شخصیت پر جبری قبضہ اور اس کی مضریات

Naseer Ahmed, the writer

شخصیت پر جبری قبضہ اور اس کی مضریات

از، نصیر احمد

جان سٹوئرٹ مل JS Mill لطف کی جستجو میں انفرادیت سازی پر اصرار کرتے ہیں کیوں کہ ان کے خیال میں ایک پُر لطف زندگی اس احساس و شعور کا نام ہے کہ ہم اپنے ذاتی ترتیب ہوئے تصورِ حیات کے مطابق جی رہے ہیں۔ اسی لیے انھوں نے آزادی کا بہت پرچار کیا ہے اور انفرادی آزادیوں کو جبر اور ضرر سے محفوظ رکھنے کے بھی پیغامات دیے ہیں۔

انفرادیت سازی کے لیے ایک خوش حال زندگی، ایک اچھی تعلیم اور آزادیوں کے اظہار کے پلیٹ فارم بہت ضروری ہو جاتے ہیں اس لیے افادیت پسندوں نے فرد کی بھلائی کے لیے جمہوری قوانین اور جمہوری ثقافت کو بہتر کرنے میں کافی اچھا کردار ادا کیا ہے۔ انفرادیت سازی کے لطف کے لیے ملز کے مطابق معاشرے سے ربط و ضبط بھی ضروری ہے جس کی وجہ شہریت کے امکان بھی اجاگر ہو جاتے ہیں۔

جسے ہم شخصیت پر  جبری قبضہ کہہ رہے ہیں وہ انفرادیت سازی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ لنڈا ڈبرو مارشل اور راڈ ڈبرو مارشل کے مطابق قبضہ گیر رویے شناخت کیے جا سکتے ہیں جب کوئی کسی فرد کو اس کے دوستوں اور کنبے کٹم والوں سے دور کر دے۔ ان کے وقت کی نگرانی کرے اور ان کی زندگی کی ہر جہت یا مختلف جہتوں کا فرماں روا ہو جائے کہ ستم زدے مل کس سے سکتے ہیں، دیکھ کیا سکتے ہیں اور کب اور کس وقت سو سکتے ہیں۔ اب افراد کی آراء پر ہر وقت فیصلے دینا، انھیں مسلسل احمق اور بے وقوف بتانا بھی ان سے ان کے امکانات چھیننے کی کڑیاں ہوتی ہیں۔

ایسے افراد کے لیے اس قبضہ گیری کے نتائج بڑھتی ہوئی تنہائی، جذباتی عُزلت پسندی یا بے حس سی لا تعلقی، بڑھی ہوئی بے چینی، ڈیپریشن اور شخصیت میں سکون اور اعتماد کے حوالے سے منفی تبدیلیوں کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔

اب برطانیہ عظیم میں شخصیت پر قبضہ گیری کے قوانین بھی ہیں اور ماہرین نفسیات کے ذریعے ستم زدوں کی شخصیت کی بحالی کی بھی کوششیں کی جاتی ہیں کہ جیسے فرہاد مہراد نے نجوی میں گایا ہے کہ اور افراد اپنی مرضی سے پڑھ سکیں، دیکھ سکیں،اپنی مرضی کی بات کہہ سکیں، اپنی مرضی سے چن سکیں اور مل انفرادیت سازی کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں، اس کے تقاضے پورے ہو سکیں اور معاشرے کو اچھے افراد اور مفید شہری مل سکیں اور افراد بھی ایک پر لطف اپنے تصورات کے مطابق جی سکیں۔

ان اچھے قوانین اور سماجی شعور کے با وجود نفسیات دان اور دیگر اہلِ فکر کچھ اہم باتیں نظر انداز کر رہے ہیں۔ مثال کے دورِ عصر حاضر کا کار و بار قبضہ گیری کو معیشتی، نفسیاتی، سیاسی اور معاشرتی صفت سمجھتا ہے اور لوگ کار و بار کی چمکتی دمکتی کامیابی  کے ہمارے ہاں کے شیخ کے ارد گرد اچھلتے کودتے مریدوں کی طرح عقیدت مند ہیں۔ کوئی امیر آدمی سٹیج پر آ جائے تو لوگ اگر حقیقت میں نہیں تو ذہنی طور پر ایک غلامی اختیار کر لیتے ہیں۔

دلوں اور ذہنوں پر امیر لوگوں کا اس قدر قبضہ مثالیہ بن ہی جاتا ہے اور شخصیت شکنی کے مسلسل تجربات کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اور رنگ بہ رنگی خوش نما چیزیں دیکھتے، خریدتے، خرید کر مچلتے اورٹیلی سے، گھر سے، کالج سے یونیورسٹی سے، کام کی جگہوں سے دوسروں کی شخصیات پر قبضہ گیری کے نسخے سیکھتے عمریا بیت جاتی ہے اور موقع ہی نہیں ملتا کہ اپنی شخصیت کی ایسی افزائش کر سکیں جو کار و بار کا سِحَر توڑ کر شہریت بحال کر دے۔

اب تو جڑوں کی تلاش، مہاجرین دشمنی اور زرق برق کپڑوں میں ملبوس گدھوں کے عروج کی صورت میں نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ مگر قبضہ کب حقائق دیکھنے دیتا ہے۔ کبھی فکر دامن گیر بھی ہو جائے تو پاس سے ایک شرلی سی اٹھتی ہے اور وہ جذباتی ڈراما کرتی ہے کہ با قاعدہ فلسفی بوکھلا جاتے ہیں۔ سوچنے سے بھاگنے والے تو شرلیوں کے ناز و انداز میں ہی کھوئے رہتے ہیں۔

خیر جو صدیوں کے ایڈوانٹیج ہیں، وہ بھی ختم نہیں ہوتے، اس لیے اس قبضہ گیری کے خلاف کہیں نہ کہیں کچھ بات بھی چل رہی ہوتی ہے۔ لیکن زندگی کے متعلق کار و بار کا ایک نافذ کردہ نکتۂِ نظر اگر چیلنج نہیں ہو گا تو کوششوں کے با وجود بھی شخصیات کو قبضے اور شکست و ریخت سے محفوظ رکھنا مشکل ہو گا۔ اب ہم امیر دشمن نہیں ہیں لیکن اگر امیروں میں اشرف اور شہری نہیں رہے تو کیا کریں۔ اپنے حلقوں میں اشرف، خاتون اور شہری کی مسلسل موجودی رئیسوں کا بھی تو فرض تھا۔

یہاں کا وہاں  سے مقابلہ یا موازنہ تو نہیں کیا جا سکتا لیکن شخصیت پر قبضہ گیری ایک عالم گیر مسئلہ ہے اور معاشرے ایک دوسرے سے سیکھ سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو کسی کو مٹھی میں لانا، زیرِ دام کرنا اور ٹکرے کے نیچے کرنا، سنگ دل کو قدموں تلے لانا ایک خوبی سمجھی جاتی ہے اور اس کے لیے نفسیاتی، مالی، جذباتی اور جسمانی تشدد کو بھی اتنا معیوب نہیں سمجھا جاتا اگر بات پردے میں رہے اور بات کو پردے میں رکھنے کا ہنر بھی ستم کاروں اور ستم زدوں کو خوب آتا ہے۔

بچپن سے ہی لوگ کائناتی مقاصد کی تجربہ گاہ کی لیبارٹری کے شاہ دولے سے بنا دیے جاتے ہیں اور آزادی والدین تک کو نہیں بھاتی۔ اور اگر کسی  وجہ سے آزادی کا والدین کوئی حل نہ کر سکیں تو معاشرہ آزادی کا تدارک کر لیتا ہے۔

فرد کا ایک فیصلہ ساز کے طور پر تصور پر ابھی گفتگو ہی نہیں شروع ہوئی مگر غیر مشروط تسلیم و تعمیل کے ہر وقت گُن گائے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی فرہاد مہراد کا نجوی گانے لگے یعنی اپنی مرضی سے سوچنے لگے تو نہ صرف اجنبی ہو جاتا ہے بَل کہ مردود بھی۔ جمہوری فلسفی تو استعماری اور سامراجی کے ایک طعنے سے ہی مسترد کر دیے جاتے ہیں، مُصَلّے پر بیٹھی بیبیاں دعائے نور پڑھنی لگتی ہیں کہ خدا اس کم بخت کو کچھ ہدایت دے ورنہ ہم تو لٹ گئے۔

اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فرد زندگی کے بارے میں اپنا ایک نکتۂِ نظر نہیں ترتیب دے پاتا اور اپنی شہری ذمہ داریوں سے اس کی کچھ وابستگی نہیں ہو پاتی۔ اور یہ جو مسائل اور جرائم  کا جنگل ہے، ہمارے خیال میں اس کی اہم وجوہات ان دو بنیادی نا کامیوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

مسئلہ یہاں پر بھی مقتدروں اور رئیسوں کے نافذ کردہ زندگی کے بارے میں ایک نکتۂِ نظر کا ہی ہے۔ اور وہ نکتۂِ نظر انسانی شخصیت پر ایک قطعی اور مکمل قبضے کا ہے۔ اور اگر یہ قبضہ ممکن نہ ہو تو انسانی شخصیت کے خاتمہ اس نکتۂِ نظر کا ایک اور اہم  فیچر ہے ۔ اس نکتۂِ نظر کے ساتھ تو ٹیکنالوجی تو قاتل ہو جاتی ہے جس کی ایک جھلک چین کے یوئیغوروں کے حالات میں دیکھی جا سکتی ہے کہ جیتے جاگتے بھوت بنا دیے گئے ہیں۔

ایک کام تو کیا جا سکتا ہے کہ دوسروں کی شخصیات پر قبضہ ترک کردیا جائے اور ان کی ان کے اپنے نکتۂِ نظر کے مطابق انفرادیت سازی کی کوششوں میں معاونت کی جائے۔ اور زندگی کے بارے رائج نکتۂِ نظر کو بھی چیلنج کیا جائے۔