انسانی فطرت میں جذبہ تخلیق اور مصوری

انسانی فطرت میں جذبہ تخلیق اور مصوری
انسانی فطرت میں جذبہ تخلیق اور مصوری
(عبداللہ عتیق)
انسانی فطرت میں جذبہ تخلیق ازل سے ہے جس کی وجہ سے ہی یہ تمام تر تخلیقات وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ اگر سنسکرت ادب کی رو کے لحاظ سے دیکھا جائے تو فن کی دو اقسام نظر آتی ہیں۔
۱) اپ یوگی
۲) للت کلأ
مصوری کا تعلق للت کلأ سے ہے۔ اس کے علاوہ بت سازی، تعمیر، شاعری اور موسیقی بھی اس کلأ میں شامل ہے۔ ایک مصور اپنے کردار کے دل کی دنیا کو اس کے بشرہ اس کی ادا و اندازمیں

عبداللہ عتیق (صاحبِ تحریر)

اس طرح روشن کر دیتا ہے کہ اہل نظر سے اس کے جذباتِ قلبی اور محسوسات باطنی بھی پوشیدہ نہیں رہتے۔ ماہرین فن کی تلاش و تحقیق اس امر کی شاہد ہیں کہ پتھر اور دھات کے زمانے سے بہت پہلے ہی سر زمین ہند میں مصوری کا دور دورہ تھا۔ کیمور اور ہندیا چل کی وادیوں سنگھان پور اور مرزا پور کی پہاڑیوں کے دامن میں ایسے بے شمار مناظر موجود ہیں جو اس دعوے کی تصدیق کرتے ہیں۔

مصوری کی بہت سی اقسام ہیں جن میں بڑے پتھر پر اپنے قلم کے جوہر دکھانا عموماََ یہ کام ایک ہی شخص کے ہاتھوں انجام پاتا اس کے آثار بابل نینوا، قستنطینیہ اور قاہرہ کی عمارتوں میں ملتے ہیں۔ کہیں کہیں سنگ مرمر کی تہہ چڑھا کر نقوش کو ابھارا گیا ہے۔ آبدار و رنگین اینٹوں اور ائنی ٹکڑوں کی ملاوٹ سے مختلف النواع کے پھول پتے بنانا ہے۔ ساسانی اور شامی کاریگروں کو اس طرذ کا موجد کہا جاتا ہے ۱۱ اور ۱۲ صدی کے مسلمانوں نے اس فن میں خوب داوصول کی۔ سیاہ و سفید پچی کاری کی ابتدا اٹلی سے ہوی تھی۔ ۱۷ویں صدی سپین میں مصوری کی ایک اورقسم رائج تھی جس میں بھیڑ بکری کی کھال کو استعمال کیا جاتا تھا۔
مصوری میں روغنی رنگوں کا استعمال کیا گیالیکن اس میں حد درجہ مقبولیت حاصل نہ ہو سکی۔ کپڑے وغیرہ پر بھی تصویر سازی کے جوہر دکھاے گے۔ہمأیوں نے اپنے کتب خانے کے لیے حمزہ نامہ کی ایک نقل کرمچ پر اتروائ ۔ اس نایاب کتاب کے چند اوراق پریشان ہنوز مغربی عجائب گھروں کی زینت ہیں۔
۳۰۰ ؁ کے بعد مصوری بالکل ہی معدوم ہو گئ اور اس نے بعد میں دوبارہ جنم لیا۔ اشوک کے عہد سے سنگ سازی کی صنعت زور پکڑ رہی تھی۔کنشک کے زمانہ حکومت میں بت سازی نے بھی ہاتھ پاؤں نکالنا شروع کیے۔ کچھ محقیقین کی یہ رائے ہے کہ ۷۰۰ ؁۔۱۶۰۰ ؁ تک بدھ مذہب کے جانے کی بعد ہی فن تصویر نے بھی رخصت لی ۔ لیکن دو واقعات ایسے ہین جو اس کی تردید کرتے ہیں۔
*۷۰۰ کے اوائل میں عربوں نے محمد بن قاسم کی زیر قیادت سندھ پر حملہ کیا۔ اس کے بعد چند ہندو مصوروں کا گروہ حاضر ہوا اور قاسم اور دیگر کمانداروں کی تصویر بنانے کی اجازت طلب کی۔
*۱۶۰۰ ؁ کے دور اخر کا ایک اور واقع جب سنجو گیتا نے پرتھوی راج کی سپر کار تصویر دیکھتے ہی دل دے دیا تھا۔ مشرقی ترکستان اور تبت سے اس زمانے کے ہندی فن تصویر کے شواہد ملتے ہیں
بدھ وغیرہ کے بت اورباتصویر ریشمی پرچم وغیرہ ہند سے ہی ہیں ۔ بنگال کے مصور ریشم پر بدھ کی تصویریں بنانا بے حد پسند کرتے تھے اور اس کام میں کوئ ثانی نہ رکھتے تھے۔(ٹینگ چن)
دنیائے مشرق بہزاد کو اپنے عہد کا یکتا مصور تسلیم کر چکی تھی۔ اکبر کو فنِ مصوری سے بے حد دلچسپی تھی اس لیے اس نے اس مقصد کے لیے وہ تمام کام کیے جو اس کے شایانِ شان تھے۔ جس طرح مغل ہندوستان آ کر اس میں مکمل رچ بس گئے تھے اسی طرح ہندی مصوروں نے جس احسن خوبی کے ساتھ ایرانیوں کو جذب کیا ان کے فن پارے دیکھ کر ایرانی بھی عش عش کر اٹھے۔ مصوروں کو دربار میں امتیازی جگہ ملتی تھی۔ جہانگیر نے برملا کبشن کوداس کولاثانی مصور تسلیم کیا۔
شاہ جہان کے دور میں مصوری کے زوال کا آغاز ہوا۔اورنگ زیب کے دور میں تو مصوری جلد ہی مٹ گئی ۔ حتی کہ یہ فن لکھنو تک جا پہنچا واجد علی شاہ کی قد آدم اور شاندار تصویر اس مہارت کو بیا ن کرتی ہے۔ ۱۸ویں صدی کے آغاز ہے سے مصوری بے حد خستہ حال ہو گئی اور اب تک دوبارہ اپنا پہلے جیسا وقار حاصل نہ کر سکی۔

کتابیات
1) قدیم انسان اور فن مصوری          ڈاکٹرمسرت حسین
2) مغل مکتب مصوری                 امین راحت چغتائی   مقتدرہ قومی زبان
3) ایک قدیم رسالہ زمانہ     کانپور کے چند مضامین