماعت کو بھی حاصل ہے۔ قانون سازی خالص عقل کی بنیاد پر ہو گی یا مذہبی تعبیرات کی بنیاد پر جمہور جس رجحان کے حامی ہیں اسی کو راہ دینا ہو گی۔

رہا معاملہ استبدادی روَیّوں کو تو مکرر عرض ہے کہ قانون کی بالا دستی اور سماجی حساسیت ہی اس کا علاج ہے۔